شام‘ افراتفری اور انتشار کا شکار
شام میں باغؤں کے دارالحکومت پر قبضے کے بعد الاسد خاندان کا پچاس سے زائد سالوں تک جاری رہنے والا دور اقتدار ختم ہوگیا، دمشق پر باغؤں نے قبضہ کر کے سرکاری ٹی وی، ریڈؤ اور وزارتِ دفاع کی عمارتوں کا کنٹرول سنبھال لیا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے شام کی موجودہ صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک ہنگامی اجلاس بلا لیا ہے۔ جس میں شام کی موجودہ صورتحال پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
بشار الاسد حکومت کا خاتمہ اچانک سے نہیں ہوا بلکہ گزشتہ 13 برس سے ملک جس ہنگامہ خیزی اور انتشارکا شکار تھا، یہ اس کا نتیجہ ہے۔ شام میں 2011 میں خانہ جنگی کا آغاز ہوا تھا۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ عراق، لیبیا، افغانستان کے بعد شام میں سیاسی و معاشی استحکام نہیں آسکے گا۔ بشار الاسد کی حکومت جس طرح امور سلطنت چلا رہی تھی اس سے فوج کا مورال گرا، اسی وجہ سے باغؤں کو آگے بڑھنے کا موقع ملا۔
اہم سوال یہ ہے کہ کیا تبدیلی کے بعد شام کی تاریخ شامی لکھیں گے اور واشنگٹن سے کوئی بلؤ پرنٹ نہیں نکلے گا؟ امریکی صدر جوبائیڈن نے ملک میں برپا ہونے والے انقلاب کو شامؤں کے لیے اپنے ملک کی تعمیر نو کا ’’تاریخی موقع‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ معزول صدر بشار الاسد کا احتساب ہونا چاہیے۔
جب کہ نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شام سے بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد ردِ عمل میں کہا ہے کہ ؤکرین جنگ کی وجہ سے روس کی دلچسپی شام سے ختم ہو چکی تھی۔ دوسری جانب شام میں 2011 سے جاری خانہ جنگی میں روس اور ایران کو بشار الاسد کا سب سے بڑا مدد گار سمجھا جاتا ہے۔ تاہم ؤکرین جنگ کی وجہ سے روس کی ساری توجہ اپنی جنگ پر مرکوز تھی۔
ادھر لبنان میں اسرائیل کے حملوں کے باعث حزب اللہ کو شدید مشکلات کا سامنا ہے جو حکومت مخالف باغؤں کو پسپا کرنے کے لیے ماضی میں ایران کی مدد سے شام میں بشار الاسد حکومت کوکمک فراہم کرتی رہی ہے۔
ایران شاید اسرائیل کے خلاف ابھی تک اپنے غلط اندازوں سے فراغت نہیں پا سکا۔ اکتوبر 2023 میں حماس اور حزب اللہ کی طرف سے شروع کی گئی جنگ میں تباہ نہ ہونے کی صورت میں جن دو پراکسی فوجوں کو ختم کردیا گیا ہے، ان میں سے مؤخر الذکر ایران کے جغرافیائی سیاسی عزائم کے لیے سب سے اہم ہے۔
حزب اللہ نے نہ صرف لبنان کو تہران کے لیے ایک کٹھ پتلی ریاست میں تبدیل کیا بلکہ اس نے گزشتہ تیرہ برسوں میں بشار الاسد کو مخالفین کے خلاف سخت کارروائیاں کرنے پر مجبورکیا۔ موجودہ حالات میں ایسا لگتا ہے کہ ایران یا تو خطے میں اپنی پراکسؤں کا کنٹرول کھوچکا ہے یا ایسا ہونے کے بہت قریب ہے۔
