سیاسی بحران ختم نہیں ہوا

اگرچہ حکومت نے یہ پہلا راؤنڈ جیت لیا مگر اس جیت سے سیاسی بحران ختم نہیں ہوگا۔

tauceeph@gmail.com

بکرا منڈی نیازی اڈے کا رہائشی 34 سالہ سکندر علی لاہور کے علاقے گارڈن میں بھائی سے ملنے آیا تھا۔ رات کو سڑک پر لگے کنٹینرزکی بناء پر پیدل گھر جا رہا تھا کہ اندھیرے میں خلاء نظر نہ آنے سے فیض پور انٹر چینج فلائی اوور سے نیچے گرگیا۔ اس کا سرکنٹینر سے جا لگا۔

سکندر شدید چوٹیں لگنے سے موقعے پر ہی جاں بحق ہوگیا۔ سکندر علی دو بچوں، بیوی اور بھائی بہنوں کو سوگوار چھوڑ گیا۔ سکندر علی تو لاہور میں تحریک انصاف کے دھرنے کو روکنے کے لیے لگائے گئے کنٹینرز کا شکار ہوا لیکن اسلام آباد والے تین دنوں تک کنٹینرزکے حصار میں رہے۔

اسلام آباد کے مکینوں کی زندگی ایک دفعہ پھر ان رکاوٹوں کی بناء پر رک گئی۔ ملکی اور غیر ملکی ذرایع ابلاغ نے اسلام آباد میں ہر سڑک پر لگے کنٹینرکی خوب پبلسٹی کی۔ ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ 25 لاکھ کی آبادی کے اس شہر کو 700 کنٹینرز کے ذریعے حصار میں رکھا گیا۔ برطانوی خبر رساں ایجنسی بی بی سی کی اردو کی ویب سائٹ پر وائرل ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق 220 مربع کلومیٹر کے شہری علاقے میں ایک مربع کلومیٹر کے فاصلے پر تین کنٹینر رکھے گئے۔

پنجاب کی حکومت نے اٹک سے لے کر رحیم یار خان کے طویل علاقے پر موٹر وے اور جی ٹی روڈ پر مختلف علاقوں میں کنٹینر رکھ کر راستے بند کرنے کی حکمت عملی اختیارکی۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق ایک کنٹینر کا کرایہ 40 ہزار روپے کے قریب بنتا ہے، یعنی 700 کنٹینرزکا کرایہ 2 کروڑ 70 لاکھ روپے بنتا ہے۔ جب تک کنٹینرز مختلف علاقوں میں رکھے رہتے ہیں ان کا کرایہ بڑھتا جاتا ہے۔

آل پاکستان گڈز ٹرانسپورٹ اونر ایسوسی ایشن کے سینئر چیئرمین امداد حسین نقوی کا کہنا ہے کہ یہ کنٹینر ایکسپورٹ اور امپورٹ کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ 40 فٹ کے اونچے کنٹینر کی قیمت کم از کم 10 لاکھ روپے ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پولیس جب ان کنٹینرز کو اپنے قبضے میں لیتی ہے تو ان کنٹینرز میں سامان بھی ہوتا ہے۔ جب ہجوم ان کنٹینرزکو نقصان پہنچاتا ہے یا بعض اوقات ان کنٹینرز کو نذرِ آتش کیا جاتا ہے تو ٹرانسپورٹرزکو یہ نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔

وزیر خزانہ میاں محمد اورنگزیب نے گزشتہ دنوں صحافیوں کو بتایا تھا کہ لاک ڈاؤن اور احتجاج کی وجہ سے معیشت کو روزانہ 190 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ وزارت خزانہ نے اس طرح لاک ڈاؤن کے دوران نقصانات کے بارے میں ایک رپورٹ تیار کی۔ اس رپورٹ کو مرتب کرنے والے ماہرین کے محتاط اندازہ کے مطابق جی ڈی پی کا روزانہ 144 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔

اس رپورٹ میں یہ بھی تحریرکیا گیا ہے کہ اس طرح کی ہڑتال کی صورتحال میں برآمدات کی کمی سے روزانہ 126 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ اسی طرح زرعی شعبے میں یہ نقصان روزانہ 26 ارب روپے اور صنعتی شعبے میں ہونے والا نقصان 20 ارب روپے سے زائد ہوتا ہے۔ غیر یقینی صورتحال کی بناء پر اسٹاک ایکسچینج میں 3500 پوائنٹس کی کمی ہوگئی۔

ایک اور رپورٹ کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ تحریک انصاف نے تو اس سال جولائی سے جو احتجاجی تحریک شروع کی ہے اسلام آباد پولیس اس تحریک میں لاقانونیت کو روکنے کے لیے اب تک کئی بلین روپے خرچ کرچکی ہے۔ اس میں موجودہ دھرنا پر ہونے والے اخراجات شامل نہیں ہیں۔ جولائی سے اکتوبر تک تحریک انصاف کے کارکنوں کے احتجاج کے دوران 152 ملین کی سرکاری اور نجی املاک مکمل طور پر تباہ ہوئی ہیں۔

