نمازجنازہ
مسلمان کے مسلمان پرجوحقوق ہیں ان میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ جب وہ دنیا سے رخصت ہونے لگے تو دوسرا مسلمان اس کے ساتھ ہم درد پڑوسی،مخلص دوست، عقیدت مند مرید،بے لوث شاگرد، قریبی رشتے دار، فرماں بردار اولاد اوردینی بھائی ہونے کا ثبوت پیش کرتے ہوئے اس کی وفات کے بعد بھی اس کا اکرام اوراس کے ساتھ حسن سلوک کامظاہرہ کرتے ہوئے اس کی نمازجنازہ اورتدفین میں شرکت کرے۔ اس کو رخصت کرتے ہوئے قبرتک ساتھ جائے، اس کا اور اہل میت کا جو ممکن تعاون ہوکرے اور اس کے لیے استغفار کرے ۔
مسلمان کی نمازجنازہ اور تدفین میں شرکت بحیثیت مسلمان ایک مستقل حق ہے، پڑوسی، اہل تعلق، رشتے دار، قریبی رشتہ دار اور نیک وصالح انسان کا جنازہ ہو تو اس کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ جنازے میں شرکت سے انسان کی بے بسی، برزخ اور آخرت کے احوال یاد آتے ہیں، میت کا حق ادا ہوتا ہے، شرکائے جنازہ کی کثرت کی وجہ سے میت کی مغفرت کی امید بڑھ جاتی ہے، اہل میت کے ساتھ ہم دردی وغم خواری میں شرکت اور تجہیز وتکفین ان کی معاونت کا سبب ہوتی ہے۔
فخرکائنات ﷺ کی عام مسلمانوں کے جنازے میں شرکت
رسالت مآب ﷺ عام مسلمانوں کے جنازوں میں شریک ہوتے تھے، آپ جنازے کی اطلاع نہ دینے پر شکایت بھی کیا کرتے تھے۔ قریبی رشتے داروں کی قبر میں اتر کر انہیں قبر میں لٹایا بھی کرتے تھے یا قبر کے کنارے کھڑے ہوکر تدفین میں تعاون اور رہبری فرماتے تھے ۔
حضرت سہل بن حنیف ؓ فرماتے ہیں: رسول اللّہ صلی اللہ علیہ وسلم کم زور مسلمانوں کے پاس جاتے ان سے ملاقات فرماتے، جب ان میں سے کوئی بیمار ہوجاتا تو اس کی عیادت و بیمارپرسی فرماتے اور ان کے جنازوں میں شرکت فرماتے۔ (مستدرک حاکم ؛تفسیرسورۃ ق :3735)
نمازجنازہ اور تدفین میں شرکت کا اجروثواب
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللّہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کسی مسلمان کی نمازجنازہ میں ایمان واحتساب کے ساتھ شرکت کرے، جنازے ہی کے ساتھ رہے؛ یہاں تک کہ اس کی نمازجنازہ پڑھی جائے اور اس کی تدفین کردی جائے، تو وہ دو قیراط کے ساتھ واپس ہوگا، ایک قیراط احد پہاڑ کے برابر ہوگا، جو شخص نمازجنازہ پڑھ کر تدفین سے پہلے واپس آجائے، وہ ایک قیراط اجر پائے گا۔ (رواہ البخاری، کتاب الایمان، باب اتباع الجنائز من الایمان: 47)
ایمان کا مطلب یہ ہے کہ اس عمل پر جس اجروثواب کا وعدہ کیا گیا ہے اس پرایمان ویقین ہو۔
احتساب کا مطلب یہ ہے کہ ثواب کی نیت ہو، ریاکاری، شہرت یا مطلب پرستی یا میت کے اعزہ واقرباء کی شکایت وغیرہ کے خوف سے شرکت نہ کرے بلکہ صرف حصولِ ثواب اور رضاالٰہی کی نیت سے شریک ہو۔
نمازجنازہ میں شرکت پر ایک قیراط
