اساسیات پاکستان تا آئین پاکستان

پاکستان کی اصطلاح آج طنز و استہزا کا موضوع بن گئی ہے۔

farooq.adilbhuta@gmail.com

پون صدی گزر گئی ہے لیکن پاکستان اور تحریک پاکستان کے بارے میں آج بھی ابہام موجود ہیں۔ ایک مؤرخ کی زبان ' مبارک ' سے یہ بھی سنا گیا کہ پاکستان نامی ملک بنا تو ہے لیکن بغیر کسی محنت کے کیوں کہ انگریزوں نے یہ ملک مسلمانوں کی جھولی میں ڈال دیا تھا۔ اس ناپاک پروپیگنڈے کی زہر ناکی یہیں پر ختم نہیں ہو جاتی بلکہ قائدین تحریک پاکستان اور بانیان پاکستان کے بارے میں بھی زہر اگلا جاتا ہے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہمارا نظام تعلیم اس پروپیگنڈے کے تار و پود بکھیر کر رکھ دیتا اور ہمارے تعلیمی اداروں سے نکلنے والے نوجوانوں کے ذہنوں میں اپنے ملک و ملت کے بارے میں کوئی شک و شبہ نہ ہوتا لیکن ایسا ہو نہ سکا۔ اس میں کچھ نظام تعلیم کی کمزوری تھی اور کچھ وہ پروپیگنڈا بھی جس کا جادو آج بھی سر چڑھ کر بولتا ہے۔

 اس پروپیگنڈے کا مآخذ کیا تھا؟ ہمارے سماج میں ایسے بہت سے لوگ قیام پاکستان کے وقت بھی موجود تھے اور آج بھی ہیں جو پاکستان پر یقین نہیں رکھتے۔ ان میں کچھ تو خالصتاً کانگریسی ذہن کے ہیں، کچھ جمیعت علمائے ہند کے زیر اثر تھے اور کچھ بائیں بازو کے دانش ور تھے۔ بائیں بازو والوں کا المیہ یہ تھا کہ تقسیم ہند کے وقت تو انھوں نے اپنا وزن پاکستان کے پلڑے میں ڈالا لیکن قیام پاکستان کے بعد مختلف وجوہات کے باعث ان کی دانش ومحبت کی رو دوسری طرف بہتی چلی گئی۔

اس قسم کے منفی پروپیگنڈے کا ذریعہ وہ تنگ نظر قوم پرست بھی رہے ہیں جنھیں پاکستان کا وجود ایک آنکھ نہیں بھاتا اور وہ اس کی تحریک و تاریخ کے بارے میں مسلسل پروپیگنڈے میں مصروف رہتے ہیں۔ اس کا ایک اور سبب وہ سرکاری تاریخ نویس بھی رہے ہیں جنھوں نے حکمرانوں کے زیر اہتمام' تاریخ'   لکھی جو حقائق کی کسوٹی پر کھری ثابت نہ ہو سکی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آج مطالعہ پاکستان کی اصطلاح آج طنز و استہزا کا موضوع بن گئی ہے۔

اس کی مزید تکلیف دہ صورت سوشل میڈیا کے واریئر بھی ہیں جو کسی طے شدہ پروپیگنڈے کے تحت تحریک و تاریخ پاکستان کے بارے میں جھوٹ و افترا پھیلاتے ہیں۔ اس کا ایک بدترین مظاہرہ اس وقت ہوا جب بھارت میں کسی نے گاندھی جی کے مجسمے کی بے حرمتی کی۔ کہا گیا کہ بھارت والوں نے تو اپنی غلطی کا قرض چکا دیا، پاکستان والے یہ ' کارنامہ ' کب انجام دیں گے؟ اس تکلیف دہ صورت حال سے نمٹنے کا طریقہ کیا ہو؟ ہمارے بعض مؤرخین اور درد مند مصنفین نے اس سلسلے میں کام کیا ہے لیکن یہ مسئلہ جتنا ہے، اتنے بڑے پیمانے پر یہ کام نہیں ہوا۔ حال ہی میں نامور دانش ور اور پاکستان میں نظریاتی صحافت کے سرخیل مخدومی الطاف حسن قریشی کی تازہ کتاب ' میں نے آئین بنتے دیکھا' کی پہلی جلد حال ہی میں شایع ہوئی ہے۔ یہ کتاب یہی ضرورت پوری کرتی ہے۔

مسلم برصغیر کے مسلمانوں نے پورے ہندوستان کو چھوڑ کر ایک نئے ملک کی ضرورت کیوں محسوس کی؟ قریشی صاحب کی کتاب کا آغاز یہیں سے ہوتا ہے۔ وہ پورے اعداد و شمار اور ٹھوس دستاویزی حوالوں کے ساتھ بتاتے ہیں کہ 1857 کی جنگ آزادی کے بعد برصغیر کے مسلمان کس حالت کو پہنچ چکے تھے۔ انھوں نے سر ولیم ہنٹر کی کتاب ' The Indian Musalmans' کے حوالے سے لکھا ہے کہ انگریز حکمرانوں کی سرپرستی کی وجہ سے ہندوؤں پر معاشی ترقی کے دروازے کھل چکے تھے اور مسلم اکثریتی صوبے بنگال میں 681 اعلیٰ مناصب ہندوؤں کے پاس تھے جب کہ صرف 92 ملازمتیں مسلمانوں کے حصے میں آسکی تھیں۔

