پارا چنار کا نوحہ اور حکومت کی بے حسی

پارا چنار کی موجودہ صورتحال انتہائی تشویش ناک ہے۔ یہاں فرقہ وارانہ نفرت اپنے عروج پہ ہے

پارا چنار، خیبر پختونخوا کا وہ شہر ہے جو افغانستان کی سرحد کے قریب واقع ہے، کبھی اپنے پرامن ماحول اور فطری حسن کے لیے جانا جاتا تھا، مگر آج کا پارا چنار فرقہ واریت اور سیاسی عدم استحکام کی بدولت خوف و ہراس کا شکار ہے۔ یہاں جوکچھ پچھلے چند دنوں میں ہوا، اس نے نہ صرف اس شہر کے لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کیا ہے بلکہ پورے پاکستان کے سماجی اور سیاسی منظر نامے کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے۔

پارا چنار میں ہونے والی موجودہ بربریت محض جنگ یا فوجی آپریشنزکی بدولت نہیں بلکہ اس کی جڑیں فرقہ وارانہ تشدد، دہشت گردی، ریاستی غفلت اور زمین کی ملکیت کے تنازعات کی دین ہیں۔ یہ وہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے یہاں کے باسی ایک ایسی زندگی گزارنے پہ مجبور ہیں جوکوئی گزارنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔

پارا چنار کی موجودہ صورتحال انتہائی تشویش ناک ہے۔ یہاں فرقہ وارانہ نفرت اپنے عروج پہ ہے۔ یہاں جب سے فرقہ وارانہ فسادات کا آغاز ہوا یہاں رہنے والوں کی زندگی ایک ڈراؤنے خواب جیسی ہوگئی۔

اس علاقے میں رہنے والوں کی زندگی 2007 کے بعد سے، جب سے اس علاقے میں شیعہ اور سنی فرقوں کے درمیان شدید اختلافات بڑھنے لگے تو خونریزی اور تشدد روزمرہ کا معمول بن گیا۔ پارا چنار جو خیبر پختونخوا کے کرم ایجنسی میں واقع ہے، پاکستان کے ایک حساس اور بدقسمت علاقے کے طور پر جانا جاتا ہے۔ یہ شہر تین طرف سے افغانستان کی سرحد سے جڑا ہے۔ یہاں ہونے والا فرقہ وارانہ تشدد ایک فرد یا گروہ کی کہانی نہیں بلکہ یہ ایک اجتماعی غم کی داستان ہے۔

پارا چنار میں آج تک جو سب سے سنگین مسئلہ ہے، وہ فرقہ وارانہ تشدد ہے۔ اگرچہ یہ شہر ہمیشہ سے مختلف اقوام اور فرقوں کا مرکز رہا ہے، لیکن 2007 کے بعد یہاں شیعہ اور سنی فرقوں کے درمیان شدید کشیدگی شروع ہو گئی تھی۔ اس کشیدگی کا نتیجہ خونریزی اور قتل و غارت کی صورت میں نکلا۔ فرقہ واریت نے پورے علاقے کی تقدیر بدل کر رکھ دی۔

مقامی افراد جو پہلے ایک دوسرے کے ساتھ امن و سکون سے رہتے تھے، اب ایک دوسرے کے دشمن بن چکے ہیں۔ ہر فرقے کے افراد اپنی شناخت کی حفاظت کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں لیکن اس جدوجہد میں کئی بے گناہ افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ جنھیں اس فرقہ وارانہ فسادات کا حصہ بنایا گیا وہ محض بے گناہ لوگ تھے جن کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ کسی دوسرے عقیدے کے ماننے والے تھے۔

پاراچنار میں ہونے والی اس بربریت نے لوگوں کے دلوں میں نفرت کا ایک ایسا بیج بو دیا ہے جس کا ختم ہونا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ اس تشدد کی ایک افسوسناک حقیقت یہ بھی ہے کہ یہ فسادات اکثر سیاسی فائدے کے لیے کیے جاتے ہیں جس سے اس علاقے میں مزید خونریزی کو بڑھاوا ملتا ہے۔

دہشت گردی کا شکار ہونا بھی پارا چنار کے لوگوں کی تقدیرکا حصہ بن چکا ہے۔ 2007 کے بعد سے اس علاقے میں شدت پسندوں کی سرگرمیاں بڑھ گئیں اور ان دہشت گردوں نے مقامی آبادی کو اپنی جنگ کا حصہ بنا لیا۔ طالبان اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کی طرف سے پارا چنار میں حملے کیے گئے جس کے نتیجے میں معصوم شہری مارے گئے اور علاقے کی معیشت کو شدید نقصان پہنچا۔

دہشت گردی کا یہ عذاب صرف عوام کے لیے ہی نہیں تھا بلکہ حکومتی اداروں کے لیے بھی ایک بڑا چیلنج تھا۔ ریاستی ادارے اس علاقے میں دہشت گردوں کے خلاف موثر کارروائی کرنے میں ناکام رہے جس کی وجہ سے علاقے میں عدم تحفظ اور خوف کی فضا مزید گہری ہوگئی۔