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں رسول اللّہ صلی اللّہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کسی کا جنازہ پڑھے اس کے لیے ایک قیراط ثواب ملتا ہے اور جو شخص جنازے کے ساتھ چلے یہاں تک اس کی تدفین ہوجائے تو اس کے لیے مزید ایک قیراط ملے گا۔ ایک قیراط یا چھوٹا قیراط احد پہاڑ کے برابر ہوگا۔ (رواہ الترمذی، باب ماجاء فی فضل الصلوۃ علی الجنائز: 1040)
حضرت ابوہریرہ ؓ کے شاگرد حضرت ابوسلمہ فرماتے ہیں: میں نے یہ حدیث حضرت ابن عمر ؓسے بیان کی تو انہوں نے حضرت عائشہ ؓکے پاس ایک آدمی کو بھیجا اور اس حدیث کی تصدیق چاہی۔ حضرت عائشہ ؓنے فرمایا: ہاں حضرت ابوہریرہ ؓنے حدیث صحیح بیان کی ہے۔ تب حضرت ابن عمرؓ نے (افسوس کرتے ہوئے) فرمایا: ہم نے بے شمار قیراط (جنازوں میں شرکت نہ کرنے کی وجہ سے) ضائع کردیے (کہ عمل نہایت مختصر اور بے پناہ اجروثواب)
حضرت مجاہد فرماتے ہیں: نفل اعمال میں سب سے افضل عمل مسلمان کے جنازے اور تدفین میں شرکت ہے۔ (فتح الباری، اتبا ع الجنائز بحوالہ سنن ابی سعید: اتباع الجنائز)
نمازجنازہ میں نمازیوں کی کثرت میت کی مغفرت کا سبب
جنازے میں شرکت کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ جب کسی میت کی نمازجنازہ میں مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت شرکت کرتی ہے تو اللّہ تعالٰی اس میت کی مغفرت فرمادیتے ہیں۔ مجمع کی کثرت سے مغفرت کی امید پیدا ہوتی ہے، اگر ہماری شرکت سے نمازجنازہ پڑھنے والوں میں اضافہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے میت کی مغفرت کی امید میں اضافہ ہوتا ہے تو شرکت ضرور کرنی چاہیے۔
حضرت ابن عباسؓ کے آزادہ کردہ غلام کریب فرماتے ہیں: مکہ مکرمہ کے قریب مقام قدید یا عسفان میں آپ کے ایک لڑکے کا انتقال ہوگیا۔ جنازہ تیار کیا گیا۔ پھر آپ نے مجھ سے فرمایا: کریب! دیکھو لوگ جنازے کی نماز کے لیے جمع ہوگئے ہیں؟
میں باہر نکلا اور بتایا کہ لوگ نمازِجنازہ کے لیے تیار ہیں۔ پھر ابن عباس ؓنے پوچھا: کیا چالیس افراد جمع ہوئے ہوں گے؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں، پھر فرمایا: جنازہ باہر لے چلو، میں نے رسول اللّہ صلی اللّہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے:
چالیس ایسے مسلمان جو اللّہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتے ہیں جس شخص کی نمازِجنازہ پڑھیں، اللّہ تبارک وتعالٰی ان کی (میت کے لیے مغفرت کی) سفارش کو ضرور قبول فرماتے ہیں۔ (رواہ مسلم، باب من صلی علیہ اربعون الخ:948)
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں رسول اللّہ صلی اللّہ علیہ وسلم نے فرما: جس میت کی نمازِجنازہ مسلمانوں کی ایک جماعت ادا کرتی ہے جس کی تعداد سو (100) ہو، سب میت کے لیے (مغفرت وبخشش کی) سفارش کرتے ہیں، تو اللّہ تعالٰی (میت کے حق میں) ان کی سفارش ضرور قبول فرماتے ہیں (اور میت کی مغفرت وبخشش فرمادیتے ہیں) (رواہ مسلم، باب من صلی علیہ ماٗۃ الخ:947)
چالیس افراد نمازجنازہ پڑھیں تو مغفرت کی زیادہ امید
