صرف دو سے تین ماہ سیکھ کر ای کامرس کا کام شروع کیا جاسکتا ہے

گوگل اور مائیکرو سافٹ رسمی تعلیم کو اہمیت نہیں دیتے، ای کامرس کے ماہر اور اُستاد حافظ احمد سے گفتگو

گوگل اور مائیکرو سافٹ رسمی تعلیم کو اہمیت نہیں دیتے، صرف یہ دیکھتے ہیں کہ بندے کو کام آتا ہے یا نہیں: ای کامرس کے ماہر اور اُستاد حافظ احمد سے گفتگو۔ فوٹو : فائل

تعارف :حافظ احمد ، پاکستان میں ای۔ کامرس کے حوالے سے ایک جانا پہچانا نام ہے۔ انہوں نے ایک ادارہ بھی رکھا ہے جہاں نوجوانوں کو حکومتِ پاکستان کے اشتراک سے ای۔کامرس سے متعلقہ مختلف سکلز سکھائی جاتی ہیں۔ یہ مختلف تعلیمی اداروں میں جا کر جدید ڈیجیٹل سکلز سیکھنے کے حوالے سے رہنمائی بھی فراہم کرتے ہیں تاکہ نوجوان طلباء ہنر سیکھ کر پیسے کمائیں اورملک کے لیے فائدہ مند بنیں۔

سوال: آج کل کی ڈیجیٹل ورلڈ میں ای۔ کامرس بہت مقبول ہے۔ ایک عام آدمی اسکو کیا سمجھے؟

جواب: کوئی بھی ایسی سرگرمی جو انٹرنیٹ ،کال یا ای۔ میل کے ذریعے ہو رہی ہے وہ ای کامرس ہے۔ مثال کے طورپر آپ کو ایک گلاس چاہیے۔ آپ گوگل پر گئے اور لکھا کہ مجھے گلاس چاہیے۔ یا کسی بھی پلیٹ فارم کا استعمال کیا۔ جہاں ٹیکنالوجی کا استعمال ہوا وہ ای۔ کامرس کے زمرے میں آتا ہے۔ جبکہ کامرس تو وہی عام تجارت ہے۔ جیسے آپ دکان کھولتے ہیں اور کسی مارکیٹ میں بیٹھتے ہیں۔

سوال : ای کامرس اور نارمل کامرس( تجارت) میں فرق کیا ہے؟

جواب: بنیادی فرق یہ ہے کہ جو نارمل تجارت ہے اس کے لیے آپ کو لامحالہ کسی جگہ یا علاقے کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ اگر آپ کے پاس لاہور کے کسی علاقے میں دکان ہے۔ تو اس پر کتنے گاہک آئیں گے؟ وہی لوگ جو آس پاس کے ہوں گے۔ اگر آپ لاہور کے ایک کونے میں ہیں تو لاہور کے دوسرے کونے میں رہنے والاآپ کے پاس نہیں آئے گا۔ لیکن ای کامرس کا ایک فائدہ ہے۔ آپ کی دکان لاہور کے اندر ہے لیکن آپ نے انٹرنیٹ پر اس کا بتا دیا ہے۔گوگل پر اپنا بتا دیا کہ یہ میری دکان ہے اور یہ میری پروڈکٹ ہے ۔آپ پاکستان میں ہیں یا دنیا کے کسی کونے میں، میں آپ کو پروڈکٹ بھیج سکتا ہوں۔ اب آپ دیکھیں اس بندے کا بزنس کتنا بڑا ہو گیا۔ کراچی، پشاور،کوئٹہ ، اسلام آباد اور لاہور سے اس کو آرڈرز آرہے ہیں۔ اس لیے ہم لوگوں کو کہتے ہیں کہ وہ ای کامرس کی طرف آئیں کیونکہ روایتی تجارت میں آپ محدود ہو جاتے ہیں۔ جبکہ ای کامرس کے ذریعے آپ گلوبل ویلج میں آ گئے ہیں۔ پوری دنیا میں لوگ آپ کو پہچا ن سکتے ہیں ، آپ سے اشیاء خرید سکتے ہیں۔ ا س سے آپ کو فائدہ ہوتاہے۔ آپ کے ملک کو فائدہ ہورہا ہے اور آپ کا نام بنتا ہے۔جیسے آپ پاکستان سے باہر سروسز دیتے ہیں۔ ویب ڈیویلپمینٹ ہے۔ ہمارا گاہگ ملک سے باہر ہے۔ وہ کینیڈا میں ہے ، امریکہ میں ہے۔ جب وہ ہمیں پیسے بھیجتا ہے تو وہ ڈالرز میں بھیجتا ہے۔ تو پیسہ ہمارے ملک میں آتا ہے۔ اس لیے ہم لوگوں کو کہتے ہیں کہ وہ ای۔ کامرس کی طرف آئیں کیونکہ وہ اپنا فائدہ تو کریں گے ہی مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ ملک کا بھی فائدہ کریں گے۔

