غریب کا احساس

ہم صرف ظاہری علامتوں کو معیار سمجھ بیٹھے ہیں، ہمیں کوئی غرض نہیں کہ غریب کا کیا حال ہے

جس ملک میں غربت کا یہ حال ہو کہ والدین بچے بیچ ڈالیں وہاں تو حکومت کو کوئی خوشی منانی ہی نہیں چاہیئے۔ فوٹو :فائل

غربت و افلاس! یہ وہ مصائب ہیں جو ہمیں اور ہمارے حکمرانوں کو اپنی اوقات یاد دلاتے رہتے ہیں۔

ہمارے یہاں سڑکوں کو، اونچی عمارتوں کو، وسیع و عریض باغات و جنگلات کو، جدید ٹیکنالوجی سے مزین موبائل فون، گاڑیوں کی چمک دمک کو باعثِ فخر سمجھا جاتا ہے۔ لیکن غور کیا جائے تو یہ سب سطحی بلکہ فرضی باتیں ہیں۔ ان سے غریب کو کوئی سروکار نہیں، یہ چیزیں ایک وقت کی بھوک مٹا نہیں سکتیں۔

اگر فخر ہونا ہی ہے تو غربت سے پاک معاشرے پر ہونا چاہیے، ہنرمند عوام پر ہونا چاہیے، تعلیم یافتہ نوجوانوں پر ہونا چاہیے، شرحِ خواندگی پر ہونا چاہیے، امن و امان پر ہونا چاہیے، صحت و صفائی کے اعلیٰ معیار پر ہونا چاہیے، چوری، چکاری ڈاکا و رہزنی سے پاک معاشرے پر ہونا چاہیے، اور عوام کے ساتھ مخلص سیاست دانوں اور افسران پر ہونا چاہیے۔

لیکن افسوس صد افسوس ہم صرف ظاہری علامتوں سے ہی گزارا کرنے پر اکتفا کیے بیٹھے ہیں۔ ہمیں کوئی غرض نہیں کہ غریب کا کیا حال ہے۔ جس ملک میں غربت کا یہ حال ہو کہ والدین بچے بیچ ڈالیں وہاں تو حکومت کو کوئی خوشی منانی ہی نہیں چاہیے۔

یہ پاکستانی ہی تھے جنہوں نے اپنے مسافر بھائیوں کو اپنے گھر دے ڈالے تھے۔ کہاں گیا وہ جذبۂ قربانی وہ ایثار، وہ ہمدردی۔ یاسیت کی انتہا تو یہ کہ یہ تحریر لکھنے کا دل نہیں کر رہا ہے کیونکہ نتیجہ تو معلوم ہے کہ کچھ نہیں برآمد ہونے والا۔ اس وقت ہمیں رورل ڈیولپمنٹ پروگراموں کی ضرورت ہے۔

یہ ہمارے سیاستدان جن دیہاتیوں کے ووٹ لے لے کر حکمران بن رہے ہیں، یہ مرجائیں تو انہیں پوچھنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ ارے چوہدریوں، لغاریوں، مزاریوں، وڈیروں، کچھ کرو ان کا، حکومت کا فنڈ نہیں اپنی ذاتی ملکیت سے خرچ کرو، اور چند دعائیں ہی سمیٹ لو۔ شاید کچھ فرق پڑجائے۔ بس اتنا کردو کہ غریب بھوک سے نہ مرے، اس کا بچہ تڑپ تڑپ کر ایڑیاں نہ رگڑے۔

آج معیاری ڈگری کی میعاد 18 سال ہوگئی ہے، کسی غریب کےلیے ناممکن ہے کہ وہ 18 سال تک خاموشی سے اپنے بچے کو پڑھائے اور اگر ایسا ممکن ہو بھی جائے، یعنی کہ اسکول تا جامعہ تک مفت تعلیم، تب بھی کھانے، پینے، اوڑھنے، پہننے، سر ڈھانپنے کےلیے وسائل کہاں سے آئیں گے؟ آج ہمیں ایک مضبوط ترین ووکیشنل ٹریننگ سسٹم کی ضرورت ہے، جو تعلیمِ بالغاں کا کردار بھی ادا کرے اور نوجوانوں کو وہ ہنر بھی فراہم کرے جس کے ذریعے وہ بہترین روزگار حاصل کرسکیں۔

