بدلتی سیاست

علی امین گنڈا پور کی حکومت کے خلاف للکار اب ماند پڑچکی ہے کیونکہ اسلام آباد میں وہ اپنی کار کردگی نہ دکھا سکے

ہماری معیشت تیزی سے بہتری کی طرف آرہی ہے مگر سیاسی رجحانات زیادہ بگاڑ کی طرف ہیں۔ چھبیسویں ترمیم پاس تو کردی گئی مگر تاحال متنازعہ کہا جارہا ہے۔ ادھر جب سے بانی پی ٹی آئی کو اسلام آباد کو فتح کرنے میں ناکامی ہوئی ہے اور انھوں نے کچھ ہمت ہاری ہے مگر مولانا صاحب نے کمر کس لی ہے۔

بہت سے سیاسی پنڈتوں کا یہ خیال ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کا حکومت کو یوں للکارنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ یہ ذمے داری علی امین گنڈا پور سے لے کر اپنے کندھوں پر لادنا چاہتے ہیں۔ علی امین گنڈا پور کی حکومت کے خلاف للکار اب ماند پڑچکی ہے کیونکہ اسلام آباد میں وہ اپنی کار کردگی نہ دکھا سکے۔

اب ان کی للکاریں اور دھمکیاں بے اثر ہوتی نظر آرہی ہیں۔ تحریکِ انصاف نے جو سڑکوں پر نکلنے کی ابتداء کی تھی اب وہ روایت دم توڑتی نظر آرہی ہے۔ ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ان کا جھوٹ پکڑا گیا۔ اب لوگ یقین کرنے لگے ہیں کہ یہ لوگ غلط بیانی کرتے ہیں، جب انھوں نے یہ بیانات دیے اور افواہ پھیلائی کہ 26 نومبر کے واقعے میں سیکڑوں افراد مارے گئے ہیں۔ اس دفعہ ان کی سوشل میڈیا پر وہ برتری نہ تھی جو ماضی میں رہی۔

سندھ میں چھائی ہے خاموشی اور بلوچستان میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے۔ اب رہ گیا صوبہ پنجاب جہاں پنجاب اسمبلی میں سو سے زیادہ ممبرانِ پنجاب اسمبلی کا پی ٹی آئی سے تعلق ہے، مگر اب وہ سڑکوں اورگلیوں میں آنے کے لیے آمادہ نہیں۔

جب کہ خیبر پختو نخوا میں ان کی اپنی حکومت ہے اور وہاں پر لوگ سڑکوں اورگلیوں میں پی ٹی آئی سے محبت کی بناء پر نہیں بلکہ دوسری وجوہات کی بناء پر باہر آتے ہیں، اگر ایسا ہوا کہ پی ٹی آئی کی حکومت کو خیبر پختو نخوا سے ختم کیا گیا کہ ان حملوں کو روکا جائے تو یہ وفاق کی غلطی ہوگی اور اب تو مولانا فضل الرحمٰن میدان میں اترنے کے لیے پر تول رہے ہیں۔

ان کے حالیہ بیانات میں اس بات کی جھلک نظر آرہی ہے کہ انھوں نے اس بات کا تہیہ کر لیا ہے کہ علی امین گنڈاپور کا کام حکومت کے خلاف اب وہ خود سنبھالیں گے۔ یہ ایک طرف کا قصہ ہے اور دوسری جانب مولانا صاحب اور بلاول بھٹو کی قربت بھی بڑھ رہی ہے، اگر فیصل واوڈا کے تازہ بیانوں کو وزن دیا جائے تو یہ خدشہ ظاہرکیا جاسکتا ہے کہ اسٹبلشمنٹ اور پی ایم ایل (ن) کے درمیان دوری بڑھ رہی ہے، سیاست میں ہر چیز متوقع ہے۔ آگے چل کر پیپلزپارٹی، پی ٹی آئی اور مولانا صاحب مل کر حکومت بنا سکتے ہیں یا پھر پی ٹی آئی میں آدھے ووٹ فارورڈ بلاک نہ بنا لے، ایسا بھی ممکن ہے۔

ایک اہم نکتہ اس حکومت کی کامیابی حوالے سے یہ ہے کہ افراط زرکا 4.9 فیصد پر آنا جہاں آج سے چھ سال پہلے تھی اور شرح سود جو چھ ، سات مہینے پہلے 22 فیصد تھا اور اب مزید کم ہوکر 15 فیصد تک ہے، لٰہذا افراط زر کی شرح جو اب آئی ہے تو یقینا سود کی شرح دو فیصد اورکم ہوکر 13فیصد تک ہو جائے گی۔

ایسے وقت میں جب حکومت نے 35فیصد ٹیکس میں اضافہ کیا ہے تو افراطِ زر یا یوں کہیے کہ مہنگائی میں اضافہ ہونا چاہیے تھا مگر یہاں پچھلے سات مہینوں کے اندر جس طرح سے افراطِ زر میں کمی ہوئی ہے، وہ بہرِحال اس حکومت کی کامیابی ہے۔ افراطِ زرکا تیزی سے کم ہونا، اس بات کو ظاہرکرتا ہے کہ ملک کی معیشت مستحکم ہو رہی ہے جو عموما ان زمانوں میں ممکن نہیں ہوتا، جب آپ آئی ایم ایف کے پروگرام کے تحت چل رہے ہوں۔