یہاں کے لوگ ایک طرف ریاستی غفلت اور دوسری طرف دہشت گردوں کے ظلم کا شکار ہیں اور ان کے پاس نہ تو ریاست کی مکمل حمایت ہے اور نہ ہی ان کے لیے زندگی کی بنیادی ضروریات کا کوئی صحیح انتظام۔ یہ دہشت گردی کی کارروائیاں مقامی لوگوں کے ذہنوں پر گہرے اثرات چھوڑ رہی ہیں۔ وہ مسلسل خوف میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور ان کا مستقبل غیر یقینی ہے۔

پارا چنار میں ایک سنگین پہلو اس علاقے کی معاشی بدحالی ہے۔ خونریز فسادات، دہشت گردی کی کارروائیوں اور فرقہ وارانہ تشدد نے یہاں کی معیشت کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ کاروباری سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں اور یہاں کے لوگ روزگار کی تلاش میں دوسرے علاقوں کا رخ کرنے پر مجبور ہیں۔ اس بدحالی نے لوگوں کی زندگیوں کو اجیرن بنا دیا ہے۔

اس معاشی بحران کے نتیجے میں تعلیمی ادارے بھی متاثر ہوئے ہیں۔ بچے جو کبھی خوش و خرم زندگی گزار رہے تھے اب نفرت اور تشدد کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔ ان کا تعلیمی معیار تباہ ہو چکا ہے اور ان کے مستقبل کے امکانات تاریک ہوگئے ہیں۔ تعلیم کی کمی نے اس علاقے میں جہالت کو بڑھایا ہے جو کہ آنے والے وقت میں مزید مسائل پیدا کرسکتی ہے۔

پارا چنار میں جو سب سے اہم اور افسوسناک پہلو ہے وہ ہے خوف اور نفرت کی فضا۔ یہ شہر وہ مقام بن چکا ہے جہاں ہر انسان دوسرے انسان سے ڈرتا ہے، کیونکہ کسی کو نہیں معلوم کہ کس وقت کہاں سے کوئی حملہ آور آجائے یا فرقہ وارانہ فسادات کی بھینٹ چڑھ جائے۔یہ فضا لوگوں کے ذہنوں پرگہرے اثرات ڈال رہی ہے۔

ہر فرد اپنے اہل خانہ کے تحفظ کے لیے پریشان رہتا ہے، اگرچہ ریاستی ادارے اس علاقے میں امن قائم کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں لیکن اس میں ناکامی کی وجہ سے عوام میں مایوسی بڑھ گئی ہے۔

پارا چنار میں موجودہ بربریت کا اثر صرف یہاں کے لوگوں تک محدود نہیں ہے۔ اس بربریت نے پورے ملک میں لوگوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ جب ایک علاقے میں ایسا بدترین تشدد جاری ہو تو وہ دوسرے علاقوں پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔

پارا چنار کی صورت حال نے نہ صرف پاکستان کے اندرونی مسائل کو اجاگرکیا ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی اس صورتحال کو لے کر فکر پائی جاتی ہے۔ پارا چنار میں ہونے والی بربریت نے لوگوں کی زندگیوں کو اس طرح اجیرن کر دیا ہے کہ وہ نہ تو اپنی روزمرہ کی سرگرمیاں بہتر طریقے سے انجام دے پا رہے ہیں اور نہ ہی اپنے بچوں کو ایک محفوظ اور پرسکون زندگی دے پا رہے ہیں۔

پارا چنار میں بربریت کا موجودہ دور ایک بہت ہی سیاہ دور ہے ریاست اور حکومت کے مختلف ادارے اس علاقے میں امن قائم کرنے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں مگر وہ پچھلے کئی برسوں سے اس میں ناکام ہیں۔

اس کے علاوہ، مقامی لوگوں کی جانب سے بھی امن کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ مختلف تنظیموں نے اپنے اپنے طور پہ اس علاقے میں محبت اور بھائی چارے کی فضا قائم کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ لوگوں کو فرقہ وارانہ تشدد سے باہر نکالا جا سکے۔پارا چنار میں موجودہ بربریت ایک تلخ حقیقت ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

یہاں کی خونریزی، فرقہ واریت اور دہشت گردی نے نہ صرف مقامی لوگوں کی زندگیوں کو تباہ کیا ہے بلکہ پورے پاکستان کو بھی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا ہے۔ پارا چنار کے لوگ اس بربریت کے خلاف اپنی آواز بلند کر رہے ہیں اور حکومت اور عالمی برادری سے یہ امید ہے کہ وہ اس علاقے میں امن اور سکون قائم کرنے میں جلد کامیاب ہوں گے تاکہ پارا چنار کے لوگ بھی ایک بہتر زندگی گزار سکیں۔

Load Next Story