نوجوان نسل فرسٹریشن کا شکار کیوں ہے؟

ہمارے جیسے پسماندہ اور روایتی سوچ رکھنے والے معاشرے میں لڑکیوں کے لیے کاروبار کے مواقع ویسے ہی بہت کم ہیں

1986میں پیدا ہونے والے بچے، 2024 میں پوری طرح نوجوانی کے دور میں داخل ہوئے تو اُن میں سے اکثر نوجوان جن میں لڑکیاں بھی شامل ہیں، مالی وسائل نہ ہوتے ہوئے بھی اپنے تعلیمی اخراجات کی کسی نہ کسی طرح پورے کرنے کی کوشش کی اور دن رات اپنی پڑھائی پر توجہ دی تاکہ تعلیم مکمل کرنے کے بعدروز گار کے مسائل پر قابو پانے میں آسانی ہو۔

جب تعلیمی میدان میں کامیابی حاصل کر لی تو یہاں سے یہ مسئلہ شروع ہوا ہے کہ نوکری کی جائے یا اپنا کاروبار مگر نوجوانوں کی اکثریت مالی وسائل سے محروم تھی، اس لیے ان میں سے اکثر نوجوان کاروبار کی طرف نہ آسکے‘ اور انھیں ہنر بھی کوئی نہ آتا تھا کہ اسے بنیاد بنا کر اپنا روز گار حاصل کر سکے دوسری جانب اعلیٰ تعلیم یافتہ  لڑکیاں خاندانی معاملات، گھریلو بندشوں اور مالی معاملات میں کمزوری کی بنا پر اس میں حصہ نہ لے سکیں۔

ہمارے جیسے پسماندہ اور روایتی سوچ رکھنے والے معاشرے میں لڑکیوں کے لیے کاروبار کے مواقع ویسے ہی بہت کم ہیں اور جو موجود بھی ہیں ان میں شامل ہونا ان کے لیے آسان نہیں۔اس لیے معمولی ملازمتوں، جس میں ٹیچنگ کا شعبہ قابل ذکر ہے، اس میں سے کچھ اس شعبے سے وابستہ ہوگئیں اور کچھ معمولی نوکریوں پر لگ گئیں جب کہ نوجوان جب سرکاری نوکریوں کی طرف رجوع ہوئے تو کوٹہ سسٹم، اقربا پروری، سفارش، رشوت، اثرورسوخ نہ ہونے کی بنا پر ملازمتوں سے محروم رہے اور جب کاروباری اداروں میں رجوع ہوئے تو اپنی تعلیمی قابلیت کی بنا پر وہ فوائد حاصل نہ کرسکے جس کے وہ مستحق تھے۔

اکثر کاروباری اداروں نے تجربے کی شرط عائد کی ہوئی تھی کچھ نوجوانوں نے بینکنگ سسٹم میں بھی کوششیں کیں اور نوکری حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہوگئے مگر جاب کے طویل اوقات کے اور قلیل تنخواہ نے ان کو ذہنی فرسٹریشن کا شکار کردیا، باقی نوجوان کچھ تو فوڈ سپلائرز کی چین سے وابستہ ہوئے اور کچھ ڈلیوری بوائز کی شکل میں سامنے آئے اور کچھ نوجوان ٹرانسپورٹ سے وابستہ، جن میں مختلف کمپنیاں شامل تھیں۔ یہاں پر بھی کام کے اوقات کی زیادتی جس میں 16 سے18 گھنٹے کی ڈیوٹیوں نے اور قلیل معاوضے نے حشر نشر کر دیا اور یہی بات ان کی فرسٹریشن کا باعث بنی۔

باقی نوجوانوں نے بے روزگاری کی بنا پر کچھ ایسی جگہ بیٹھنا شروع کردیا جہاں ذہنی تفریحی کے لیے بلیرڈ، کی بورڈ، شطرنج، تاش، وڈیو گیم میں اپنے آپ کو مشغول کردیا۔ ان معاملات میں رقم کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ ان کو حاصل نہ ہوسکی تو اس میں سے کچھ نوجوانوں نے چھینا جھپٹی، چوری، ڈکیتی کی وارداتوں کی طرف نکل گئے لیکن ظاہر ہے یہ کام ضمیر اور اخلاقی معیار کے لحاظ سے ان کے لیے نامناسب تھا جس کی بنا پر وہ شدید ڈپریشن اور فرسٹریشن کا باعث بنا۔

