کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی

بارش فطرت کا نغمہ ہے۔ آسمان پر چھائے بادل دیکھ کر پانی سے محروم علاقے تھر

shabnumg@yahoo.com

بارش فطرت کا نغمہ ہے۔ آسمان پر چھائے بادل دیکھ کر پانی سے محروم علاقے تھر، کاچھو اور کوہستان خوشی سے جھوم اٹھتے ہیں۔ اور وہاں زندگی کی نئی لہر دوڑ جاتی ہے۔ بارش جمود کو توڑتی ہے۔ حبس کا خاتمہ ہوتا ہے اور ہر سو تازگی و ہریالی بکھر جاتی ہے۔ درختوں کے دھول سے اٹے چہرے دمک اٹھتے ہیں۔

پھولوں کی مہک گیلی مٹی کے ساتھ مل کر فضا میں ٹھہرتی ہے، تو یکسانیت کا مارا ہوا بوجھل احساس مہکنے لگتا ہے۔ یہ فطرت کا تعمیری رخ ہے۔ مون سون کا موسم سری لنکا میں مئی کے آخر میں جب کہ انڈیا میں جون اور پاکستان میں جولائی کے آغاز میں دستک دینے لگتا ہے۔ پاکستان چونکہ ایک زرعی ملک ہے لہٰذا اس کی تمام تر خوشحالی پانی کے بہتر وسیلوں کی مرہون منت ہے۔ ہمارے ملک میں پانی کی دستیابی سنگین نوعیت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ پاکستان میں ہر سال 65-75 فیصد بارش ریکارڈ کی جاتی ہے۔

فطرت کا مزاج ایک جیسا نہیں رہتا۔ اگر موسلا دھار بارشیں ہوں تو زندگی مفلوج ہو کے رہ جاتی ہے۔ اور ہر طرف ہنگامی صورتحال برپا ہو جاتی ہے۔ جس پر قابو پانے کے لیے پہلے سے اقدامات دیکھنے میں نہیں آتے اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ ڈپارٹمنٹ تباہی کے بعد جاگتا ہے۔ بارشوں کی وجہ سے انسانی جانوں، مویشیوں اور فصلوں کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔ اس ضمن میں حکومتی اداروں کی ناقص کارکردگی ہر دور حکومت میں یکساں رہی ہے۔

2010ء کی بارشوں کی مثال سامنے ہے، جس میں 700,000 گھر اجڑ گئے تھے، بارش کی گزشتہ تباہیوں میں 20 ملین لوگ متاثر ہوئے۔ حالانکہ لوگوں نے دل کھول کے عطیات دیے۔ باہر سے بھی وافر مقدار میں امدادی سامان پہنچا مگر حقدار، اپنے حق سے محروم رہ گئے۔ یہاں جذبے دل شکستہ اور ایمان متزلزل ہے۔ ورنہ ہمارے ملک میں وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے۔

انسان تو انسان کو ستا رہا ہے مگر اب موسموں کے تیور بھی بدلنے لگے ہیں۔ ماہرین عالمی درجہ حرارت کو محفوظ لیول تک لانے کے لیے سر توڑ کوشش کر رہے ہیں۔ بصورت دیگر اس صدی کے اختتام تک درجہ حرارت 4.8 سینٹی گریڈ تک جا پہنچے گا۔ جس کے نتیجے میں سمندروں کی سطح 26 سے 82 سینٹی میٹر تک پہنچ جائے گی۔ جس سے دنیا تباہ کن سیلاب کی لپیٹ میں آ جائے گی۔ کہا جاتا ہے کہ زندگی انسان کی سوچ کا عکس ہے۔ دنیا کی تباہی، قدرتی آفات، موسموں کا تغیر بھی دور جدید کے انسان کے بدصورت اعمال کا نتیجہ ہے۔ فطرت فقط محبت کی زبان سمجھتی ہے۔ وہ نفرت، جبر اور بارود کے دھوئیں سے الرجک ہے۔ انسان خواہ کتنی ہی کوشش کیوں نہ کر لے، مگر وہ قدرت کے اصولوں کے سامنے کمزور و ادنیٰ ہی رہے گا۔