سوال: روایتی تجارت کے لیے سرمایہ اور دیگر لوازمات درکار ہوتے ہیں۔ آپ ای۔ کامرس کے ماہر ہیں ، یہ بتائیں کہ ای۔ کامرس شروع کرنے کے لیے کون کون سی مہارت چاہیے ہوتی ہے؟

جواب: اس میں سب سے دلچسپ چیز ہے کہ اس میں آپ کو کوئی سرمایہ نہیں چاہیے۔ سرمایہ ہے تو ضرور کچھ بھی کریں لیکن اس ای کامرس کے لیے سرمایہ بنیادی ضرروت نہیں ہے۔ یہ اس لیے ضروری نہیں ہے کہ آپ جو سکلز سیکھتے ہیں تو آپ سروسز دے کر بھی پیسہ کما سکتے ہیں۔ ا ب لاہور میں کوئی دکان کھلتی ہے تو اس کو سیلز مین کی ضرورت ہے۔ کتنے سیلز مین اس کو چاہیے ہوں گے۔ چار، دس ، بیس یا تیس اس سے زیادہ تو نہیں ہوں گے۔ اب پورے لاہور میں لوگ کیا کریں گے کہ اچھا وہاں دکان کھلی ہے وہاں اپلائی کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ سب تو نہیں کچھ ہی امیدوار منتخب ہوں گے۔ اب اس کے مقابلے میں جب آپ ای۔ کامرس میں آتے ہیں تو کیا ہوتا ہے۔ آپ پوری دنیا میں جاب کے لیے اپلائی کرتے ہیں۔ امریکہ ، کینیڈا ، یو رپ ۔ کہیں بھی آپ کو جاب مل جاتی ہے۔ تو کیا ہوگا۔ آپ یہاں پاکستان میں بیٹھے ہیں۔ پاکستان کے کسی شہر میں بیٹھے ہیں، وہاں آپ سروسز دے کر آپ پاکستان میں پیسے کما ر ہے ہیں۔ تو یہ ان لوگوں کے لیے ہے جن کے پاس سرمایہ نہیں ہے۔ وہ سکِل سیکھیں ، سروسز دیں اور پیسے کمائیں۔

سوال: ای کامرس کو شروع کرنے یا اس میں کامیاب ہونے کیلیے کونسی سکِلزدرکار ہیں؟

جواب: اگر ہم ایمازون یا کسی بھی پلیٹ فارم کی بات کرتے ہیں جہاں پر آپ خریدوفروخت کرتے ہیں۔ آپ کو بنیادی طور پر تین ، چار سکِلز سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ایک ہے پروڈکٹ ہنٹنگ، آپ کا کلائنٹ کہتا ہے کہ میں کیا بیچوں۔ آپ اسے کہتے ہیں کہ فلاں چیز بیچو۔ اب یہ ایک سکِل ہے۔ جنگل سکاؤٹ( Jungle Scout)، ہیلیم ٹین(Helium 10)، مرچنٹ ورلڈ(Merchant World) اصطلاحات ہیں جو ای کامرس کے پلیٹ فارمز پر استعما ل ہوتی ہیں۔

