مخملی آواز کا مالک، طلعت محمود (دوسرا اور آخری حصہ)

طلعت کی آواز میں ایک خاص دلکشی ہے۔ اس کی آواز سیدھی دل میں اتر جاتی ہے۔

fatimaqazi7@gmail.com

دوسرا بریک طلعت کو موسیقار ونود نے دیا فلم ’’انمول رتن‘‘ کے لیے اس کا گانا ’’جب کسی کے رخ پہ زلفیں آ کے لہرانے لگیں‘‘ بہت مقبول ہوا۔ اسی بیچ طلعت نے ایک بنگالی کرسچن لڑکی لتکا ملک سے شادی کر لی جس نے بعد میں اپنا نام نسرین رکھ لیا۔

ان کے دو بچے ہیں خالد اور سبینا۔ طلعت محمود انل بسواس کو اپنا محسن اور مربی مانتا تھا کیونکہ اس نے ہی طلعت کو سہگل کے اثر سے باہر نکالا۔ انل بسواس ایک پارکھ تھا انھوں نے لتا منگیشکر کو بھی نور جہاں کے اثر سے نکالا۔ ابتدا میں وہ نور جہاں کی کاپی کرتی تھی۔ انل بسواس نے ایک دن لتا سے کہا کہ ’’ تم نور جہاں دوم کیوں بننا چاہتی ہو؟ تم لتا منگیشکر نمبر ون کیوں نہیں بننا چاہتی؟‘‘ لتا کے دل کو یہ بات بھا گئی اور پھر اس نے اپنی آواز میں گیت گائے۔ طلعت محمود نے فلموں میں اداکاری بھی کی ہے اور تمام بڑی ہیروئنوں کے ساتھ کام کیا، جیسے نوتن، تنوجہ، گیتا بالی، مدھوبالا اور نمی طلعت کی فلموں میں ’’سجانا‘‘ اور ’’سونے کی چڑیا‘‘ بہت کامیاب رہیں۔

لیکن فلموں میں اداکاری کی وجہ سے ان کی گائیکی پر اثر پڑ رہا تھا لہٰذا تقریباً سولہ فلموں میں کام کرنے کے بعد انھوں نے اداکاری کو خیرباد کیا اور ایس ڈی برمن کا ساتھ ملا۔ برمن نے طلعت سے بہت سے گیت گوائے جن میں فلم ’’داغ‘‘ اور فلم ’’پتیتا‘‘ کے گانے گائے۔ بھلا فلم کے گانے اور دلیپ صاحب کی ایکٹنگ کو کون بھول سکتا ہے۔ ایک دفعہ یوں ہوا کہ فلم ’’بابل‘‘ کے گانوں کی ریکارڈنگ نوشاد کر رہے تھے۔ بابل کے سارے گانے ہٹ ہوئے خاص کر یہ ڈوئیٹ جو طلعت نے اومادیوی کے ساتھ گایا تھا:

ملتے ہی آنکھیں، دل ہوا دیوانہ کسی کا

افسانہ میرا بن گیا افسانہ کسی کا

ریکارڈنگ کے دوران طلعت نے اسٹوڈیو سے باہر آ کر سگریٹ سلگایا جسے نوشاد نے دیکھ لیا۔ اس زمانے میں سگریٹ پینا بہت معیوب سمجھا جاتا تھا، نوشاد کو طلعت کی حرکت نہایت ناگوار گزری اور پھر کبھی نوشاد صاحب نے طلعت سے نہ گوایا۔ انل بسواس کے علاوہ مدن موہن،ونود، ایس ڈی برمن نے اپنی فلموں کے لیے گیت گوائے۔ طلعت محمود کے گیتوں اور غزلوں کی تعداد تقریباً آٹھ سو کے لگ بھگ ہے۔ بنگالی گیتوں کی تعداد چالیس ہے۔ طلعت کی آواز میں ایک خاص دلکشی ہے۔ اس کی آواز سیدھی دل میں اتر جاتی ہے۔ قدرت نے ایسا لوچ رکھا تھا کہ ہر کوئی اس کے گیتوں کا دیوانہ تھا۔ چند گیت پیش خدمت ہیں۔

 1۔ اے غم دل کیا کروں، اے وحشت دل کیا کروں

(موسیقار سردار ملک، فلم ٹھوکر)

2  ۔تصویر بناتا ہوں تصویر نہیں بنتی 

(فلم بارہ دری)

(3)۔ کوئی نہیں میرا اس دنیا میں

(فلم داغ، موسیقار شنکر جے کشن)

(4)۔ شام غم کی قسم آج غمگیں ہیں ہم

(فلم فٹ پاتھ)

(5)۔ سب کچھ لٹا کے ہوش میں آئے تو کیا کیا

( فلم ایک سال، موسیقار روی)

(6)۔ یہ ہوا یہ رات یہ چاندنی

(موسیقار سجاد حسین)

(7)۔ محبت ہی نہ جو سمجھے

(موسیقار سی رام چندر، فلم پرچھائیں)

(8)۔ ملتے ہی آنکھیں دل ہوا دیوانہ کسی کا 

(فلم بابل)

1960 کی دہائی کے آخر میں راک این رول میوزک کی آمد نے طلعت جیسے گلوکاروں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ طلعت کی مخملی آواز میوزک کمپوزر کے لیے ایک چیلنج بن چکی تھی، لہٰذا بہت سے کمپوزروں کا رجحان محمد رفیع اور مکیش کی جانب ہونے لگا۔ ان کے فلمی کیریئرکا اختتام ان کے گلوکاری کے کیریئر کے زوال کا باعث بنا۔ طلعت اچھے گانے ریکارڈ کرتا رہا لیکن تعداد میں کمی ہوتی چلی گئی۔ ان کی آخری ساؤنڈ ٹریک ریکارڈنگ، 1985 میں، فلم "ولی اعظم" کا گانا "میرے شریکِ سفر" ہے، جو ہیملتا کے ساتھ گایا گیا تھا، جسے چترگپت نے کمپوز کیا تھا اور احمد وصی نے لکھا تھا۔

حکومت ہند نے 1992 میں طلعت کو پدم بھوشن ایوارڈ دیا۔ وہ ایک نیک دل انسان تھا، جو لوگوں سے محبت کرتا تھا اور ان کے کام آتا تھا۔ پھر آخری عمر میں اسے رعشہ کی بیماری ہوگئی اور 9 مئی 1998 کی ایک شام وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔

Load Next Story