سب کچھ بدل جائے گا
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا ہے کہ 14 اگست کو ’’سب کچھ بدل جائے گا‘‘
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا ہے کہ 14 اگست کو ''سب کچھ بدل جائے گا'' ہمیں نہیں معلوم کہ سب کچھ بدل جائے گا سے عمران خان کا مطلب کیا ہے لیکن ہمیں یہ ضرور معلوم ہے کہ سوائے حکمرانوں کے چہرے بدل جانے کے باقی کچھ نہیں بدلے گا۔ بنی گالہ کا ایک سو بیس کروڑ کا محل، بلاول ہاؤس، رائے ونڈ کے محلات اپنی جگہ رہیں گے لیاری، لانڈھی، گیدڑ کالونی، مچھر کالونی کے تنگ و تاریک جھونپڑے اور چھوٹے چھوٹے مکانات اپنی جگہ باقی رہیں گے۔
جب تک انسانوں کے درمیان زمین اور آسمان کے یہ فاصلے برقرار رہیں گے جب تک غربت اور امارت کے درمیان موجود صدیوں کے فاصلے برقرار رہیں گے کچھ نہیں بدلے گا۔ آپ نے شوکت خانم کینسر اسپتال بناکر ایک نیک کام کیا ہے لیکن آج بھی علاج معالجے کی سہولتوں سے محرومی کی وجہ سے ہر سال لاکھوں انسان مر رہے ہیں، بھوک ہر سال لاکھوں انسانوں کو نگل رہی ہے لاکھوں خواتین زچگی کی مناسب سہولتیں نصیب نہ ہونے کی وجہ سے دم توڑ رہی ہیں، ہر سال لاکھوں بچے دودھ اور غذا کی کمی اور محرومی سے جان سے جا رہے ہیں۔ کیا یہ سب کچھ بدل جائے گا؟
ہرگز نہیں بدلے گا، یہ سب کچھ اس وقت تک ایسا ہی رہے گا جب تک طبقاتی استحصالی نظام باقی رہے گا۔ آپ نظام بدلنے کی بات کرتے ہیں آپ نیا پاکستان بنانے کی بات کرتے ہیں یہ باتیں بڑی خوبصورت ہیں ۔لیکن نظام کون بدلے گا نظام بدلنے کا مطلب ہمارے ملک میں ہمیشہ چہرے بدلنا رہا ہے نظام اس وقت بدلے گا جب لیاری اور ڈیفنس لانڈھی اور کلفٹن کے درمیان وہ فاصلے ختم ہوجائیں گے جو زمین اور آسمان مریخ اور کرہ ارض کے درمیان فاصلوں کی طرح موجود ہیں۔ آپ چار حلقوں میں ہونے والی انتخابی دھاندلی کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
آپ کا کہنا ہے کہ اگر ان حلقوں میں دھاندلی ثابت ہوگئی تو ہم ری پولنگ کا مطالبہ کریں گے اگر دھاندلی ثابت نہیں ہوئی تو میں نواز شریف سے ہاتھ ملا لوں گا۔ آپ نواز شریف پر کرپشن کے الزامات لگاتے ہیں بیرون ملک اربوں کی دولت اور جائیداد رکھنے کے الزامات لگاتے ہیں۔ ایک طبقہ اس ملک کو 66 سال سے لوٹ رہا ہے آپ نے سنا ہوگا سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کے 200 ارب ڈالر پڑے ہوئے ہیں۔
یہ پاکستانی پاکستان کے مزدور نہیں پاکستان کے کسان یا ہاری نہیں بلکہ اسی لٹیری کلاس کے لوگ ہیں جو قومی اسمبلیوں صوبائی اسمبلیوں سینیٹ میں بھی موجود ہے اور جمہوریت کا لبادہ اوڑھ کر عوام کا خون چوس رہی ہے۔ بلاشبہ آپ کا تعلق مڈل کلاس سے ہے آپ نے 120 کروڑ کی لاگت سے بنی گالا میں جو محل بنایا ہے وہ آپ کی حلال کی کمائی کا ہوگا لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا ایسی حلال کی کمائی کے مواقعے اس ملک کے 18کروڑ عوام کو حاصل ہیں؟
