تقدیر کے معاملات
حضرت علیؓ نے فرمایا کہ تمام معاملات تقدیر کے آگے سرنگوں ہیں۔ یہاں تک کہ (اکثر) تدبیر کے ہاتھوں ہلاکت ہو جاتی ہے۔ حضرت علی ؓ نے 80 جنگیں لڑیں۔ سب میں فتح یاب ہوئے۔ حضرت علیؓ میدان عمل کے آدمی تھے۔ ان کا یہ کہنا حیران کن ہے۔ ہزاروں سال سے یہ بحث ہوتی چلی آرہی ہے کہ تقدیر زیادہ طاقتور ہے یا تدبیر۔ سائنسی طور پر بھی یہ بات زیر بحث رہتی ہے کہ انسان کا ورثہ زیادہ طاقتور ہے یا وہ حالات اور ماحول جن میں انسان پرورش پاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ 70 فیصد ورثہ انسان کی تقدیر متعین کرتا ہے۔ اگر ورثہ کمزور ہے تو کوئی بھی تربیت اور ماحول اس میں جوہری تبدیلی نہیں لا سکتی۔ کیونکہ تربیت اور ماحول کا اثر انسان پر صرف 30 فیصد ہوتا ہے۔
انسان کا جنیٹک کوڈ اس کی زندگی میں فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے۔ یہی تعین کرتا ہے کہ اس کی عمر کتنی ہوگی۔ وہ کتنی دیر جیئے گا۔ اس کی شکل و صورت رنگ نسل آنکھوں اور بالوں کی رنگت کیا ہوگی۔ اس کا قد کتنا ہوگا۔ دادکوں کے اثرات زیادہ غالب ہوں گے یا نانکوں کے۔ بچوں میں کس کی خصوصیات زیادہ آئیں گی۔ باپ کی یا ماں کی اور اس میں دادا اور دادی یا نانا نانی کا کتنا حصہ ہوگا۔ یہ سب پہلے سے طے شدہ ہیں۔ تمام تر سائنسی ترقی کے باوجود اس میں تاحال کوئی تبدیلی نہیں آسکی۔
آج سے 1400 برس پیشتر غلام داری لونڈی غلام کا نظام رائج تھا۔ جو غلام پیدا ہوتا تھا وہ غلام ہی مرتا تھا اور اس کی آیندہ نسلیں بھی غلام ہی رہتی تھیں۔ ان پر ہر طرح کا ظلم توڑا جاتا تھا۔ بدترین اور بہیمانہ ظلم ۔ مالک ان کو کسی بھی وقت موت کے گھاٹ اُتار سکتا تھا، کسی بھی وجہ کے بغیر ۔ انسانوں کی حالت اس وقت جانوروں مویشیوں سے بھی بدتر تھی۔ انسانی حقوق کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ حقوق صرف مالکوں اور آقائوں کے تھے۔
بے تحاشا جنگیں اور مسلسل جنگیں ہوتی تھیں کیونکہ جنگیں ہی زیادہ تر ذریعہ معاش تھیں اور ان سے حاصل کردہ مال غنیمت جن میں سونا چاندی ہیرے جواہرات خوبصورت لڑکیاں ، عورتیں ، کم سن لڑکے اور مرد ان سب کو غلام بنا لیا جاتا تھا۔ سونا ہیرے جواہرات خوبصورت لڑکیاں بڑے فوجی سرداروں کے ہتھے چڑھتی تھیں اور باقی بچا کُچا عام سپاہیوں کو ملتا ۔ غنیم بادشاہوں اور سرداروں کی لڑکیوں کو فاتحین اپنے زیر استعمال رکھتے تھے اور کچھ کو تحفہ کے طور پر ان فوجیوں کو بخش دیا جاتا تھا جن کی کارکردگی قابل ستائش ہوتی تھی انعام کے طور پر۔ باقی لڑکیوں کو برہنہ یا نیم برہنہ کر کے بازاروں چوکوں میں کھڑا کر دیا جاتا ۔ گاہک آتے اور انھیں جانوروں کی طرح ٹٹول کر ان کی بولی لگاتے اس طرح سے کثیر مال کمایا جاتا۔ اس زمانے میں انسانوں کی تجارت خرید و فروخت پوری دنیا میں مروج عام پسندیدہ عمل تھا۔ یہی وہ وقت تھا جب اسلام وجود میں آیا۔ ظلم و ستم کا بازار گرم تھا۔