پولیس کا یہ بھی کہنا ہے کہ تحریک انصاف کے کارکنوں کو اسلام آباد کے سیاسی مقامات تک جانے سے روکنے پر ہونے والے تشدد میں 38 پولیس کے افسر اور سپاہی جب کہ رینجرز کے 4 سپاہی جاں بحق ہوئے ہیں۔ پولیس کے ترجمان نے یہ بھی بتایا ہے کہ مختلف سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کرنے کے لیے کنٹینرز لگائے جاتے ہیں۔ ان کنٹینرز کے کرائے کے عوض 247,730,500 روپے ادا کیے۔ اسلام آباد اور پنجاب کی پولیس نے ایک ہزار 641 کنٹینرز اس مقصد کے لیے حاصل کیے ہیں۔

مزید ایک اور رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ جولائی سے اکتوبر کے دوران ہونے والے ہنگاموں میں اسلام آباد سیف سٹی اتھارٹی نے 221 کیمروں کو نقصان پہنچایا گیا جس کی مالیت 15 کروڑ روپے ہے۔ جب تحریک انصاف کی قیادت نے اپنے تین مطالبات کی منظوری کے لیے اسلام آباد کے ڈی چوک پر دھرنا دینے کا اعلان کیا اور اپنے کارکنوں کو پورے ملک سے اسلام آباد پہنچنے کی ہدایات جاری کیں تو وفاقی وزارت داخلہ نے 23 نومبر سے اسلام آباد سے لے کر رحیم یار خان تک سڑکوں کی مکمل ناکہ بندی کی حکمت عملی کی منظوری دی۔

وزیر داخلہ محسن نقوی، وزیر دفاع خواجہ آصف اور دیگر وزراء نے یہ بیانیہ اختیارکیا کہ تحریک انصاف کے پشاور سے آنے والے قافلے کو اٹک پل سے پنجاب میں داخل ہی نہیں ہونے دیا جائے گا، یوں اتوار سے ہی پورا ملک کنٹینرز کے حصار میں آگیا۔ اس کے ساتھ ہی اسلام آباد اور پنجاب میں انٹرنیٹ سروس اور موبائل سروس بند کردی گئی، انٹرنیٹ کی رفتار انتہائی سست کردی گئی۔

اس کے ساتھ ہی اسلام آباد اور دیگر شہروں میں تعلیمی ادارے بھی بند کر دیے گئے، یوں اسلام آباد، خیبر پختون خوا اور پنجاب کے مختلف شہروں کو ضروری اشیاء، ادویات اور پٹرولیم کی مصنوعات کی فراہمی رک گئی جس کے نتیجے میں اسلام آباد اور خیبر پختون خوا کے مختلف شہروں میں پٹرول اور ڈیزل کی قلت پیدا ہونے لگی۔ راستوں کی بندش سے مریضوں کے لیے کئی مشکلات پیدا ہوئیں۔

آج کل شادیوں کا سیزن ہے، خاص طور پر اتوار کو بہت زیادہ شادیاں ہوتی ہیں مگر سڑکوں کی بندش کی بناء پر کئی باراتیں شادی ہالوں تک نہیں پہنچ سکیں۔ پولیس نے موٹر ویز پر سخت چیکنگ کی اور اس چیکنگ سے عوام متاثر بھی متاثر ہوئے۔

اس دوران تحریک انصاف کے بانی کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور پختون خوا کے وزیر اعلیٰ امین گنڈاپور کی قیادت میں ہزاروں افراد پر مشتمل قافلہ جوکرین، بلڈوزر اور آنسوگیس کے اثرات کم کرنے والے دیوہیکل ٹینکوں اور بڑے جنریٹروں کے ساتھ سفر کررہا تھا اسلام آباد میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگیا۔

فوج کو ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت خصوصی اختیار دے دیے گئے ۔ اس دوران تحریک انصاف اور وفاقی حکومت کے رہنماؤں کے درمیان مذاکرات کے کئی دور ہوئے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹرگوہر اور کے پی حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف کی اڈیالہ جیل میں راتوں کو بانی تحریک انصاف سے ملاقاتیں ہوئیں مگر کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ منگل کی رات کو ڈھائی گھنٹوں کے آپریشن میں تحریک انصاف کے کارکنوں کو منتشرکردیا گیا۔

خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور اور بشری بی بی کسی محفوظ راستے سے پشاور پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔

وزیر اعلیٰ نے مانسہرہ میں جا کر اعلان کردیا کہ دھرنا جاری رہے گا خواہ عوام اس میں شرکت کریں یا نہ کریں، مگر اب تصدیق شدہ اطلاعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ 1500 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، مگر اس سارے ہنگامے میں تحریک انصاف کا کوئی رہنما زخمی نہیں ہوا۔ جب ایک گرفتار شدہ شخص کو پولیس نے عدالت کے سامنے پیش کیا تو اس نے وہاں موجود ایک رپورٹر سے معصومیت سے کہا ’’ پہلے آنے نہیں دیتے تھے، اب جانے نہیں دیتے۔‘‘

 تحریک انصاف کی روایتی حامی تحریک طالبان پاکستان نے بھی تحریک انصاف کے دھرنا کے شرکاء سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے پولیس ایکشن کی مذمت کی ہے ، اگرچہ حکومت نے یہ پہلا راؤنڈ جیت لیا مگر اس جیت سے سیاسی بحران ختم نہیں ہوگا۔ انسانی حقوق کی تنظیم ایچ آر سی پی کے مشورہ پر غورکرنا چاہیے کہ حکومت اور تحریک انصاف بامقصد مذاکرات کریں۔

Load Next Story