بچوں کو نظرانداز نہ کیجیے
چھ سات سال کا وہ بچہ پچھلے صحن میں ایک کمرے کی چھت پر پھنسا ہوا تھا اور ماں کو مسلسل پکار رہا تھا۔ شاید کھیل کھیل میں اس نے دوسری منزل کی زیر تعمیر بالکونی سے وہاں چھلانگ لگائی تھی جو بمشکل دو تین فٹ ہی اوپر تھی۔ لیکن اب واپس اوپر جانا ممکن نہ تھا اور نیچے ظاہر ہے چھلانگ لگا نہیں سکتا تھا۔
اب وہ لاچار ہوکر ماں کو اسی طرح پکار رہا تھا جیسے ایک بندہ لاچار ہوکر خدا کو پکارتا ہے۔ میرے باورچی خانے کی کھڑکی سے یہ سارا منظر صاف نظر آرہا تھا۔
ماں نے گھر کے اندر سے جواب دیا ’’'میں نہیں آرہی۔ خود اترو، اور جیسے جی چاہے اترو۔‘‘
’’ماما، پلیز آجائیں، میں پھنسا ہوا ہوں‘‘۔ بچے نے منمناتی آواز میں کہا۔
’’جیسے گئے ہو ویسے ہی آجاؤ۔ اور ادھر آؤ گے تو میں چھوڑوں گی نہیں۔‘‘
بچہ دھوپ کی تپش اور ماں کے خوف سے رونے لگا۔ ’’ابھی بابا آئیں گے تو تمہیں پتا چلے گا۔‘‘ ماں نے بچے کو مزید دھمکایا۔ بچے نے باقاعدہ اونچی آواز میں رونا شروع کردیا۔
میرا کھانا پک چکا تھا لہٰذا اب باورچی خانے میں رکنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ میں نے سوچا آخری بار دیکھ لوں کہ بچہ کیا کر رہا ہے۔ بچہ اب بے آواز سسکیاں لے کر رو رہا تھا اور اچھل اچھل کر اوپر جھانکنے کی کوشش کر رہا تھا۔
چند منٹ اور گزرے تو باپ کے خوف سے بچے نے زور زور سے چلانا شروع کردیا ’’انکل، انکل، کوئی ہے؟‘‘ آخر ایک مزدور نے آواز سن لی، جو غالباً دوسری منزل پر ہی کام کر رہا تھا۔ مزدور نے بچے کی مدد کی خاطر بالکونی سے دونوں ہاتھ بڑھائے اور بازوؤں سے پکڑ کر اسے اوپر کھینچ لیا۔ بچے نے سکھ کا سانس لیا اور چھوٹتے ہی کہا ’’انکل، میرے بابا کو مت بتائیے گا‘‘۔ مزدور نے ہنستے ہوئے کہا ’’باپ سے ڈرتے ہو؟‘‘ بچے نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ اور مزدور اسے اس زیر تعمیر حصے کے اندر لے گیا۔
آگے کیا ہوا؟ اگر آپ اس کہانی کا کوئی بہت دردناک انجام سوچ رہے ہیں تو خدانخواستہ ایسا کچھ نہیں ہے۔ مزدور یقیناً واپس اپنے کام کی طرف پلٹ گیا ہوگا اور بچہ نیچے والدہ کے پاس چلا گیا ہوگا۔ لیکن جو آپ نے سوچا وہ ناممکن بھی نہیں اور یقیناً بہت سے حادثات اسی طرح ہوتے ہیں کہ جب بچہ یا اس کے والدین، ان لوگوں پر بھروسہ کرنے لگیں جن پر نہیں کرنا چاہیے۔ اور انہیں ان لوگوں سے مدد نہ ملے جن سے ملنی چاہیے۔
بچپن سے لڑکپن تک، بچہ جب بھی کسی مشکل میں پھنستا ہے تو عموماً یہی ’’ادھر آؤ تو میں تمہیں نہیں چھوڑوں گی‘‘ والا رویہ اسے ماں باپ سے برگشتہ کرتا ہے۔ نتیجتاً وہ انہیں اپنا دوست سمجھنے کے بجائے دشمن تصور کرتا ہے اور فاصلہ رکھنے لگتا ہے۔ والدین سے باتیں چھپانا اور دروغ گوئی گویا فطرت بن جاتے ہیں۔ ظاہر ہے جب آپ بچے کی غلط بات پر چیخ و پکار اور غصے کا اظہار کریں گے تو وہ آپ کو یہ یقین دلائے گا کہ اس نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ وہ اپنی غلطیاں اور کوتاہیاں تسلیم کرنے میں عار محسوس کرے گا۔ نتیجتاً غلط فیصلے، غلط صحبتیں اور غلط عادات اس کا مقدر بن سکتی ہیں۔
غصہ آنا یقیناً ایک فطری عمل ہے اور کوئی انسان ایسا نہیں جسے غصہ نہ آتا ہو۔ لیکن اس کا اظہار ہی وہ تحدید ہے جو آپ کی شخصیت کا خاکہ بناتی ہے۔ بقول بہادر شاہ ظفر
ظفر آدمی اس کو نہ جانیے گا، ہو وہ کیسا ہی صاحبِ فہم و ذکا
جسے عیش میں یادِ خدا نہ رہی، جسے طیش میں خوفِ خدا نہ رہا
ہم عموماً گھر سے باہر ان لوگوں سے تو بہت تہذیب اور شائستگی سے پیش آتے ہیں جن کا ہماری دنیاوی و اخروی زندگی پر کوئی اثر و رسوخ نہیں ہوتا لیکن ان لوگوں کے ساتھ بے حد غیر موزوں رویہ رکھتے ہیں جو ہماری سب سے زیادہ محبت اور توجہ کے حقدار ہیں۔ حدیث پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا مفہوم ہے کہ تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا ہو۔
اور اگر آپ سوچ رہے ہیں کہ آپ کا بچہ ایسا نہیں ہوسکتا تو اطلاعاً عرض ہے کہ یہ سب تبدیلیاں رفتہ رفتہ غیر محسوس طریقے سے واقع ہوتی ہیں یہاں تک کہ جب احساس ہوتا ہے تو پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے۔ عادتیں پختہ ہوجاتی ہیں ۔ رشتوں کی بنیادیں کمزور رہ جاتی ہیں، اور بچے کی شخصیت میں برداشت، بردباری اور وسیع القلبی نہیں پنپتی۔
ہمارے معاشرے میں ایک بہت بڑی غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ بچوں کی تربیت تقریر سے کی جاتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ تربیت کا بہترین طریقہ عمل ہے۔ بچہ خود کو اسی سانچے میں ڈھالتا ہے جس میں وہ آپ کو دیکھتا ہے۔ جب وہ آپ کو اپنی ہر غلطی پر چیختے چنگھاڑتے اور مارتے پیٹتے دیکھے گا تو وہ اپنی زندگی میں آنے والے انسانوں کے ساتھ کم و بیش وہی رویہ روا رکھے گا، در گزر اور معاف کرنا نہیں سیکھے گا۔
معاشرے کی عمارت افراد سے ہی تشکیل پاتی ہے۔ لہٰذا زود رنج اور انتہاپسند انسانوں سے بھرا معاشرہ بھی برداشت سے عاری اور شدت پسند ہی ہوگا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