عورتیں لونڈیوں کے طور پر استعمال ہوتی تھیں، ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ بکتی تھیں۔ اس طرح ان کی نسلیں بیت جاتی تھیں۔ ان کے بچے بھی غلام پیدا ہوتے تھے۔ غلام ہی مر جاتے تھے۔ اکثر ان عورتوں کے بچے ان سے چھین کر غلاموں کی منڈیوں میں بیچ دیے جاتے کیونکہ ان کے بے رحم آقائوں کے نزدیک یہ ایک منافع بخش کاروبار تھا۔ عورتوں کا استعمال بچے پیدا کرنے اور بیچنے کے لیے تھا، جانوروں کی طرح۔ اسلام نے جب سماج میں ان باتوں پر قدغنیں لگانا شروع کر دیں تو ایک ہاہاکار مچ گئی اور مخالفتوں کا طوفان اُمڈ آیا۔
اسلام نے کہا لونڈی غلام سے اچھا سلوک کرو۔ ان کو انسان سمجھو۔ ان پر ظلم و ستم کرنے سے اللہ سے ڈرایا۔ کہا جو خود کھائو وہی انھیں کھلائو۔ان کے آرام کا خیال کرو۔ ان کو تنگ ، دل آزاری نہ کرو۔ رسول اللہ ﷺ اور ان کے اہل بیت نے اس کی مثال اس طرح پیش کی کہ ان کو اپنے سے بہتر کھلایا، بہتر پہنایا ۔ خود فاقے سے رہے یہاں تک کہ اپنے خاندان کا حصہ تک قرار دیا۔ غلام کو آقا کے برابر درجہ دینا مکہ کے لوگوں کے لیے ناقابل قبول تھا۔ حضور ﷺ کی یہ تعلیمات مکہ کے حکمران طبقات کے لیے ناقابل قبول تھیں۔ ان کا وہ نظام خطرے میں پڑ گیا جس میں ان کی بادشاہت غلام عوام پر نسلوں سے قائم تھی۔ چنانچہ ایک کشمکش شروع ہو گئی۔
ظلم کے خلاف کشمکش مختلف انقلابات اور بغاوتوں کی شکل میں ہزاروں سال سے آج بھی جاری ہے۔ تمام تر ہولناک ظلم و ستم جبر و قہر کے باوجود ایک نہتا بے وسیلہ انسان آج بھی حقیقی آزادی کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر رہا ہے۔ اسلام سے پہلے دنیا میں جتنے بھی مذاہب آئے ان سب کا مقصد انسانوں کی کثیر تعداد کو مٹھی بھر آقائوں کی غلامی سے نجات دلانا ہی تھا۔ یہ قدیم سامراج تھا ۔ آج کا جدید سامراج جدید ہتھکنڈوں سے دنیا کے انسانوں پر بدترین غلامی مسلط کیے ہوئے ہے۔ عالمی سامراج امریکا نے دنیا کے مقامی سامراجوں کے گٹھ جوڑ سے اسے بظاہر ناقابل شکست بنا دیا ہے۔
عالمی اور مقامی سامراجوں کے مددگار بھی عوام ہی سے ہوتے ہیں۔ چنانچہ جب بھی حکمران طبقوں اور عوام کے درمیان آزادی کی جنگ ہوتی ہے یہ فوراً اپنے جنیٹک کوڈ کی غلامی اور اپنے طبقے سے غداری کرتے ہوئے اپنے اپنے وقت کے حکمران طبقات کی نمک حلالی کرتے ہیں۔ دورِ قدیم سے دورِ جدید تک تاریخ میں ایسے لاکھوں نہیں کروڑوں غدار پائے جاتے ہیں۔ لیکن ان کا آخری انجام تاریخ کا کوڑے دان ہے۔ اب ہم حضرت علی ؓ کے اس قول پر دوبارہ غور کرتے ہیں کہ تمام معاملات تقدیر کے آگے سرنگوں ہیں۔ حضرت علی ؓ کے پیش نظر ذاتی مفاد نہیں تھا۔ وہ تو تدبیر کے ذریعے صرف نظام کی تبدیلی چاہتے ہوئے شہادت کے منصب پر سرفراز ہوئے۔