دنیا کی مختلف تہذیبیں فطرت کی فطری بے ساختگی سے، روحانی تحریک حاصل کرتی ہیں اور بارش کو روح کے تناظر میں دیکھتی ہیں۔ برستی ہوئی بوندیں زمین کو سیراب کرتی ہیں اور بنجر زمین کی خالی کو کھ ہریالی سے آباد ہو جاتی ہے۔ عطا کرنے کا جوہر خدائی صفت ہے، جس سے آج کے انسان نے منہ موڑ لیا ہے بارش کی بے خودی و بے ساختہ خوشی سوچوں کے جمود کو منتشر کر دیتی ہے۔ بارش یکسانیت کے لیے ایک تحرک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایشیا کی مختلف تہذیبیں بارش کے دنوں میں باقاعدہ جشن مناتی ہیں۔ انڈیا میں تریج کے نام سے فیسٹیول منایا جاتا ہے۔ تھائی لینڈ میں لگا تار تین یا چار جشن منعقد کیے جاتے ہیں بارش کا پانی صحت آفریں ہے۔


لوگ اسے محفوظ کر کے شفا کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ موٹاپے کو کم کرنے کے لیے آیورویدک دوائیں بھی بارش کے پانی سے بنائی جاتی ہیں۔ رم جھم برستی بوندوں میں نہانا خوش شگونی کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ برستی بوندوں کے تسلسل میں ایک ایسی کشش پائی جاتی ہے، جو مضطرب ذہن کی بے چینی کو رفع کرتی ہے۔ بوندوں کا یہ ترنم ذہن میں یکسوئی پیدا کرتا ہے۔ یہی وجہ سے کہ بارش کے فطری نغمے کو ریکارڈ کر کے، اسے ذہنی دباؤ، تفکر اور تشویش میں مبتلا افراد کو روحانی علاج کے طور پر سنوایا جاتا ہے۔ بوندوں کا آہنگ اور فطری تسلسل ذہن و روح کی مخفی صلاحیتوں کی آبیاری کرتے ہیں۔ واٹر میڈیٹیشن یعنی پانی کا مراقبہ (لہروں و بارش) ایشیا و یورپ میں یکساں مقبول ہے۔

فطرت کی زندگی میں کسی بھی موسم کی اچانک ہلچل نیا پن لے کر آتی ہے۔ جیسے حبس یا شدید گرمی ایک رکاوٹ ہے، جو فطری توانائی کے بہاؤ کو منجمد کرتی ہے۔ گرمی و حبس، انسانی مزاج اور رویے کو براہ راست متاثر کرتے ہیں، ایسی صورتحال میں بارش، ٹھنڈک و تبدیلی کا پیغام ساتھ لے کر آتی ہے۔ اور یکایک مزاج ورویے بدل جاتے ہیں۔ بارش کے یہ قطرے بے اختیار انسانی احساس سے آنکھ مچولی کھیلنے لگتے ہیں۔ تخیل کو پرواز اور تخلیق کو محور مل جاتا ہے۔ ان ہی بارشوں میں کئی نظمیں جنم لیتی ہیں۔ اور شاعری بے اختیار جھوم اٹھتی ہے۔ احساس کو جلا ملے تو فن و فکر نمو پاتے ہیں۔

خوابوں میں بارش، دریا و سمندر دیکھنا معنی رکھتے ہیں۔ خاص طور پر برستی بارش تمثیل ہے جذبات و احساسات کی آزادی کی، یہ کسی نظریے کی قید سے رہائی بھی ہوسکتی ہے یا کوئی خوشگوار تبدیلی کی نوید بھی۔ خوابوں کی تعبیر نظر آنے والی اشیا کی تاثیر کے قریب تر ہوتی ہے۔ نفع یا نقصان بھی ان چیزوں کی افادیت یا نقصان سے جڑے ہوتے ہیں۔ جیسے معقول بارش خوشحالی کی نوید ہے مگر شدید بارشیں تباہی کا سبب بن جاتی ہیں۔