ان اصطلاحات کا نام سن کر آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ میرا کوئی آئی ٹی کا بیک گراؤنڈ نہیں ہے۔ میں نے محض ایم اے اسلامیات کیا ہوا ہے۔ او رمیں الحمد للہ ای کامر س میں کامیاب ہوں۔

تو یہ لفظ جب کوئی پہلی مرتبہ سنے گا تو پریشان ہوگا جب ان کو سیکھے گا تو کہے گا یہ تو بچوں والا کام ہے۔ دو سے تین ماہ میں آپ اپنے آپ کو اس قابل بنا سکتے ہیں کہ آپ اپنی سروسز دیں۔ اسی طرح ایک سورسنگ ہے۔ مثال کے طور پر ایک کلائنٹ آیا کہ مجھے مائیک کی ضرورت ہے مجھے اچھے مائیک خرید کر دو۔ اب آپ کیا کرتے ہیں۔ آپ بیٹھے پاکستان میں ہیں۔ کسی پلیٹ فارم پر آپ کا اکاؤنٹ ہے۔ آپ چل کرکہیں نہیں گئے، کسی کو کال نہیں کی۔ ایک انٹر نیٹ ہے۔اس کے ذریعے آپ نے دنیا بھر میں ایک پروڈکٹ کو ڈھونڈا۔ اس کے ریٹ چیک کیے۔ اب آپ اپنے کلائنٹ کو کہتے ہیں کہ فلاں ملک میں یہ چیز سستے داموں مل رہی ہے خرید لو۔یہ ایک سکل ہے۔

پھر ایک سکل ہے اسے ہم کہتے ہیں پی پی سی (Pay Per Click) اب یہ بظاہر مشکل لگے گا۔ لیکن یہ بھی بہت آسان ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو آپ کے سامنے فیس بک پر اشتہارات چل رہے ہوتے ہیں۔ اب فیس بک کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ ایک پیج Page) سامنے آتا ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ میں نے تو اس کو لائک نہیں کیا ہوا ہے۔ اوپر ایک کارنر پر سپانسرڈ لکھا ہوتا ہے۔ اس کو ہم تیکنیکی طور پر پی پی سی (Pay Per Click) کہتے ہیں۔ آپ کو پی پی سی چلانی آتی ہو۔آپ کو پتہ ہو کہ آپ نے اپنی پروڈکٹ کن لوگوں اور کس شہر میں پیش کرنی ہے۔ اب یہ ایک سکل ہے۔ اب آپ چاہتے ہیں کہ میری پروڈکٹ صرف لڑکیاں دیکھیں کیونکہ پروڈکٹ لڑکیوں سے متعلقہ ہے۔ جوتے ہیں یا بیگز ہیں۔ آپ چاہتے ہیں کہ لڑکے نہ دیکھیں کیونکہ بلاوجہ ہمارا وقت اور بجٹ ضائع ہو گا۔ توآپ نے یہ سکل سیکھنی ہے کہ کس عمر کی لڑکیوں یا لڑکوں ، کس شہر کی لڑکیوں یا لڑکوں کو دکھانی ہے۔ اور یہ آسانی سے سیکھی جا سکتی ہے۔ ایمازون ہو یا کوئی بھی پلیٹ فارم ہو ، تین چار سکلز سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اب آپ یہاں بیٹھے صرف اور صرف سروسز دے کر پیسے کما سکتے ہے ہیں بغیر کسی سرمائے کے۔

سوال : آپ خود ایک کامیاب ای کامرس کاروباری ہیں۔ یہ بتائیں کہ اس فیلڈ میں آنے کے لیے بنیادی تعلیم کتنی ہونی چاہیے؟