پھر ملکی حالات جس میں سیاسی، معاشی و گروہی حالات نے ان کو مزید بے بس کردیا پھر نوبت یہاں تک آئی کہ گزشتہ 10 سال کے اندر تقریبا ً 25 فیصد نوجوان اچھے مستقبل کی تلاش میں باہر نکل گئے اور کچھ نے غیر قانونی راستے اختیار کیے جس میں سے اکثر سنا گیا اور دیکھا گیا یا تو وہ راستوں کے سفر میں یا سمندر میں مارے گئے یا غیر ممالک کی فورسز کے ہاتھ لگ گئے اور باقی تھوڑے بہت نوجوانوں نے گھریلو طعنوں، لعن طعن کی بنا پر منشیات کا سہارا لیا اور یہ سلسلہ جاری و ساری ہے ، اگر ہم نے اور ہمارے حکمرانوں نے اس طرف توجہ نہ دی تو ابھی تو سنگین نتائج باقی ہیں، اس کے بعد اس سے کئی زیادہ بھیانک نتائج نکلیں گے۔

 باقی کیا دھرا ان اداروں کا ہے جودو وقت کا کھانا دستر خوان لگاکر سجاتے ہیں اس میں کم تعلیم یافتہ اور تعلیم یافتہ، منشیات کے عادی نوجوان افراد بھی وہاں سے مستفید ہوتے ہیں، جب کہ ان اداروں کو توجہ اس بات پر دینی چاہیے کہ ان نوجوانوں کو ہنر مندی یا چھوٹے موٹے کاروبار کی طرف راغب کیا جائے اور جو وسائل کھانا کھلانے میں خرچ کیے جا رہے وہ وسائل ان کی ہنر مندی اور چھوٹے کاروبار کی طرف لگائے جائیں ایسا نہیں ہے کہ سارے ادارے یہی کام کررہے، اخوت، عالمگیر ویلفیئر ٹرسٹ، الخدمت اور دیگر ادارے شامل ہیں۔ مجھے اصل میں حقائق کو سامنے رکھنا تھا اور اپنے قارئین کو توجہ دلانی تھی کہ ہم کس طرح سے نوجوانوں کی فرسٹریشن کو دور کرسکتے ہیں۔

 اس میں ایک اہم مسئلہ سماجی اور خاندانی رویوں کا بھی ہے جس میں نوجوانوں لڑکے اور لڑکیاں ہزاروں کی تعداد میں اپنی محنت اور اپنے خاندان کے سرپرستوں کی مدد سے تعلیمی میدان میں نوجوان لڑکوں سے کہیں آگے نکل گئی ہیں۔ جب ان کے رشتوں کی بات چیت ہوتی ہے ان کے ہم پلہ نوجوانوں لڑکوں میں نہ تو تعلیمی لحاظ سے اور نہ ہی معالی معاملات کے تحت اکثر نوجوان ان کو نہیں مل پاتے،

جس کی بنا پر وہ اپنی شادی کی عمر کی حد پار کرچکی ہوتی ہیں، جو خود ان کے لیے اور ان کے اہلخانہ کے لیے فرسٹریشن کا باعث بنتے ہیں۔ جامعات یا دیگر تعلیمی ادارے جو تعلیمی میدان میں ایک فوج تیار کررہے ہیں ان میں سے اکثر نوجوان کسی نہ کسی طرح ڈگری تو حاصل کرلیتے ہیں لیکن تعلیمی معیار میں ان کی پوزیشن50 فیصد سے بھی کم ہوتی ہے، اس کی وجہ دو طبقاتی نظام بنا دیے ہیں.

اس دو طبقاتی نظام تعلیم نے متوسط طبقے کے نوجوانوں کو سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت سے بھی محروم کردیا ہے اور اب صورتحال یہ ہے کہ لاکھوں روپے سمسٹر کی فیس بھی ادا کرنے کے باوجود بھی تعلیمی میدان پوزیشن حاصل کرنے والے نوجوان آج بھی نوکریوں سے محروم ہیں اور کچھ نے اگر نوکریاں حاصل کر لی ہیں تو وہ بھی ان نوکریوں سے مطمئن نہیں ہیں۔ میں نے صرف ایک اجمالی جائزہ پیش کیا ہے اس سے ہر ایک کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

Load Next Story