’’سب رنگ کہانیاں‘‘
آج کل کسی سے بھی کتاب کے بارے میں بات کی جائے تو ایک جملہ سننے کو ضرور ملتا ہے کہ اب کتابیں فروخت نہیں ہوتیں، کوئی نہیں پڑھتا لیکن اکیس جُون دو ہزار بِیس کو ایک کِتاب ایسی شائع ہوئی کہ بہت طویل مُدّت بعد اُس نے مقبولیت کے ریکارڈ توڑ دیے۔
اس کا پہلا ایڈیشن جو گیارہ سو کی تعداد میں چھپا تھا محض چار ہفتوں میں ختم ہوگیا اور ناشر کو دوسرا ایڈیشن چھاپنا پڑا۔ ڈیجیٹل میڈیا کے اِس دور میں کہ جب یہ کہا جاتا ہے اب لوگوں میں کتابیں خریدنے اور پڑھنے کا ذوق دن بہ دن کم ہوتا جارہا ہے، کسی کتاب کی اتنی زیادہ فروخت بہت دل خُوش کن ہے۔ دُنیا بھر میں جہاں بھی اُردو پڑھنے والے، اُردو اور اُردو ادب سے شغف رکھنے والے لوگ آباد ہیں، وہاں وہاں اِس کِتاب کی طلب اور مقبولیت روزِاوّل کی طرح برقرار ہے۔
یہ ذکر ہے مقبولِ عام کِتابی سلسلے ’’سب رنگ کہانیاں‘‘ کا جس کے اب تک آٹھ حصے شائع ہوچکے ہیں جو سمندر پار کہانیوں کے تراجم پر مُشتمل ہیں۔ اس کے علاوہ اس سلسلے کی ایک کتاب مشہور امریکی کالم نگار آرٹ بک والڈ کے ان کالمز کے ترجموں کا انتخاب ہے جو سب رنگ ڈائجسٹ میں شائع ہوتے رہے۔
سب رنگ کہانیاں کی مقبولیت حیران کن نہیں ہے کیوں کہ سب رنگ کہانیاں، سب رنگ ڈائجسٹ کی کہانیوں کے اِنتخاب پر مبنی ہے اور سب رنگ ڈائجسٹ کے پرستار آج بھی روزِاوّل کی طرح سب رنگ ڈائجسٹ کو پسند کرتے ہیں اور سب رنگ ڈائجسٹ پڑھنا چاہتے ہیں۔ سب رنگ سے ان کے عشق میں کمی نہیں آئی۔
برطانیہ میں مقیم حسن رضا گوندل جو اولڈ راوین ہیں اور گورنمنٹ کالج کے علمی و ادبی پرچے راوی کے ایڈیٹر رہ چکے ہیں، سب رنگ کے ایسے عاشقِ صادق ہیں کہ ان کا عشق اب مثال بن چکا ہے۔ انھوں نے سب رنگ میں شائع ہونے والی تحریروں کو سب رنگ کہانیاں کے روپ میں محفوظ کرنا شروع کیا۔ عاشقان سب رنگ آج بھی سب رنگ ڈائجسٹ پڑھنا چاہتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ عاشقانِ سب رنگ ڈائجسٹ نے سب رنگ کہانیاں کو ہاتھوں ہاتھ لِیا۔
سب رنگ ڈائجسٹ شکیل عادل زادہ کا وہ شاہ کار ہے جو رہتی دُنیا تک اردو ادب کی تاریخ میں اُن کا نام زندہ رکھنے کے لِیے کافی ہے۔ اس جریدے نے جنوری 1970 میں کراچی سے اپنی اشاعت کا آغاز کیا اور تین چار برسوں میں ہی اس کی اشاعت ایک لاکھ پینسٹھ ہزار تک پہنچ گئی۔ اردو ڈائجسٹوں کی تاریخ میں یہ ایسا ریکارڈ ہے جسے شاید کبھی نہ توڑا جاسکے۔ سب رنگ ڈائجسٹ جہاں شکیل عادل زادہ کا شان دار کارنامہ ہے وہیں یہ ذکر کرنا بھی بہت ضروری ہے کہ سب رنگ ڈائجسٹ کو سب رنگ ڈائجسٹ بنانے میں شکیل عادل زادہ کے کہانیوں کے انتخاب کے معیار کا بھی بہت عمل دخل تھا۔ پھر یہ کہ انھوں نے جن لوگوں کو اپنی ٹیم کا حصہ بنایا تھا اور جن افراد کے کِیے گئے تراجم کو اپنے رسالے میں شائع کِیا تھا، وہ بھی بہت باکمال اور بہت باصلاحیت تھے۔