حضرت مرثدبن عبداللّہ یزنیؒ فرماتے ہیں: حضرت مالک بن ہبیرہؓ جب کسی جنازے کی نماز پڑھاتے جب مصلیوں کی تعداد کم محسوس فرماتے تو مصلیوں کی تین صفیں بنادیتے پھر فرماتے: میں نے رسول اللّہ صلی اللّہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے، آپ صلی اللّہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس میت کی نمازِجنازہ تین صفیں پڑھیں، اس کے لیے جنت واجب ہوگئی۔ (ترمذی، کتاب الجنائز، باب کیف الصلاۃ علی المیت والشفاعۃلہ: 1028)
حضرت مفتی سعیداحمد صاحب پالن پوری رحمہ اللّہ تحریر فرماتے ہیں: اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جس میت کی نمازِجنازہ بڑی جماعت پڑھے، اس کی مغفرت ہوجائے گی اور بڑی جماعت سے مراد مصلی الجنائز کی تین صفیں ہیں جن کی تعداد تقریباً (چالیس تا) سو آدمی ہوتے تھے۔
مالک بن ہبیرہؓ لوگوں کی کمی کی صورت میں حیلہ کرتے تھے اور لوگوں کو تین صفوں میں کھڑا کرتے تھے کیوں کہ رحمت ِ حق بہانہ می جوید، بہانمی جوید۔
حضرت شاہ ولی اللہ صاحب قدس سرہ نے حجۃ اللّہ البالغہ میں تحریر فرمایا ہے کہ نصوص کی تاویل بعید غیرمعتبر ہے۔ البتہ اگر وہ تاویل بعید کسی فقیہ صحابی سے مروی ہو تو وہ معتبر ہے۔ مالک بن ہبیرہؓ صحابی ہیں پس یہ تاویل معتبر ہے۔ (تحفہ الالمعی :4343)
ان روایات سے معلوم ہوا کہ مسلمان کے نمازِجنازہ میں مسلمانوں کی تعداد چالیس کے بقدر ہوجائے تو اس کی مغفرت کی امید پیدا ہوجاتی ہے اور جب نماز پڑھنے والوں کی تعداد سو کے قریب ہو یہ امید مزید بڑھ جاتی ہے۔
نمازجنازہ میں طاق عدد صفیں بنانا بہتر
فائدہ: بعض علماء نے یہ مسئلہ نکالا ہے کہ نمازِجنازہ میں صفیں طاق ہونی چاہییں اور اس کا بڑا اہتمام کرتے ہیں، حالاں کہ تین صفوں کے بعد طاق اور جفت سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لفظ ثلاث کا یہ مطلب سمجھنا کہ جنازے میں صفیں طاق ہوں یہ بات صحیح نہیں۔ خواہ صفوں کی جو بھی تعداد ہو نماز درست ہے۔ (تحفہ الالمعی :4343)
حضرت مفتی سعیداحمدصاحب رحمہ اللّہ علیہ اس عبارت کے حاشیے میں تحریر فرماتے ہیں: تعلیم الاسلام 624 میں حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب رحمہ اللّہ نے لکھا ہے: اگر آدمی زیادہ ہوں تو تین یا پانچ، یا سات صفیں بنانا بہتر ہے کیوں کہ حدیث میں ہے: ان اللّہ وتر، اللّہ تعالٰی یگانہ ہیں، وہ طاق کو پسند کرتے ہیں۔ یہ ایک عادم ادب ہے۔ جنازے کی صفوف میں بھی اس کا لحاظ رہنا چاہیے مگراس کا واجب کی طرح اہتمام درست نہیں۔ (حاشیہ تحفہ الالمعی:4343 )
قارئین کرام! ہمیں امیر، غریب، چھوٹے، بڑے، عورت، مرد کے فرق کرنے کے ہر ایک کی نمازِجنازہ میں شرکت کرنی چاہیے۔ حدیث بالا سے ہمیں یہ معلوم ہوگیا کہ نمازِجنازہ میں شرکت کرنے سے میت ہی کا نہیں شرکاء جنازہ کا بھی فائدہ ہی فائدہ ہے۔
اللّہ تعالیٰ ہمیں چند روزہ زندگی دین کے مطابق بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین یارب العالمین)