جواب: ایک بنیادی ضرورت ہے وہ ہے مائنڈ سیٹ کہ میں نے سیکھنا ہے۔ ہمارے پاس میٹرک اور ایف اے پاس لڑکے بھی بہت کامیاب ہیں اور ایسے بھی ہیں جو آئی ٹی گریجویٹ ہیں مگر کامیاب نہیں ہیں۔ یہ بنیادی طورپر مستقل مزاجی اور فوکس کرنے کا کام ہے۔ اس میں تعلیم کی اتنی ضرورت یا اہمیت نہیں ہے۔ ہمارے پاس ایک طالب علم ہیں وہ مظفر گڑھ سے ہیں۔ وہ میٹرک پاس ہیں۔ ایف اے کا امتحان دیا اور انگلش میں فیل ہو گئے۔ اب انگلش لینگوئج کی مہارت کی اتنی ضرورت نہیں ہے۔کیونکہ بہت سے ایسے پلیٹ فارمز ہیں جہاں سے آپ مدد لے سکتے ہیں اور کسی غیر ملکی سے بات کر سکتے ہیں۔ وہ مظفر گڑھ والے بچے کے گاؤں میں بجلی نہیں ہے۔ اس نے سولر پینل لگایا ہوا اور ایک انٹرنیٹ ڈیوائس ہے۔ اپنے گھر میں کام کر رہا ہے اور محض میٹرک پاس ہے۔ او ر اس کے کلائنٹس دو گورے ہیں اور ایک اومان کا عربی کلائنٹ ہے۔ میں نے پوچھا ان سے بات کیسے کرتے ہو۔ اس کا کہنا تھاکہ میں اردو میں لکھتا ہوں چیٹ جی پی ٹی میں اس کو ڈالتا ہوں اور ٹرانسلیٹ کر کے ان کو بھجوا دیتا ہوں۔ وہ عربی کلائنٹ سے عربی میں بات کرتا ہے اور عربی شخص حیران ہوتا ہے کہ تم پاکستان میں رہ کر اتنی اچھی عربی بول لیتے ہو۔ تو کوئی تعلیم کی ضرورت نہیں، کوئی انگلش میں مہارت کی ضرورت نہیں، کوئی آئی ٹی کی مہارت نہیں چاہیے۔ بس سیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ بنیادی طور پر ایک سکل ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ریڑھی والا یوٹیوب استعمال کر رہا ہے، گیم کھیل رہاہے۔ اس نے کسی دوست سے پوچھ لیا ہوگا کہ یو ٹیوب کیسے استعمال کرتے ہیں۔ یاگیم کیسے کھیلتے ہیں۔ اس کو گیم سمجھ کر سیکھیں گے تو یہ بہت آسان ہے۔ اس کے لیے تعلیم ،عمر یا لینگوئج کی کوئی قید نہیں ہے۔ بس اتنا کہ کمپیوٹر کا بنیادی علم اور گوگل ٹرانسلیٹ کو پڑھ سکے کہ کیا لکھا ہوا ہے،اس کو پڑ ھ سکے یہ کافی ہے۔

سوال: آپ نے جن سکلز کا ذکر کیا ہے اس کو سیکھنے کا دورانیہ کتنا ہے؟

جواب: اس کے لیے دورانیہ تقریباً تین ماہ چاہیے ہوتا ہے۔ اس میں حکومت پاکستان کو کریڈٹ جاتا ہے۔ حکومت کا ایک ادارہ ہے Digi Skill وہ ان کورسز کو کرواتا ہے۔ پچیس سے تیس مختلف نوعیت کے پروگرامز ہیں۔ یہ تمام انٹرنیٹ سے منسلک بنیادی نوعیت کے تربیتی پروگرامز ہیں جن کا دورانیہ تین ماہ کا ہے۔ آپ تین ماہ مزید دے دیں پریکٹس اورمہارت کے لیے۔اگر آپ دو سال مستقل مزاجی سے یہ کام کر لیتے ہیں تو آپ اتنے پیسے کما لیتے ہیں کہ آپ کو کسی جاب کی ضرورت نہیں رہتی۔

سوال: آپ نے بتایا کہ ای کامر س کے لیے تعلیم یا عمر کی کوئی قید نہیں ہے۔ لیکن اس کے لیے کس نوعیت کے جدیدگیجیٹس (Gadgets) کی ضرورت ہے۔