آپ کرکٹ کی دنیا کے بادشاہ رہے ہیں، آپ کو یہ بادشاہت قسمت سے نہیں ملی اس کے لیے آپ کو بہت محنت کرنی پڑی ۔ملک کے ہر شہر، ہر شہر کی گلیوں میں بے شمار عمران خان، بے شمار میاں داد، بے شمار ظہیر عباس، بے شمار کاردار ٹوٹی پھوٹی لکڑیوں کی وکٹیں سجا کر کرکٹ کھیل رہے ہیں لیکن وہ ان گندی گلیوں سے باہر نہیں آسکتے کیونکہ انھیں وہ مواقعے حاصل نہیں جو کرکٹرز کو عمران خان میاں داد ظہیر عباس بناتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا اس ملک کے 18 کروڑ عوام کو وہ مواقعے حاصل ہیں جو حکمرانوں اور ان کی کلاس کو حاصل ہیں؟ آپ نیا پاکستان بنانا چاہتے ہیں یہ بڑی اچھی بات ہے لیکن کیا اس لیے پاکستان میں لیاری اور ڈیفنس لانڈھی اور کلفٹن کے فاصلے ختم ہوجائیں گے؟ کیا قومی صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ میں جاگیرداروں اور وڈیروں کے بجائے کسانوں مزدوروں کے نمایندے آسکیں گے؟
یہ اس وقت تک نہیں ہوگا جب تک مڈل کلاس ایلیٹ کلاس سے ہاتھ ملاتی رہے گی دنیا کے انقلابات کی تاریخ میں یہی بتایا جاتا رہا ہے کہ مڈل کلاس ان محنت کش طبقات کی رہنمائی کرتی ہے جو ایلیٹ کے ہاتھ توڑتی ہے لیکن آپ ذرا سیاست کے بازار مصر پر نظر ڈالیں آپ کو سیاست کی یہ مڈل کلاس قسم قدم پر ایلیٹ یعنی زمینی اور صنعتی اشرافیہ سے ہاتھ ملاتی اور سمجھوتے کرتی نظر آئے گی۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ یہ سب قسمت کے کھیل نہیں بلکہ اس ظالمانہ نظام کی کرشمہ سازیاں ہیں جو انسانوں کو دھکیل دھکیل کر اس دلدل میں لاتا ہے جہاں سے نکلنا انسان کے بس میں نہیں رہتا۔
آپ اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں کہ 66 سالوں سے یہ ملک اور اس ملک کے عوام جاگیر داروں اور ایلیٹ کے یرغمالی بنے ہوئے ہیں اور عوام کو یرغمال بنانے میں ہماری جمہوریت سب سے اہم کردار ادا کر رہی ہے جو دھاندلی سے شروع ہوتی ہے دھاندلی پر ختم ہوتی ہے۔
جمہوری دھاندلی کا یہ کلچر صرف پاکستان میں نہیں ہے بلکہ سارے جمہوری ملکوں میں کم زیادہ کے تناسب سے موجود ہے دور کیوں جاتے ہیں پڑوسی ملک افغانستان کو دیکھیے جہاں ابھی ابھی انتخابات ہوئے ہیں خون میں نہائے ہوئے اس افغانستان میں دوسرا بڑا صدارتی امیدوار عبداللہ عبداللہ دھاندلیوں کا رونا رو رہا ہے اور امریکا کا جان کیری اسے تسلیاں دے رہا ہے کہ اس کے ساتھ ناانصافی ہونے نہیں دی جائے گی۔ کیا جان کیری پسماندہ ملکوں کی جمہوریتوں میں ہونے والی دھاندلیوں کو ختم یا روک سکتا ہے؟ ہرگز نہیں کیونکہ دھاندلیاں اس نظام اس جمہوریت کے خون میں شامل ہیں جس کی سرپرستی جان کیری کا امریکا کرتا ہے۔