سب رنگ کے رنگوں کو نکھارنے میں شکیل عادل زادہ کو جن تخلیق کاروں کا تعاون حاصل رہا، اُن میں سے کُچھ لوگوں سے ہم نے سب رنگ کہانیاں کے بارے میں بات کی۔ دیکھیں کہ اُنھوں نے اس شان دار جریدے کی کہانیوں کے خوب صورت اور عُمدہ کِتاب کی صورت میں نئے جنم پر کیا کہا:
محترم انور شعور اُردو شاعری کا بہت بڑا نام ہیں۔ اُنھوں نے اُنّیس سو ستّر سے سن دو ہزار تک سب رنگ ڈائجسٹ میں بہ حیثیت نائب مُدیر کام کِیا۔ سب رنگ ڈائجسٹ کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے انھوں نے کہا:
’’سب رنگ میں زبان و بیان وغیرہ کی دُرستی میری ذمے داری تھی لیکن پرچے کو بنانے، سنوارنے اور اسے عروج تک پہنچانے کے لیے الف سے ے تک ہر چیز کا سہرا شکیل عادل زادہ کے سر جاتا ہے۔ ان کی پرچے پر مکمل طور پر نظر تھی، جیسی کہ ایک بہترین مدیر کی ہونی چاہیے اور یہ چیز ان سے بڑھ کے میں نے کسی اور میں نہیں دیکھی۔ اُس ایک شخص نے اسے اردو کا سب سے کثیرالاشاعت پرچہ بنا دیا۔ ایک لاکھ پینسٹھ ہزار چھپتا تھا۔ یہ سب شکیل عادل زادہ کا کمال تھا۔ اردو کے فروغ میں سب رنگ ڈائجسٹ کا بہت بڑا کردار ہے۔ اس میں دنیا بھر کی بہترین کہانیوں کا انتخاب آتا تھا۔ ایسی چھپیں کہانیاں جو شاید یک جا ہوکے ترجمہ نہ ہوپاتیں۔ دنیا بھر کا ادب، افسانے، کہانیاں سب رنگ کی وجہ سے ترجمہ ہوا اور پھر وہ شہروں سے لے گاؤں کے لوگوں تک پہنچا بھی۔ پھر یہ کہ اردو ادب کی کہانیاں اس میں چھپیں اور ایسے ادیبوں کو جن کو ادبی پرچوں کے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا، سب رنگ کی وجہ سے ان کو لوگ جاننا شروع ہوئے اور اردو کے ایسے لکھنے والے جو حلقۂ ادب تک محدود تھے وہ عام لوگوں تک بھی پہنچے۔ یہ بھی سب رنگ کی اردو ادب کے لیے ایک بہت بڑی خدمت ہے۔ سب رنگ ڈائجسٹ کی کہانیوں کو سب رنگ کہانیاں کی صورت میں اکٹھا کرنا حسن رضا گوندل کا بہت بڑا کارنامہ ہے اس کے لِیے اُنھوں نے جو ان تھک محنت کی ہے وہ ایک دو دن کا کام نہیں ہے اور جیسے شکیل بھائی سب رنگ ڈائجسٹ کی وجہ سے امر ہوگئے، ایسے ہی حسن رضاگوندل بھی سب رنگ کہانیاں کی وجہ سے امر ہوگئے ہیں۔
