سپریم کورٹ؛ عادل بازئی کو ڈی سیٹ کرنے کا فیصلہ کالعدم، الیکشن کمیشن نے نوٹیفکیشن معطل کر دیا
سپریم کورٹ کے ریگولر بینچ نے عادل بازئی کو ڈی سیٹ کرے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں تین رکنی ریگولر بینچ نے عادل بازئی کی اپیل منظور کرتے الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیا۔
ریگولر بینچ نے کہا کہ تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔
دوران سماعت، جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ عادل بازئی کیس میں حقائق جانچنے کے لیے کمیشن نے انکوائری کیا کی؟
جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ بس بڑے صاحب کا خط آگیا تو بندے کو ڈی سیٹ کردو یہ نہیں ہو سکتا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ایک حلقے کے عوام کو ڈس فرنچائز کرنے کا پیمانہ تو سخت ہونا چاہیے۔
عادل بازئی کے وکیل سردار تیمور نے دلائل میں کہا کہ ایک دن معاملہ الیکشن کمیشن پہنچا اگلے دن کارروائی شروع کر دی گئی، ہم نے کہا جو ن لیگ سے وابستگی کو بیان حلفی بتایا جا رہا ہے وہ تو ہمیں دیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ نیشنل اسمبلی میں حلف لینے کی تصویر تو ہے لیکن واضح نہیں ہو رہا دستخط کس پر کیے جا رہے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا یہاں ایڈیشنل اٹارنی جنرل ہیں؟ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا نے بتایا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل اس وقت آئینی بنچ میں ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ کسی کو ادھر بھی بھجوا دیں۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ اگر کوئی فالتو لاء افسران ہیں تو انھیں ادھر بھی بجھوا دیا کریں، کوئی ایسا دستاویز دکھائیں جس سے یہ ثابت ہو کہ عادل بازئی نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی۔
وکیل عادل بازئی نے کہا کہ 20 فروری کا دستاویز موجود ہے جس میں سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ آئین کہتا ہے تین دن میں آزاد رکن پارٹی جوائن کر سکتا ہے، تاخیر سے پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔
مزید پڑھیں؛ سپریم کورٹ نے عادل بازئی کو ڈی سیٹ کرنے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کر دیا
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ نہ شوکاز نوٹس دیا گیا، نہ ہی بلایا گیا اور ڈی سیٹ کر دیا گیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کیسے فیکٹ فائنڈنگ کر سکتا ہے۔
جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ اگر کھلی آنکھ سے دیکھیں تو بیانات حلفی میں دستخطوں میں واضح فرق ہے، معذرت کے ساتھ اسپیکر آفس محض فاروڈنگ ایجنسی نہیں ہے۔
ڈی جی لاء الیکشن کمیشن نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 63 اے کی متعلقہ شق کے تحت الیکشن کمیشن ڈیکلریشن کنفرم کرتا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ نہ پارٹی ہیڈ کو بلایا گیا اور نہ ہی دستخط کا فرانزک کرایا گیا۔ ڈی جی لاء الیکشن کمیشن نے کہا کہ آئین پاکستان الیکشن کمیشن کو یہ اختیار دیتا ہے کہ اس نے ڈیکلریشن کو کنفرم کرنا ہے۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ ایسا نہیں ہو سکتا ایک بیان حلفی بہت اچھا لگے جسے قبول کر لیا جائے، الیکشن کمیشن کیا ملک کی ہر عدالت سے اوپر ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ اگر بیان حلفی درست نہ نکلا تو اس کے نتائج پارٹی ہیڈ تک جا سکتے ہیں، عدالتوں کو کیوں نہیں مان رہے، مجسٹریٹ اور سول کورٹ کو بھی نہیں مان رہے، کسی کو بھی نہیں مان رہے، سب کچھ بلڈوز کر رہے ہیں۔
وکیل نواز شریف حارث عظمت نے کہا کہ مجھے تحریری جواب داخل کرنے کے لیے وقت دیا جائے۔
دوران سماعت، عدالت نے تحریری معروضات جمع کرانے کے لیے وقت دینے کی استدعا منظور نہیں کی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آپ دلائل دیں۔ وکیل حارث عظمت نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو ڈیکلریشن پر فیصلہ کرنے کا اختیار ہے۔
جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ اس معاملے کو زیادہ ہلکا نہ لیں، توہین آمیز طریقے سے ایسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ جسٹس عائشہ ملک کے پاس دو عہدے ہیں، جسٹس عائشہ ملک آئینی بینچ کا بھی حصہ ہیں اور ریگولر بینچ میں بھی ہیں۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ فی الوقت میرا ایک عہدہ پارک ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کو اختیار ہی نہیں تھا، کیا آپ ساری عدالتیں ختم کرنا چاہتے ہیں۔
نوٹیفکیشن معطل
سپریم کورٹ ریگولر بینچ کے حکم پر الیکشن کمیشن نے عادل خان بازئی کو ڈی سیٹ کرنے کا نوٹیفکیشن بھی معطل کر دیا۔
الیکشن کمیشن کے مطابق این اے 262 سے عادل بازئی کا ڈی سیٹ نوٹیفکیشن سپریم کورٹ کا حتمی فیصلہ آنے تک معطل کیا گیا۔ الیکشن کمیشن نے عادل بازئی کو مسلم لیگ ن کے صدر میاں نواز شریف کی درخواست پر آرٹیکل 63 اے کے تحت ڈی سیٹ کیا تھا۔
واضح رہے کہ 9 دسمبر کو ریگولر بینچ نے عادل بازئی کو ڈی سیٹ کرنے کا 21 نومبر کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کیا تھا۔
عدالت نے این اے 262 کوئٹہ سے برطرف عادل بازئی کی اپیل ابتدائی سماعت کے لیے منظور کی تھی۔
سپریم کورٹ ریگولر بینچ نے الیکشن کمیشن سمیت فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت 12 دسمبر تک ملتوی کر دی تھی۔