آپ 10 لاکھ انسانوں کے ہجوم کو لے کر 14 اگست کو اسلام آباد کے ڈی چوک آنا چاہتے تھے اور یہ بات آپ ہفتوں پہلے سے کر رہے ہیں لیکن اچانک حکومت نے بھی یوم آزادی بڑے پیمانے پر منانے کا فیصلہ وہ بھی اسلام آباد کے ڈی چوک پر آزادی کی یہ تقریب منانا چاہتی ہے اور اعلان کر رہی ہے کہ اس تقریب میں دوسروں کے علاوہ پاکستان کی مسلح افواج کے سربراہان بھی شرکت کریں گے۔ آپ اور آپ کے ساتھی اس اعلان سے ہکا بکا نظر آتے ہیں لیکن ہماری سیاست ہماری جمہوریت میں اس قسم کے واقعات نئے نہیں ہیں۔ یہ حصول اقتدار حفاظت اقتدار کے کھیل کا ایک حصہ ہیں اسے آپ ہماری سیاست ہماری جمہوریت کی گگلی بھی کہہ سکتے ہیں چھکا بھی کہہ سکتے ہیں اور نہلے پر دہلا بھی کہہ سکتے ہیں سیاست اور جمہوریت کے اس گندے کھیل میں یہ سب کچھ ہوتا رہتا ہے یہاں ناجائز نام کی کوئی چیز نہیں۔
آپ ایک ایسا نیا الیکشن کمیشن لانا چاہتے ہیں جو انتخابات میں دھاندلی نہ ہونے دے۔ ہم آپ کی اس توقع کو سادگی کہیں یا کچھ اور کہ دھاندلیوں سے شروع ہونے اور دھاندلیوں پر ختم ہونے والی اس جمہوریت میں دھاندلیاں رکوانا چاہتے ہیں۔ یہ سب اس نظام جمہوریت کی کرشمہ سازیاں ہیں جسے نہ آپ ڈی ریل ہونے دینا چاہتے ہیں نہ نواز شریف، پھر شکوہ گلہ کس بات کا؟ خان صاحب 14 اگست کو آپ سب کچھ بدلنے جا رہے تھے ذرا ڈی چوک پر مسلم لیگ (ن) کے جلسے کو تو بدل کر دکھا دیجیے۔
جب تک انسانوں کے درمیان زمین اور آسمان کے یہ فاصلے برقرار رہیں گے جب تک غربت اور امارت کے درمیان موجود صدیوں کے فاصلے برقرار رہیں گے کچھ نہیں بدلے گا۔ آپ نے شوکت خانم کینسر اسپتال بناکر ایک نیک کام کیا ہے لیکن آج بھی علاج معالجے کی سہولتوں سے محرومی کی وجہ سے ہر سال لاکھوں انسان مر رہے ہیں، بھوک ہر سال لاکھوں انسانوں کو نگل رہی ہے لاکھوں خواتین زچگی کی مناسب سہولتیں نصیب نہ ہونے کی وجہ سے دم توڑ رہی ہیں، ہر سال لاکھوں بچے دودھ اور غذا کی کمی اور محرومی سے جان سے جا رہے ہیں۔ کیا یہ سب کچھ بدل جائے گا؟
ہرگز نہیں بدلے گا، یہ سب کچھ اس وقت تک ایسا ہی رہے گا جب تک طبقاتی استحصالی نظام باقی رہے گا۔ آپ نظام بدلنے کی بات کرتے ہیں آپ نیا پاکستان بنانے کی بات کرتے ہیں یہ باتیں بڑی خوبصورت ہیں ۔لیکن نظام کون بدلے گا نظام بدلنے کا مطلب ہمارے ملک میں ہمیشہ چہرے بدلنا رہا ہے نظام اس وقت بدلے گا جب لیاری اور ڈیفنس لانڈھی اور کلفٹن کے درمیان وہ فاصلے ختم ہوجائیں گے جو زمین اور آسمان مریخ اور کرہ ارض کے درمیان فاصلوں کی طرح موجود ہیں۔ آپ چار حلقوں میں ہونے والی انتخابی دھاندلی کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