مسلمان انگریز حکمرانوں کے نشانے پر کیوں تھے، اس کی وجہ مسلمانوں کی اصلاحی اور مزاحمتی تحریکیں تھیں جنھوں نے اپنا دین بچانے کے لیے ہندوستان کو دارالحرب قرار دیا اور آزادی کے لیے مسلح تصادم کا راستہ اختیار کیا جو ناکامی پر منتج ہوئے۔ مسلمان اگر دانش مندی سے کام لے کر اگر کوئی درست راستہ اختیار بھی کرتے تو ہندو اس کی راہ میں مزاحم ہوتے۔ جدید ہندوستان میں یہ کام گاندھی جی نے کیا جنھوں نے ہندوستانی  (اردو) زبان کے بہ جائے ہندی زبان کی تحریک شروع کی۔ اس سلسلے میں بابائے اردو مولوی عبد الحق کے ساتھ ان کی جنگ تاریخ میں یاد گار ہے۔

آگے بڑھنے سے پیشتر مناسب محسوس ہوتا ہے کانگریس کا پس منظر بھی بیان کر دیا جائے۔ اس جماعت کا بانی لارڈ ہیوم نامی ایک انگریز تھا۔ یہ بات توکوئی راز نہیں ہے لیکن یہ راز کوئی نہیں کھولتا کہ اس نے یہ جماعت کیوں قائم کی؟ قریشی صاحب نے لکھا ہے کہ اس کا تعلق برٹش سول سروس سے تھا اور وہ محسوس کرتا تھا کہ انگریز کے ظالمانہ طرز حکمرانی کی وجہ سے انھیں جلد ہی 1857 جیسی ایک اور جنگ آزادی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

اس خدشے کے پیش نظر اس نے کانگریس قایم کی تاکہ مقامی آبادی کی بھڑاس آہستہ آہستہ نکلتی رہے اور لاوا ایک دم نہ پھٹ پڑے۔ یہی کانگریس بعد میں پورے ہندوستان کی نمایندگی کی دعوے دار بن گئی اور اس نے مسلمانوں سمیت دیگر تمام اقلیتوں کے حقوق روندنا شروع کر دیے۔

قریشی صاحب نے لکھا ہے کہ یہی واقعہ تھا جو1935 کے ایکٹ یا دستور کی بنیاد بنا۔ یہ دستور مسلمانوں کے مفاد کے خلاف تھا۔ قریشی صاحب بتاتے ہیں کہ اس دستور کی تشکیل کا مطلب ہی یہ تھا کہ مسلمان دانش ور مستقبل کا نقشہ طے کر چکے تھے جنھیں ناکام بنانے کے لیے یہ دستورتشکیل دیا گیا جس کی مسلم لیگ نے مذمت کی لیکن کوئی چارہ کار نہ ہونے کے باعث اسے ایک مجبوری سمجھ کر تسلیم بھی کیا۔ اس کے باوجود مسلمانوں نے اپنا سیاسی اور نظریاتی سفر جاری رکھا جو بالآخر قیام پاکستان پر منتج ہوا۔

 اس کتاب کے کم از کم تین ایڈیشن تیار ہونے چاہئیں ۔ ایک ابتدائی جماعتوں کے بچوں کے لیے دوسرا ثانوی و اعلیٰ ثانوی جماعتوں کے طالب علموں کے لیے تیسرا یعنی زیر نظر ایڈیشن اعلیٰ تعلیمی اداروں کے طلبہ کے لیے۔ یہ کتاب ہر طالب علم کے لیے تو ناگزیر ہے ہی عام پاکستانیوں خاص طور پر صحافیوں کے لیے بھی بہت ضروری ہے تاکہ وہ جان سکیں کہ پاکستان کی بنیادیں کیا ہیں اور پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے کی حقیقت کیا ہے۔ یہ کتاب چوں کہ پاکستان کے موجودہ آئین تک پہنچے گی، اس لیے قریشی صاحب نے اس کا نام ' میں نے آئین بنتے دیکھا' رکھا لیکن کم از کم زیر نظر کتاب کے لیے یہ نام مناسب نہیں۔ اس کا نام اساسیات پاکستان یا بنیاد پاکستان ہونا چاہیے۔

یہ دراصل ایک سلسلہ کتاب ہے یہ کتاب جس کی پہلی جلد ہے۔ یہ اسی قسم کی کتاب ہے جیسی مسلم برصغیر کی نظریاتی تاریخ کے ضمن میں شیخ محمد اکرام کی کتابیں آب کوثر، موج کوثر اور رود کوثر ہیں۔ میری رائے میں اس سلسلہ کتاب کے نام بھی ایسے ہی ہونے چاہئیں۔ پروفیسر ڈاکٹر امان اللہ اس کتاب کے شریک مصنف ہیں۔ ڈاکٹر صاحب ایک بلند پایہ عالم اور ماہر تعلیم ہیں جنھوں نے قریشی صاحب کی یادداشتوں کو تاریخی شواہد کے ساتھ ہم آہنگ کر کے کتاب کی اہمیت میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔

Load Next Story