جواب: آپ کو اس کے لیے ایک کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ کی ضرورت ہے لیکن کسی مہنگے آئی فون یا جدید اینڈرائڈ فون کی ضرورت نہیں۔آپ کے پاس اگر ایک نارمل سا لیپ ٹاپ ہو جس کی مالیت پندرہ سے بیس ہزار تک ہو وہ کافی ہے۔کیونکہ اس میں ہارڈ وئیر کا کوئی کام نہیں ہے۔ اس کے اندر آپ کو کوئی گیم نہیں کھیلنی۔ کوئی ایکسڑا ریم وغیرہ نہیں چاہیے۔ نارمل سسٹم جس سے آپ انٹرنیٹ پر چیزوں کو تلاش کرسکیں وہ کافی ہے۔

سوال: پاکستان میں ای کامرس کا کتنا بزنس ہے؟

جواب: بہت اچھا رجحان ہے۔ بلکہ پچھلے سال جو حکومت پاکستان کا ٹارگٹ تھا اس سے دو سو ملین ڈالر زیادہ آ گیا تھا۔ اب اس میں روزبروز اضافہ ہورہا ہے۔کیونکہ لوگ آس پاس دیکھتے ہیں کہ فلاں بندے کے پاس گاڑی بھی آگئی ہے اور گھر بھی ہے۔ وہ ای کامرس کرتا ہے تو میں بھی ای کامرس کروں گا۔ اس طرح یہ رجحان بڑھ رہا ہے۔

سوال: دنیا بھر میں پاکستان ای کامرس کے حوالے سے کہاں کھڑا ہے؟

جواب: اس وقت پاکستان فری لانسنگ میں دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے۔ مستقبل ای کامرس کا ہے۔ اب لوگوں میں یہ شعور آتا جارہا ہے۔ پاکستان میں بہت سی ایسی کمپنیز ہیں جو ملازمین کو اس بات پر آمادہ کررہی ہیں کہ وہ کم تنخواہ لیں اور گھر بیٹھ کر کام کریں۔انہیں دفاتر آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ باہر کی بڑی بڑی کمپنیز مثلاً گوگل اور مائیکرو سافٹ وغیر ہ رسمی تعلیم پر زیادہ توجہ نہیں دیتیں۔ وہ یہ دیکھتی ہیں کہ کسی بندے کو کام آتا ہے کہ نہیں۔اگر اسے کام آتا ہے تو اسے ہائر کر لیتی ہیں۔ میں اپنے بہت سارے ایسے دوستوں کو جانتا ہوں جو باہر کی کمپنیز کے لیے کام کر رہے تھے۔ بعد میں انہی کمپنیز نے انہیں باہربلا لیا۔ ایک سے تین سال بعد ان کو باہر بلا لیا۔ کوئی امریکہ چلا گیا کوئی یورپ چلا گیا۔ یہ آسان کام ہے کوئی مشکل نہیں ہے۔

سوال: آپ کے ادارے میں بہت سے نوجوان طلباء سیکھنے کے لیے آتے ہیں،آپ کاتجربہ کیا ہے کہ کیا پاکستان کے تعلیمی نظام سے نکل کر آنے والے بچے یہ جدید سکلز جلد سیکھ لیتے ہیں؟

جواب: اس میں زیادہ اہم بات یہ ہے کہ کسی بھی چیز کا تھیوری سے زیادہ پریکٹیکل ہونا ضروری ہے۔ سار ی دنیا میں پریکٹیکل چیزوں پر زیادہ فوکس کیا جا ر ہا ہے۔ مثال کے طور پر دنیا میں بچوںکو بتایا جاتا ہے کہ جھوٹ بولنا اچھا نہیں ہے۔ آپ بچے کو جتنا مرضی سمجھا لیں ، بچے کو یہ بات سمجھ نہیں آئے گی۔ اب دنیا میں کیا سسٹم ہے کہ وہ کچھ بچے اکٹھے کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک بچہ جھوٹ بولتا ہے۔ اچانک وہ لائٹ آف کردیتے ہیں۔ اچانک وہاں ہوا چلنے لگ جاتی ہے۔ بچے کو کوئی نہ کوئی سزا ملتی ہے۔ تو بچے کو پتہ چل جاتا ہے کہ اچھا جھو ٹ بولیں تو یہ ہوتا ہے۔ جھوٹ بولے تو اسے اس دن لنچ نہیں ملتا توبچے کے دل میں بیٹھتا ہے کہ یہ کوئی بہت بری چیز ہے۔ا ب اگر ہم ای کامرس کی بات کریں تو پاکستان میں سکولز کے اندر بچوں کو اس کا علم ہونا چاہیے۔آن لائن پروڈکٹ کا پتہ ہو، ری ویو(Review) کیسے دینا ہے، یہ پتہ ہو۔ پروڈکٹ کو لِسٹ کیسے کرتے ہیں۔ یہ اگر اس کو پتہ ہوگا تو وہ بڑا ہو کر زیادہ کارآمد ثابت ہو گا۔ پھر وہ جاب کی تلاش میں نہیں جائے گا بلکہ دوسروں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کریگا۔