آپ کا کہنا ہے کہ اگر ان حلقوں میں دھاندلی ثابت ہوگئی تو ہم ری پولنگ کا مطالبہ کریں گے اگر دھاندلی ثابت نہیں ہوئی تو میں نواز شریف سے ہاتھ ملا لوں گا۔ آپ نواز شریف پر کرپشن کے الزامات لگاتے ہیں بیرون ملک اربوں کی دولت اور جائیداد رکھنے کے الزامات لگاتے ہیں۔ ایک طبقہ اس ملک کو 66 سال سے لوٹ رہا ہے آپ نے سنا ہوگا سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کے 200 ارب ڈالر پڑے ہوئے ہیں۔
یہ پاکستانی پاکستان کے مزدور نہیں پاکستان کے کسان یا ہاری نہیں بلکہ اسی لٹیری کلاس کے لوگ ہیں جو قومی اسمبلیوں صوبائی اسمبلیوں سینیٹ میں بھی موجود ہے اور جمہوریت کا لبادہ اوڑھ کر عوام کا خون چوس رہی ہے۔ بلاشبہ آپ کا تعلق مڈل کلاس سے ہے آپ نے 120 کروڑ کی لاگت سے بنی گالا میں جو محل بنایا ہے وہ آپ کی حلال کی کمائی کا ہوگا لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا ایسی حلال کی کمائی کے مواقعے اس ملک کے 18کروڑ عوام کو حاصل ہیں؟
آپ کرکٹ کی دنیا کے بادشاہ رہے ہیں، آپ کو یہ بادشاہت قسمت سے نہیں ملی اس کے لیے آپ کو بہت محنت کرنی پڑی ۔ملک کے ہر شہر، ہر شہر کی گلیوں میں بے شمار عمران خان، بے شمار میاں داد، بے شمار ظہیر عباس، بے شمار کاردار ٹوٹی پھوٹی لکڑیوں کی وکٹیں سجا کر کرکٹ کھیل رہے ہیں لیکن وہ ان گندی گلیوں سے باہر نہیں آسکتے کیونکہ انھیں وہ مواقعے حاصل نہیں جو کرکٹرز کو عمران خان میاں داد ظہیر عباس بناتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا اس ملک کے 18 کروڑ عوام کو وہ مواقعے حاصل ہیں جو حکمرانوں اور ان کی کلاس کو حاصل ہیں؟ آپ نیا پاکستان بنانا چاہتے ہیں یہ بڑی اچھی بات ہے لیکن کیا اس لیے پاکستان میں لیاری اور ڈیفنس لانڈھی اور کلفٹن کے فاصلے ختم ہوجائیں گے؟ کیا قومی صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ میں جاگیرداروں اور وڈیروں کے بجائے کسانوں مزدوروں کے نمایندے آسکیں گے؟
یہ اس وقت تک نہیں ہوگا جب تک مڈل کلاس ایلیٹ کلاس سے ہاتھ ملاتی رہے گی دنیا کے انقلابات کی تاریخ میں یہی بتایا جاتا رہا ہے کہ مڈل کلاس ان محنت کش طبقات کی رہنمائی کرتی ہے جو ایلیٹ کے ہاتھ توڑتی ہے لیکن آپ ذرا سیاست کے بازار مصر پر نظر ڈالیں آپ کو سیاست کی یہ مڈل کلاس قسم قدم پر ایلیٹ یعنی زمینی اور صنعتی اشرافیہ سے ہاتھ ملاتی اور سمجھوتے کرتی نظر آئے گی۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ یہ سب قسمت کے کھیل نہیں بلکہ اس ظالمانہ نظام کی کرشمہ سازیاں ہیں جو انسانوں کو دھکیل دھکیل کر اس دلدل میں لاتا ہے جہاں سے نکلنا انسان کے بس میں نہیں رہتا۔