کچھ سال پہلے شام کی خانہ جنگی ختم ہوتی دکھائی دے رہی تھی، جس میں بڑا کردار ایران نے اپنے حمایتی گروہ حزب اللہ کے ذریعے ادا کیا تھا مگر اب اسرائیل کی جانب سے حزب اللہ کی تباہی ایران کے لیے مسائل کا سبب بن رہی ہے۔ وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ کے مطابق 2016 میں شامی حکومت اور اس کے حامؤں ایران، روس اور حزب اللہ کو ملک کے دوسرے بڑے شہر حلب سے باغی افواج کو نکالنے میں چار سال سے زیادہ کا عرصہ لگا تھا۔
اس وقت انھوں نے اس فتح کو شام کی خانہ جنگی میں اہم کامیابی کے طور پر منایا۔ اب باغؤں کی طرف سے ہوئے موجودہ حیرت انگیز حملے نے نہ صرف چند دنوں میں حلب پر دوبارہ قبضہ کرلیا ہے، بلکہ اس قبضے میں شہرکے وہ حصے بھی شامل ہیں جہاں شامی فوج نے پہلے کبھی ہتھیار نہیں ڈالے تھے۔ کہا جا رہا ہے یہ تیز ترین تبدیلی شام کی سرحدوں سے باہر شروع ہونے والی نئی جنگوں کا براہ راست نتیجہ ہے۔
لبنان کی حزب اللہ ملیشیا، روسی صدر ولادیمیر پؤتن اور ایرانی حکومتیں سب اس وقت ایسے تنازعات میں الجھی ہوئی ہیں جن سے ان کے لیے خطرات میں اضافہ ہوا اور اس صورت حال میں شام ان کے لیے ایک بڑا چیلنج ثابت ہوا ہے۔
تینوں نے کوشش کی ہے جہاں تک ممکن ہو اسٹرٹیجک دبائو برداشت کیا جائے مگر اس صورتحال میں شامی باغؤں کا اس وقت کا سب سے بڑا سپورٹر ترکی فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہوتا نظر آرہا ہے۔ روس اندرونی طور پرکمزور ہو چکا ہے، ایران کی کمزوری واضح نظر آرہی ہے، حزب اللہ کمزور ہو چکی ہے، اس صورت حال نے ترکی کے لیے ایک بہت بڑا موقع پیدا کردیا ہے، جس سے اس نے بہت جلد اور موثر فائدہ اٹھا لیا ہے۔
اب واضح ہو گیا ہے کہ ایران نے اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی پر تعاون کؤں کیا، مگرکیا اب بہت دیر نہیں ہو چکی؟ ایران کے پاس اب حزب اللہ کا استعمال اسرائیلی کارروائی کے خلاف یا خطے میں اپنی ہمنوا حکومتوں کو بچانے کے لیے بطور ایک طاقتور ہتھیار موجود نہیں رہا ہے۔ یہاں تک کہ تجربہ کار مبصرین حزب اللہ کی تباہی کے بعد حلب کے زوال/ آزادی کو بشارالاسد اور ایرانی بالادستی کے مستقبل کے لیے ایک خطرے کی علامت کے طور پر دیکھتے ہیں۔
حلب میں شامی باغؤں نے حیران کن پیش قدمی کرتے ہوئے صرف چند گھنٹوں میں شہر کے ان حصوں پر بھی قبضہ کر لیا ہے جو وہ ایک دہائی قبل 4 سال کی لڑائی میں بھی نہیں لے سکے تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسد حکومت اپنی بقا کے لیے حزب اللہ اور ایران پر کتنا انحصارکر رہی تھی۔
روس اب بھی اسد کو سہارا دینے کی کوشش میں رہا جس کی وجہ سے وہ باغؤں پر مسلسل فضائی حملے کر رہا تھا، لیکن ؤکرین جنگ کی وجہ سے اس کے پاس پہلے جیسے وسائل نہیں ہیں جس کی وجہ سے پؤتن دمشق میں اپنے اتحادی کو بچانے کا مزید متحمل نہ ہو سکے، حالانکہ اس نے اسد کی مدد کے لیے حلب میں باغؤں کے خلاف بہت تیزی سے ایکشن لیا تھا۔ روسی فضائیہ جو اسد کی بقا کے لیے ناگزیر تھی، ؤکرین میں روسی زمینی دستوں کی طرح تنزلی کا شکار نہیں ہوئی ہے، لیکن اس نے بھی اپنی فائر پاورکا ایک اہم حصہ کھو دیا ہے۔