بارش میں بھیگنا اگر خواب میں دیکھا جائے تو اس کا مطلب ہے مایوسی، خوف یا بے یقینی کا خاتمہ۔ بارش فطرت کی تجدید ہے۔ یہ امید، اور پھلنے و پھولنے سے منسوب کی جاتی ہے۔ برسات تبدیلی کا توازن، متبادل راستہ اور خوشخبری کی دین ہے۔ بالکل اسی طرح دھنک کے رنگ ہیں۔ جو بارش کے بعد آسمان پر نظر آتے ہیں۔ یہ قوس قزح خواب میں اگر دکھائی دے، تو یہ خوشخبری، ہم آہنگی، تکمیل اور توازن کا اشارہ کہلاتی ہے۔ پانی دیکھنا علم کے حصول کی خواہش سے بھی منسوب کیا جاتا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ بارش ہر کسی کے لیے اچھا شگون ثابت نہیں ہوتی۔ یہ کچے گھروں کے لیے ڈراؤنا خواب ہے۔ جس کی تعبیر نقصان پر اختتام پذیر ہوتی ہے۔ اکثر بارش کے خوبصورت دن راستوں کی بد نظمی اور انتظامی بدحواسیوں کی نذر ہو جاتے ہیں۔ بارش کے منظر ان ملکوں میں جمالیاتی ذوق کو جلا بخشتے ہوئے اچھے لگتے ہیں، جہاں راستوں پر پانی نہیں ٹھہرتا، کچے گھروں کی چھتیں نہیں ٹپکتیں، بجلی کے پولز سے کرنٹ لگنے کے واقعات نہیں ہوتے، موٹر سائیکلیں سلپ نہیں ہوتیں، وبائی بیماریاں نہیں پھوٹ پڑتیں۔ پانی کی آلودگی میں اضافہ نہیں ہوتا۔

بارش کے موسم میں پرندے اور بچے بڑے خوش رہتے ہیں۔ مجھے بھی اپنے بچپن کی تمام تر بارشیں یاد ہیں۔ گھر کے سامنے پیپل کے درخت کے پتوں پر بارش ٹھہر سی جاتی تھی۔ دوسرے دن کوئی شریر بچہ درخت کو زور سے ہلاتا تو ایک بار پھر بارش برسنے لگتی۔ بادلوں کی چھاؤں میں سنہری ریت بھیگ کر اور بھی گہرے رنگ کی ہوجایا کرتی۔ زمین کے اندر چھوٹے سوراخوں سے گول چھوٹے کیڑے برآمد ہوتے، جن کے پر رنگین و مخملی ہوتے۔ پھر تمام تر بچے ٹھہرے ہوئے پانی میں کاغذ کی کشتیاں بنا کر مقابلے کرتے۔

یہ کشتیاں ہوا کے دوش پر مچلتی پانی کی لہروں کے ساتھ دور تک تیرتی چلی جاتیں۔ ان دنوں آسمان بھی طلسماتی دنیا کا حصہ لگتا، سرمئی بادلوں کے ساتھ تصور بھی کسی پرندے کا روپ دھار لیا کرتا۔ پھر یہ دنیا تلخ حقائق کی بھیڑ میں کہیں کھو گئی۔ برسات کو دیکھ کر فطری خوشی کی نوعیت بھی بدلتی گئی۔ وہ تمام تر رشتے بھی وقت کی مالا سے ٹوٹ کو بکھرتے گئے۔ بارشوں میں پھر دل ڈھونڈتا رہ جاتا ہے وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی ۔
Load Next Story