آپ اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں کہ 66 سالوں سے یہ ملک اور اس ملک کے عوام جاگیر داروں اور ایلیٹ کے یرغمالی بنے ہوئے ہیں اور عوام کو یرغمال بنانے میں ہماری جمہوریت سب سے اہم کردار ادا کر رہی ہے جو دھاندلی سے شروع ہوتی ہے دھاندلی پر ختم ہوتی ہے۔
جمہوری دھاندلی کا یہ کلچر صرف پاکستان میں نہیں ہے بلکہ سارے جمہوری ملکوں میں کم زیادہ کے تناسب سے موجود ہے دور کیوں جاتے ہیں پڑوسی ملک افغانستان کو دیکھیے جہاں ابھی ابھی انتخابات ہوئے ہیں خون میں نہائے ہوئے اس افغانستان میں دوسرا بڑا صدارتی امیدوار عبداللہ عبداللہ دھاندلیوں کا رونا رو رہا ہے اور امریکا کا جان کیری اسے تسلیاں دے رہا ہے کہ اس کے ساتھ ناانصافی ہونے نہیں دی جائے گی۔ کیا جان کیری پسماندہ ملکوں کی جمہوریتوں میں ہونے والی دھاندلیوں کو ختم یا روک سکتا ہے؟ ہرگز نہیں کیونکہ دھاندلیاں اس نظام اس جمہوریت کے خون میں شامل ہیں جس کی سرپرستی جان کیری کا امریکا کرتا ہے۔
آپ 10 لاکھ انسانوں کے ہجوم کو لے کر 14 اگست کو اسلام آباد کے ڈی چوک آنا چاہتے تھے اور یہ بات آپ ہفتوں پہلے سے کر رہے ہیں لیکن اچانک حکومت نے بھی یوم آزادی بڑے پیمانے پر منانے کا فیصلہ وہ بھی اسلام آباد کے ڈی چوک پر آزادی کی یہ تقریب منانا چاہتی ہے اور اعلان کر رہی ہے کہ اس تقریب میں دوسروں کے علاوہ پاکستان کی مسلح افواج کے سربراہان بھی شرکت کریں گے۔ آپ اور آپ کے ساتھی اس اعلان سے ہکا بکا نظر آتے ہیں لیکن ہماری سیاست ہماری جمہوریت میں اس قسم کے واقعات نئے نہیں ہیں۔ یہ حصول اقتدار حفاظت اقتدار کے کھیل کا ایک حصہ ہیں اسے آپ ہماری سیاست ہماری جمہوریت کی گگلی بھی کہہ سکتے ہیں چھکا بھی کہہ سکتے ہیں اور نہلے پر دہلا بھی کہہ سکتے ہیں سیاست اور جمہوریت کے اس گندے کھیل میں یہ سب کچھ ہوتا رہتا ہے یہاں ناجائز نام کی کوئی چیز نہیں۔
آپ ایک ایسا نیا الیکشن کمیشن لانا چاہتے ہیں جو انتخابات میں دھاندلی نہ ہونے دے۔ ہم آپ کی اس توقع کو سادگی کہیں یا کچھ اور کہ دھاندلیوں سے شروع ہونے اور دھاندلیوں پر ختم ہونے والی اس جمہوریت میں دھاندلیاں رکوانا چاہتے ہیں۔ یہ سب اس نظام جمہوریت کی کرشمہ سازیاں ہیں جسے نہ آپ ڈی ریل ہونے دینا چاہتے ہیں نہ نواز شریف، پھر شکوہ گلہ کس بات کا؟ خان صاحب 14 اگست کو آپ سب کچھ بدلنے جا رہے تھے ذرا ڈی چوک پر مسلم لیگ (ن) کے جلسے کو تو بدل کر دکھا دیجیے۔