ہمیں تاریخ یہی بتاتی ہے کہ جب ملک کا نظام آئی ایم ایف کے پروگرام کے تحت کیا گیا تو ملکی معیشت پر بہت پریشر رہتا ہے کیونکہ ٹیکسز میں اضافہ کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے افراطِ زر میں اضافہ ہوتا ہے اور اس پریشرکا اثر براہِ راست شرح نمو پر ہوتا ہے، مگر اس دفعہ سب کچھ اس اصول کے الٹ ہو رہا ہے۔

اسٹاک ایکسچینج میں بتدریج اضافہ جو اب ایک لاکھ آٹھ ہزارکے انڈیکس سے بھی اوپر چلاگیا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ جو تباہی خان صاحب اس ملک کی معیشت پر لائے وہ تباہی اس ملک میں اپنی جڑیں نہیں بنا سکی اور اب جو ڈالرکے تناسب سے حصص کی قیمتیں تھیں، وہ بحال ہو رہی ہیں اور یہی بات پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے معاشی ماہرین بھی مانتے ہیں۔ اب ایسا ہی پراپرٹی کے معاملات میں ہوگا، جس طرح سے ڈی ایچ اے سٹی اور بحریہ ٹاؤن میں قیمتیں گریں اسی طرح سے واپس قیمتیں بحال بھی ہوں گی۔

شرح نمو جو اصلی GDP کے تناظر میں ہوتی ہیں، یعنی اس سے افراط زرکا عنصر نکال کراس کا تخمینہ لگایا جاتا ہے، وہ اتنی بہتر نہیں ہوئی وہ اب بھی دو یا تین فیصد کی شرح سے آگے بڑھ رہی ہے اور جس طرح سے افراطِ زر میں کمی آئی ہے، ایسا لگ رہا ہے کہ یہ شرح نمو 3.5فیصد یا 4فیصد رواں سال تک ہوجائے گی۔

اب خان صاحب میں بھی سیاسی حوالے سے اتنی سکت نہیں رہی کہ وہ کوئی انقلاب برپا کرسکیں گوکہ انھوں نے بہت کوشش کی مگرکامیابی حاصل نہیں کر سکے اور جو شدت اور توانائی ان کی پارٹی میں پہلے تھی، اب وہ نہیں رہی۔ حال ہی میں خان صاحب نے یہ بھی کہا کہ ’’ اب بھی آخری پتا ان کے پاس موجود ہے‘‘ جس کا مطلب یہی ہے کہ وہ اپنے تمام پتے چل چکے ہیں اورکامیاب نہیں ہوسکے اور اب آخری پتہ باقی ہے جس کا استعمال وہ کریں گے۔

آخر وہ کیا پتا ہے جس کا علم ہمیں نہیں ہے مگر میرے خیال میں خان صاحب کا آخری پتا یہی ہوگا کہ وہ پیپلز پارٹی کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے وفاق میں اپنی حکومت بنائیں، لیکن اس کے لیے اسٹبلشمنٹ کا گرین سگنل ہونا بھی ضروری ہے۔

خان صاحب کو آن بورڈ لینا بھی ضروری ہے۔ خان صاحب کا آن بورڈ ہونا ان لوگوں کے لیے بری خبر ہوگی جن کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ قبل از وقت ہوگا یہ سب کہنا مگر یقین سے کہا بھی جاسکتا ہے،کیونکہ یہ بات فیصل واوڈا نے کہی ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن اور بلاول بھٹو جیل میں خان صاحب سے ملاقات کرچکے ہیں جس کی تردید نہ ہی مولانا صاحب نے کی اور نہ ہی بلاول بھٹو نے کی۔

جاتے جاتے 2024 ہمارے سیاسی معاملات و حالات کی آ گاہی دے رہا ہے اور یہ تبدیلی کوئی معرکہ یا پھر ہلڑ والی نہیں ہوگی۔ یہ تبدیلی سب کی افہام و تفہیم سے بھی ہو سکتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ قومی حکومت بنے جس میں تمام بڑی سیاسی پارٹیاں مل بیٹھیں۔

وہ اس لیے کہ خان صاحب کے پیچھے جو قوتیں ہیں وہ ان کو ملک کے خلاف استعمال کر رہی ہیں، اس لیے اگر خان صاحب کسی سمجھوتے کا عندیہ دیتے ہیں جوکہ ان کے بیرونِ ملک بیٹھے دوستوں کو منظور نہ ہوگا، تو ان کو وہ تمام سول نافرمانیاں ترک کرنا ہوں گی جو وہ پچھلے دو سال سے کرتے چلے آرہے ہیں، تاکہ ہماری معیشت میں بہتری آسکے۔ تحریک چلانے کے حوالے سے بانی پی ٹی آئی اور ان کی پارٹی اب پیچھے ہٹ چکے ہیں۔

نو مئی کے واقعے کی فردِ جرم بھی ان پر عائد ہو چکی ہے۔ ان کی بیگم بشری بی بی نہیں لگتا کہ وہ اپنی سیاسی حیثیت منوا سکیں گی۔ ان کے مقابلے میں عام لوگ خان صاحب کی بہن علیمہ خان کو فوقیت دیتے ہیں۔اگر بانی پی ٹی آئی کسی سمجھوتے کی طرف نہیں جاتے یا پھر سمجھوتہ ان کی شرائط پر نہیں بلکہ اسٹبلشمنٹ کی شرائط پر طے پاتا ہے تو پھر حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی پارٹی جمعیت علمائے اسلام ہوگی اور اگر پی ٹی آئی بھی ساتھ ساتھ آگئی تو قومی حکومت بنے گی۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔

Load Next Story