موبائل اسپتال و ڈسپنسریاں قائم کریں۔ اگر ایک معیاری اسپتال قائم کرنے میں برسوں لگتے ہیں تو، فوری طور پر فیلڈ اسپتال قائم کریں۔ شاید یہ طریقہ سننے میں عجیب لگے کیونکہ ایسی سہولیات تو صرف ہنگامی حالات اور جنگوں میں ہی استعمال کی جاتی ہیں، لیکن جو حشر تھر اور تقریباً تمام سندھ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب کا ہے وہ کسی عذاب سے کم ہے کیا؟

شہریوں کو ان کے بنیادی حقوق جو اُن کو ریاست نے فراہم کیے ہیں اور انسانی حقوق جن کا اقرار اقوامِ متحدہ نے کیا ہے، ان پر تعلیم دیں، امن و امان کو عام کریں۔ ایسی منصوبہ سازی کریں جو بہرصورت غریبوں کو ریلیف دے۔ سول سوسائٹی کو سرگرم کریں، عوام کو سکھائیں کہ سوشل ورک کیا ہوتا اور کیسے ہوتا ہے اور اوٹارکی یعنی کہ پیداواری ذرائع میں خود کفالت کو یقینی بنانے کےلیے درآمدات گھٹائیں، برآمدات بڑھائیں۔

مندرجہ بالا عوامل پر آواز اٹھائیں، قلم اٹھائیں، لوگوں میں شعور اجاگر کریں۔ اگر میں غلط کہہ رہا ہوں تو ثابت کریں اور حقیقی حل پیش کریں۔ آپ بھی مراعات یافتہ ہیں، انٹرنیٹ، بجلی، کمپیوٹر اور خواندگی اور سر ڈھانپنے کےلیے مناسب چھت یا پانچوں مراعات آپ کے پاس ہیں، حالانکہ ترقی یافتہ ممالک میں ان کا ہونا عام سی بات ہے اور یہ بنیادی حقوق تصور کیے جاتے ہیں لیکن ہمارے یہاں ایسا نہیں۔

میں اپنے اس بلاگ کا اختتام اس کہانی سے کرنا چاہوں گا جو کہ ایک جلتے ہوئے جنگل کے بارے میں ہے۔ ایک دفعہ ایک جنگل میں آگ بھڑک اٹھی، جنگل کے تمام جانور جان بچا کر جنگل سے بھاگ نکلے۔ اب وہ سب جنگل سے دور کھڑے اپنے آشیانوں اور سبزہ زاروں کو جلتا دیکھ رہے تھے۔ اچانک ایک جانور نے سب کی توجہ ایک شکر خورے کی جانب مبذول کروائی۔ وہ ننھا سا پرندہ اپنی چونچ میں پانی کے چند قطرے لیے جنگل کی بھڑکتی آگ کے اوپر برسا رہا تھا۔ کچھ جانوروں کو اس کی مشقت پر ترس آگیا تو کچھ نے اس کو روکنا چاہا۔ سب نے یک زبان ہوکر کہا کہ یہ چند قطرے تو ہوا میں ہی حدت کے باعث تحلیل ہوجائیں گے، کیوں اپنی جان کو ہلکان کر رہے ہو۔ تو اس انتہائی چھوٹے پرندے نے ایک بہت بڑی بات کرکے تمام جانوروں کو حیرت میں ڈال دیا۔ اس نے کہا کہ

’’میں کوشش کررہا ہوں، میں اپنے اس مسکن کو بچانے کی سعی کررہا ہوں، مجھے معلوم ہے کہ میں ناکام ہوجاؤں گا۔ میری یہ کاوش کوئی رنگ نہ لائے گی! لیکن جب کل یہ جنگل جل کر خاکستر ہوچکا ہوگا، تب میں یہ تو کہہ سکتا ہوں کہ اس کی بقا میں، میں نے اپنا کردار ادا کیا تھا‘‘۔

آج ہم بھی اپنے وطن کی تباہی کو صرف دور کھڑے دیکھ رہے ہیں۔ اس کو بچانے کی سعی نہیں کررہے۔ ہم چوبیس کروڑ کی طاقت ہیں۔ اگر چاہیں تو بہت کچھ کرسکتے ہیں، ضرورت صرف نیت اور عزم کی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

Load Next Story