اوریکس کنسلٹنسی کے اوپن سورس تجزیہ کاروں کے مطابق، تقریباً تین سال کی ؤکرینی جنگ میں روس کے 117 جنگی طیارے تباہ ہوئے ہیں، اگرچہ روسی فضائیہ نے حالیہ دنوں میں شام میں بمباری کا سلسلہ جاری رکھا، لیکن یہ حملے محدود تھے اور باغؤں کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے زیادہ موثر بھی ثابت نہیں ہو سکے۔ بشارکی موجودہ حکومت اب اس کا کھوکھلا ورژن تھی، جسے روس اور ایران نے 2015 میں بچانے کے لیے جنگ لڑی تھی، اس کے برعکس باغی حیات تحریر الشام کی کمان کے تحت پہلے سے کہیں زیادہ نظم و ضبط اور متحد نظر آرہے ہیں۔
شمالی شام کے باغؤں کے ہاتھوں زوال سے وہاں ایرانؤں اور حزب اللہ کے بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچا ہے اور ان کے لیے وہاں حزب اللہ کی بحالی کے لیے کام کرنا مشکل ہوجائے گا۔ شام میں اسرائیلی کارروائؤں کا امکان مزید بڑھ گیا ہے۔ امریکی اتحادی کرد فورسز نے حلب کے حملے میں حصہ لیا اور وہاں کچھ علاقے پرکنٹرول بھی حاصل کیا ہے جو ان کے لیے ایک اچھی پیش رفت ہے، لیکن اس سے کردوں کے مسائل ختم ہونے کا امکان نہیں۔
اسد کا زوال بہت سے لوگوں کے لیے ممکنہ اچھی خبر ہو سکتی ہے مگر وہ اس پر منحصر ہے کہ آگے کیا ہوتا ہے۔ پچھلے 14 سالوں میں ایسی جنگوں میں حکومتوں کے خاتمے کے بعد جو کچھ ہوا وہ عام طور پر اس سے پہلے کے مقابلے میں بدتر رہا ہے۔ سرزمینِ شام اِدھر ایک قیامت صغریٰ سے باہر نکلتی ہی ہے کہ اُدھر ایک نئی شبِ ظُلمت کا اندھیرا اسے آ گھیرتا ہے۔ تیرہ برس کی خانہ جنگی میں شام کی گلؤں، محلوں، بازاروں، کھیتوں، صحراؤں اور پہاڑوں میں کون سی جگہ ہے کہ جہاں جنگ نہیں ہوئی؟ اس کشت و خون میں اب تک کا حاصل یہ ہے کہ لاکھوں لوگ غریب الوطن ہوئے اور ہزاروں بے نام راہوں میں مارے گئے جب کہ زخمؤں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔
زخمؤں میں سیکڑوں ایسے ہیں جنھیں اب زندگی بھر جسمانی معذوری کا سامنا رہے گا۔ اِس لڑائی سے سب سے زیادہ متاثر ننھے معصوم پھول اور کلیاں ہوئی ہیں، سیکڑوں بن کھلے مرجھا گئیں اور ہزاروں بے گھر و بے اماں ہیں۔ غذائی اجناس، دواؤں اور ضروریاتِ زندگی کی قلت عام ہے جس کا براہِ راست اثر بچوں پر پڑتا ہے۔
روس جو صرف داعش اور القاعدہ سے وابستہ النصرہ کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کا بہانہ بنا کر شام میں داخل ہوا تھا، اب واضح طور پر خانہ جنگی میں بشار حکومت کا ہراول دستہ بن چکا تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اقوامِ متحدہ، عالمی طاقتیں اور خطے کے چیدہ ممالک اِن حالات میں سرجوڑ کر بیٹھ جاتے اور مسئلے کا کوئی مستقل حل تلاش کرتے، مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہاں عالمی طاقتیں اور پڑوسی ممالک خود فریق جنگ بن رہے ہیں۔ اِن حالات میں سوال یہ ہے کہ پیغمبروں کی سرزمین کیا ؤنہی جلتی رہے گی؟
آخر اس دنیا کا اجتماعی ضمیرکدِھر ہے؟ ظلم کو ظلم کہنے، امن کا علم اٹھانے، انسانی آزادی کی بات کرنے، جمہوریت کا نعرہ لگانے اب نہیں تو پھرکب اُٹھیں گے؟