ممتاز افسانہ نگار اخلاق احمد کا سب رنگ سے تعلق بہت پرانا ہے۔ وہ سب رنگ کے اِبتدائی برسوں میں اس سے وابستہ ہوئے تھے۔ اُس دور کی یادیں تازہ کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا:
’’یہ سن ستّر کی بات ہے جب سب رنگ کا آغاز ہوا تھا تو یہ دیگر رسالوں جیسا ایک عام سا رِسالہ تھا اور اس میں کوئی نیاپن نہیں تھا۔ اس نے جو عروج حاصل کِیا، وہ سب شکیل عادل زادہ کا کمال ہے۔ میرا واسطہ سب رنگ سے 1975 میں ہوا۔ میں اس وقت بی اے کا طالب علم تھا۔ میں نے کچھ کہانیوں کے ترجمے کیے اور سب رنگ کے دفتر چلا گیا۔ شکیل عادل زادہ سے ملا۔ انھوں نے کہانی مجھ سے لی، مجھے نظر اٹھا کے دیکھا اور کہنے لگے، اچھا میاں! اگر کہانی اچھی ہوگی تو چھپ جائے گی۔ جب پرچہ آیا تو اس میں کہانی چھپی ہوئی تھی۔ یہ میری زندگی کی بڑی کام یابیوں میں سے ایک تھی۔ لگ بھگ نصف صدی قبل، جب میں نے پہلی بار سب رنگ کا دفتر دیکھا تھا تو میں نہیں جانتا تھا کہ یہ کوئی ایسا طلسم کدہ ہے جہاں داخل ہونے والے کو ایک نئی، انوکھی اور دنیا تخلیق ہوتی نظر آئے گی۔ جب اتنے برس بعد حسن رضا گوندل نے سب رنگ میں شائع ہونے والی، عالمی ادب کی شاہ کار کہانیوں کے تراجم کو ’’سب رنگ کہانیاں‘‘ کی صورت میں مرتب کرنے کا بڑا کام شروع کیا تو وہ پورا زمانہ، وہ ساری فضا، اعلٰی ترین ادب پڑھنے کی وہ ساری سنسنی، روح کو پھر سرشار کرنے لگی۔ یہ یاد آنے لگا کہ سمندرپار کی یہ شاہ کار کہانیاں کیسے حاصل کی جاتی تھیں، کیسے ترجمہ کرنے کے بعد سب رنگ کے دربار میں پیش کی جاتی تھیں، ہم جیسے مترجم کیسے ان کہانیوں کے منتخب ہوجانے کا انتظار کرتے تھے، اور ان کی اشاعت ہمارے دلوں کو کیسے فخر سے اور خوشی سے بھر دیتی تھی۔ ’’سب رنگ کہانیاں‘‘ بلاشبہہ دنیا کی بہترین کہانیوں کے مجموعے ہیں۔ میں نے آج تک اردو زبان میں ایسی شان دار کہانیوں کے ترجمے یک جا نہیں دیکھے۔‘‘
محمود احمدمودی صاحب بہت عُمدہ قلم کار ہیں۔ مُلک کے انتہائی مشہور و مقبول جرائد میں اُن کی طبع زاد کہانیاں اور تراجم شائع ہوچکے ہیں۔ سب رنگ ڈائجسٹ میں بھی اُن کے چند تراجم شائع ہوئے۔ انھوں نے کہا:
’’سب رنگ ڈائجسٹ بہت کمال پرچا تھا اور شکیل عادل زادہ صاحب کی ذہانت کی ایک بہترین مثال تھا۔ انھوں نے کیا خوب صورت پرچا نکالا اور کیا کیا تجربے کیے اس میں۔ بہت کمال کیا اور میں سمجھتا ہوں کہ سب رنگ کی وجہ سے ان کا نام ڈائجسٹوں کی بلکہ ادب کی دنیا میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ یہ بہت ہی شان دار پرچا تھا لیکن بس افسوس یہ ہے کہ جاری نہیں رہ سکا، اس کو اب تک ہونا چاہیے تھا۔ سب رنگ ڈائجسٹ سے میرا تعارف پہلے شمارے سے ہی ہوگیا تھا۔ میں پروفیشنلی لکھتا تھا اور کئی رسالوں میں لکھتا تھا۔ اقبال پاریکھ نے مجھے شکیل صاحب سے متعارف کروایا۔ پھر میں نے سب رنگ ڈائجسٹ میں لکھنا شروع کیا، لیکن کم لکھا ہے، کیوں کہ ان کے لیے کہانیاں منتخب کرنا بڑا مشکل ہوتا تھا۔ ان کا معیار الگ تھا۔ بس یوں سمجھیں کہ سب رنگ میں شوقیہ ہی لکھتا تھا، کیوں کہ وہاں لکھنے میں ایک خوشی محسوس ہوتی تھی۔ ’’سب رنگ کہانیاں‘‘ ایک بہت شان دار آئیڈیا تھا۔ ویسے تو ڈائجسٹوں کے پرانے شمارے ٹھیلوں پر پرانی کتابوں کی دکانوں پر بکتے رہتے ہیں، یوں ڈائجسٹ بہت عرصے تک زندہ رہتا ہے لیکن یہ کہ سب رنگ ڈائجسٹ کو کتابی شکل کی الگ الگ جلدوں میں آرٹ پیپر پر اور ہارڈ باؤنڈ میں چھاپا ہے تو یہ بہت طویل عرصے کے لیے محفوظ ہوجائے گا۔ شاید یہ سو دو سو سال محفوظ رہے اور کوئی بھی جب کبھی ڈائجسٹوں یا رسالوں کی تاریخ لکھے گا تو شاید یہ اس کو دست یاب ہوں گی۔ اس لحاظ سے حسن رضا گوندل کا یہ بہت زبردست کام ہے۔‘‘
امریکا میں مقیم اردو کے نام ور افسانہ نگار جناب انور خواجہ اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’ڈائجسٹوں کا ابتدائی دور تھا، اسی زمانے میں سب رنگ طلوع ہوا۔ شکیل عادل زادہ نے کہانیوں کا معیار اتنا اعلیٰ رکھا کہ سب رنگ کی اشاعت تیزی سے بڑھنے لگی اور تھوڑے ہی عرصے میں پونے دو لاکھ تک پہنچ گئی۔ سب رنگ نے ملکی اور غیرملکی ادیبوں کی ایسی کہانیاں پیش کیں جو ہر طبقے کے ذوق کی تسکین کرتی تھیں۔ زبان و بیان کی ندرت، کہانیوں کے موضوعات کا تنوع اور رنگارنگی اس کی مقبولیت کی وجہ بنی۔ سب رنگ میں نہ صرف تمام طبقات کے ذوق کا خیال رکھا گیا بلکہ اس نے اردو زبان کی ترقی اور ترویج میں بھی ناقابل فراموش کردار ادا کیا۔ ان دنوں میری کئی کہانیاں سب رنگ میں شائع ہوئیں جن میں انگریزی کہانیوں کے تراجم ’’دو شاخہ‘‘ اور ’’سرِبازار‘‘ اور طبع زاد ’’دوست آں باشد‘‘ اور ’’شکر حرام‘‘ بہت زیادہ پسند کی گئیں۔ منڈی بہاؤالدین کے ایک نوجوان حسن رضا گوندل کو عنفوانِ شباب میں سب رنگ سے محبت ہوگئی اور وہ سب رنگ کے پرانے شمارے ڈھونڈنے نکل پڑا۔ اس کی جستجو برسوں کی محنت کے بعد رنگ لائی اور اس نے سارے کے سارے پرچے اکٹھے کرلیے۔ حسن رضا گوندل کی منزل ابھی نہیں آئی تھی۔ اب اس نے سوچا کہ اس ذخیرے کو کیسے محفوظ کیا جائے۔ کیا ان کی جلدیں بنوا کر الماری میں رکھا جائے؟ اسی اثنا میں کمپیوٹر آ گیا۔ حسن رضا گوندل نے ایک مدت جدوجہد کی، اپنا وقت اور جان لگائی۔ اور سب رنگ کے اس خزانے کو ڈیجیٹل شکل میں محفوظ کرلیا۔ اگلا مرحلہ اس سے زیادہ کٹھن تھا۔ اس مردِمجاہد نے سب رنگ کے اس عظیم ادبی ذخیرے کو کتابی شکل میں شائع کرنے کا فیصلہ کیا۔ عالمی کہانیوں کے تراجم سے اس سلسلے کی ابتدا کی اور اب تک سمندرپار سے لیے گئے افسانوں کی آٹھ جلدیں آچکی ہیں۔ حسن رضا گوندل بلاشبہ ایک زبردست آدمی ہیں۔ ایسے شان دار اور جاندار لوگ زندگی میں کم کم ہی ملتے ہیں۔ ابھی ان سے آمنا سامنا نہیں ہوا۔ ابھی ہواؤں کی ملاقات ہے۔ میں غائبانہ طور پر ہی ان کا پرستار بن گیا ہوں جس طرح سب رنگ کو دوبارہ زندہ کرنے اور اسے حیات جاودانی عطا کرنے کا کٹھن کام وہ کر رہے ہیں کوئی دوسرا آدمی کبھی نہ کرسکتا۔ ان کی اس ادا اور خلوص نے مجھے اپنا گرویدہ بنا لیا ہے۔
شکیل عادل زادہ نے سب رنگ کے توسط سے کہانی کے فن کو نئی زندگی بخشی اور حسن رضا گوندل نے ’سب رنگ کہانیاں‘ کی شکل میں سب رنگ کو حیاتِ نو عطا کی ہے۔ ہمیں امید ہے کہ سب رنگ کہانیوں کا یہ کتابی سلسلہ کہانی کے فن کو دوبارہ زندہ کرے گا۔ سب رنگ کہانیاں درحقیقت سب رنگ کا دوسرا جنم ہے جو سب رنگ کے سچے عاشق حسن رضا گوندل کے ذریعے ہورہا ہے۔‘‘
فیاض الرّحمٰن قادری کی ترجمہ کی ہوئی کہانیاں بھی اُن کے طالب علمی کے دنوں سے سب رنگ ڈائجسٹ میں شائع ہونے لگی تھیں۔ انھوں نے کہا:
1975ء گریجویشن کا میرا پہلا سال تھا جب مُجھے انگریزی زبان میں چھپنے والی مختصر کہانیوں سے دل چسپی پیدا ہوئی۔ موپاساں، سمرسٹ مام، لیوٹالسٹائی اور خاص کر او ہنری پسندیدہ کہانی کار تھے۔ انھیں دنوں سب رنگ سے شناسائی ہوئی۔ اس میں چھپنے والی کہانیوں کو پڑھ کر میں دنگ رہ گیا۔ او ہنری کے طرز پر لکھنے والوں سے روشناس ہوا، جن میں سی بی گلفورڈ، ہنری سلیسر، جیرالڈ کرش، لیو پی کیلی، جیک رچی اور ان جیسے کئی نام ور کہانی کاروں کی منتخب کہانیاں شکیل عادل زادہ صاحب کی نگاہ انتخاب یا کسوٹی سے گزر کر سب رنگ میں شائع ہورہی تھیں۔ سب رنگ میں اُردو ادب سے منتخب کہانیاں بھی چھپ رہی تھیں۔ بلاشبہہ وہ اتنی عمدہ تھیں کہ اُردو ادب کا عطر کہلانے کی حق دار تھیں۔ ان کہانیوں کو پڑھ کر اُردو فکشن سے دل چسپی پیدا ہوئی۔ کئی افسانہ نگاروں کے مجموعے زیرِمطالعہ رہے لیکن سب رنگ میں شائع ہونے والی کہانیوں کے مقابلے میں اُن کی دوسری کہانیاں زبان و بیان کے حوالے سے مختلف لگیں۔ یہ شکیل بھائی اور ان کی ٹیم کا کمال تھا۔ مجھے سب رنگ کا مزاج سمجھنے میں تھوڑا وقت لگا۔ میں نے 77 سے 82 کے درمیان تقریباً 18 کہانیاں لکھیں۔ یہ بڑی بات ہے کہ ان میں سے دو کہانیاں خاص کہانی کے طور پر شائع ہوئیں۔ ایک کہانی تھی ابن مریم اور دوسری کہانی تھی چکنے پات۔ پھر ایک کہانی پہلی کہانی کے طور پر شائع ہوئی دی وومن۔ میں 82 کے اوائل میں سعودی عرب آگیا پھر میرا لکھنے کا سلسلہ تقریباً ختم ہوگیا تھا۔ میرا رجحان شارٹ فکشن کی طرف تھا۔ میں نے جب سب رنگ کے لیے ترجمے کرنا شروع کیا تو میں اچھی کہانیاں تلاش کرتا تھا۔ اس زمانے میں بہت سے ڈائجسٹ نکلتے تھے۔ میرے تراجم ان میں بھی چھپتے تھے۔ میں نے تقریباً دو سو ساٹھ کے قریب کہانیاں ترجمہ کِیں۔ ہمیں کہانیاں انگریزی میگزینز یا شارٹ سٹوری اینتھولوجیز سے ملتی تھیں۔ جو کہانی میری نظر میں بہترین ہوتی، وہ میں سب رنگ میں دیتا تھا۔ سب رنگ جب بھی نکلتا تھا، میں ضرور خریدتا تھا۔ سعودیہ آنے کے بعد میرے عزیز پاکستان سے بھیج دیا کرتے تھے، لیکن پھر ایسا وقت آیا کہ سب رنگ بند ہوگیا جس کا مجھے بہت افسوس ہوا۔ پھر پچھلے چند سالوں میں ایک نئی پیش رفت نظر آئی، وہ یہ کہ جناب حسن رضا گوندل صاحب نے سب رنگ کہانیوں کے انتخاب شائع کرنا شروع کیا اور وہ بھی سمجھیے کہ ایک ریفریش کرنے کا عمل تھا جو مجھے بہت پسند آیا۔ سب رنگ ڈائجسٹ کا اپنا مقام اور ایک نام ہے اور جب یہ ’’سب رنگ کہانیاں‘‘ شائع ہونا شروع ہوئیں تو یہ ہاتھوں ہاتھ لی گئیں۔ سب رنگ کے چاہنے والے اس وقت پاکستان میں نہیں بلکہ سارے دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ہم تو تقریباً اپنا وقت گزار چکے کہانیاں بے شمار پڑھیں لیکن بچوں میں وہ شوق پیدا نہیں ہوا، کیوںکہ سب یا تو انگریزی ادب سے وابستہ ہیں یا پڑھتے ہی نہیں لیکن جب سب رنگ کہانیاں ہمارے گھروں میں آئیں اور شیلف میں رکھی گئیں تو بچوں کو بھی تھوڑا شوق ہوا کہ دیکھیں یہ کیا چیز ہے۔ ان کو بھی سب رنگ کہانیاں سے دل چسپی پیدا ہو رہی ہے، یہ سب رنگ کا ریوائیول ہے۔ اللّہ کرے حسن رضا گوندل صاحب اس طرح سے کچھ نو منتخب کہانیاں کا ایک انتھولوجی شائع کرتے رہیں۔ حسن رضا گوندل صاحب کی مرتب کردہ سب رنگ کہانیاں اُردو ادب اور دل دادگان سب رنگ کے لیے انمول تحفہ ہیں، جسے وہ اپنے لیے اور اپنی آئندہ نسل کے لیے بصد شوق گھر کی لائبریری میں محفوظ کرسکتے ہیں۔‘‘