سوال: آپ کے ادارے سے اب تک کتنے نوجوان تربیت لے چکے ہیں؟

جواب: میں چونکہ حکومت پاکستان کے ساتھ بھی کام کر رہا ہوں۔ تو وہاں کے اور ہمارے ادارے کے ملا کر تعداد کوئی ایک لاکھ سے اوپر ہے۔ ہمارا ادارہ پاکستان بھر میں ہے۔ دبئی میں بھی ایک دفتر ہے۔ اور دیگر ممالک میں بھی ہم کا م کر رہے ہیں۔

سوال: آپ مختلف تعلیمی اداروں میں جاتے ہیں۔ آپ کا نوجوانوں کے ساتھ انٹر ایکشن بھی ہوتا ہے۔ آپ کا کیا مشاہدہ ہے کہ پاکستانی نوجوانوں میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ پاکستان کو ڈیجیٹل پاکستان کی طرف لے جائیں؟

جواب: جی بالکل ہے۔ ان طلباء کو دیکھ کر ہمیں اپنا وقت یا دآتا ہے۔ اس دور میں ہمیں کوئی بتانے والا نہیں تھا۔ ہماری نوجوان نسل بڑی پرعزم ہے ، اسے کام کی ضرورت بھی ہے۔ ان کی خواہش بھی ہے کہ وہ کام کریں۔ پہلے ان کو بتانے والا کوئی نہیں تھا۔ اب ان کو بتانے والے بہت ہیں۔ بچے بہت دلچسپی لیتے ہیں۔ میرے ساتھ کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ میں کسی یونیورسٹی میں گیا ہوں اور وہاں ان کا سپورٹس گالا ہورہا ہے اور ساتھ ہی میرا سیمینار بھی ہے تو کئی طلباء سپورٹس گالا چھوڑ کر میرے سیمینار میں آگئے۔ تو خوشی ہوتی ہے کہ وہ سیکھنا چاہتے ہیں۔ انہیں بتاتے ہیں کہ یہ آپ نے سیکھنا ہے۔اس لیے سیکھنا ہے کہ ڈالرز آپ کے ملک میں آئیں گے۔اگر آپ نے فری لانسنگ کی ہے اور ایک ہزار ڈالر کمائے ہیں تو پہلے وہ اسٹیٹ بینک میں آئیں گے پھر آپ کے اکاؤنٹ میں آئیں گے۔ تو یہ ملک کے لیے کنٹری بیو شن ہے۔ آپ یہاں بیٹھ کر سروسز دے رہے ہیں اور ملک کو فائدہ ہوگا۔ایک اور پہلو ہے کہ جو پاکستانی ملک سے باہر جا کر کام کرر ہے ہیں اور اگرانہیں وہاں ہزار ڈالر ملتا ہے تو ان کو وہاں کم ہی پیسے بچتے ہیں۔ کیونکہ وہاں مکان کارینٹ ہے، انشورنس کے اخراجات ہیں اور دیگر ٹیکسز ہیں۔ لیکن اگر آپ پاکستان میں رہ کر وہاں خدمات دے کر پیسے کما رہے ہیں تو آپ کی بہت زیادہ بچت ہے۔گھر اپنا ہے۔ مہنگائی وہاں کے مقابلے میں کم ہے۔ ہم بہت سے نوجوانوں کو یہ ترغیب دیتے ہیں کہ وہ یہاں رہ کر ڈالرز میں کمائیں۔

Load Next Story