سماجی انقلاب سے پہلے ذہنی انقلاب ضروری ہے

کیمس کی طرح،کارل نے وجود کے چیلنجوں کو تسلیم کیا، لیکن اس نے الہام کے ذریعے کائنات کی حیرت اور خوبصورتی پر توجہ دی

ایک ممتاز فرانسیسی فلسفی، مصنف اور ڈرامہ نگار، البرٹ کیموس، وجودیت اور مضحکہ خیزی کی تحقیق کے لیے جانا جاتا ہے۔ اقتباس،’’ غیر آزاد دنیا سے نمٹنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ آپ بالکل آزاد ہوجائیں کہ آپ کا وجود ہی بغاوت کا عمل ہے‘‘ اس کے فلسفیانہ عقائد کی بنیادی عکاسی کرتا ہے۔

کیموس کا استدلال ہے کہ رکاوٹوں سے بھری دنیا میں خواہ وہ سماجی، سیاسی یا وجودی ہوں، انحراف کا حتمی عمل اپنی آزادی کو گلے لگانے میں مضمر ہے۔

یہ بغاوت جابرانہ نظاموں کے لیے محض ایک بیرونی چیلنج نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اپنے وجود میں معنی تلاش کرنے کے ساتھ ساتھ زندگی کی مضحکہ خیزی کو مسترد کرتے ہوئے مستند اور مکمل طور پر جینے کا اندرونی عزم بھی ہے۔ اس تناظر کے ذریعے،کیموس افراد کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ وہ اپنی انفرادیت اور خود مختاری پر زور دیں، ان کی زندگی کو ان قوتوں کے خلاف بیانات میں بدل دیں جو انھیں محدود کرنا چاہتی ہیں۔

کارل ساگن ایک بااثر فلکیات دان، فلکیاتی طبیعیات دان، اور سائنس کے کمیونیکیٹر ہیں، جو انسانی تجسس اور علم کی جستجو کے موضوعات کے ساتھ گونجتے ہیں، اگرچہ ایک مختلف نقطہ نظر سے ہو۔

کارل نے مشہور طور پر کہا، ’’ ہم ستاروں کے سامان سے بنے ہیں‘‘ کائنات سے انسانیت کے تعلق اور اس کے اندر اپنے مقام کو سمجھنے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے۔ کیمس کی طرح،کارل نے وجود کے چیلنجوں کو تسلیم کیا، لیکن اس نے الہام کے ذریعے کائنات کی حیرت اور خوبصورتی پر توجہ دی۔ دونوں مفکرین زندگی کی پیچیدگیوں کو اپنانے کی وکالت کرتے ہیں۔

کیموس جبر کے خلاف بغاوت کی عینک سے اورکارل سائنسی کھوج اور تفہیم کے حصول کی عینک سے۔ ایک ساتھ مل کر، وہ انفرادی آزادی اور علم کی جستجو کے لیے گہری تعریف کی ترغیب دیتے ہیں، ہمیں زندگی کے چیلنجوں کا ہمت اور تجسس کے ساتھ مقابلہ کرنے پر زور دیتے ہیں۔

اس کی ناکام کوشش اب جھنجھلاہٹ میں تبدیل ہوچکی تھی وہ کافی دیر سے تالے کے ساتھ زور آزمائی کر رہا تھا اس نے سوچا کنجی تو بظاہر صحیح ہے، یقینا تالے کے اندر کوئی خرابی ہے جس کی وجہ سے تالا کھل نہیں رہا ہے۔

اس کا غصہ اب اس درجے پر پہنچ چکا تھا کہ اگلا مرحلہ صرف یہ تھا کہ تالا کھولنے کے لیے وہ کنجی کے بجائے ہتھوڑے کا استعمال شروع کردے۔ اتنے میں اس کے میزبان آگئے ’’ کیا تالا نہیں کھل رہا‘‘ انھوں نے کنجی اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا ’’اچھا،آپ کنجی غلط لگا رہے ہیں، اصل میں آج ہی میں نے اس کا تالا بدل دیا ہے مگر میں نئے چھلے میں ڈالنا بھول گیا اس کی کنجی دوسری ہے‘‘ اس کے بعد انھوں نے جیب سے دوسری کنجی نکالی اور دم بھر میں تالا کھل چکا تھا۔

زمانہ جب بدلتا ہے ایک دورکے بعد جب دوسرا دور آتا ہے تو ایسا ہی حال ان لوگوں کا ہو جاتاہے جو نئے زمانے کے مسائل کو پرانے زمانے کی کنجیوں سے حل کر نا چاہتے ہیں۔

یاد رہے نئے زمانے میں زندگی کے دروازوں کے تمام تالے بدل چکے ہوتے ہیں مگر وہ پرانی کنجیوں کا گچھا لیے نئے تالوں کے ساتھ زور آزمائی کرتے رہتے ہیں اور جب ان کی پرانی کنجیوں سے نئے تالے نہیں کھل رہے ہوتے ہیں تو وہ کبھی تالا بنانے والے پر اورکبھی سارے سماج پر خفا ہو تے رہتے ہیں۔

جب تالے تبدیل ہوچکے ہوں تو ایسا کبھی نہیں ہوسکتا کہ پرانی کنجیوں سے نئے تالے کھل جائیں۔ افلاطو ن نے کہا تھا ’’ بچے اندھیرے سے ڈریں تو کوئی تعجب نہیں لیکن بالغ لوگ روشنی سے ڈرنے لگیں تو یہ حیرت کی بات ہوگی۔‘‘ جب کہ یزد نے کہا تھا ’’ ہزاروں سال سے میں یہ ہی دیکھ رہا ہوں کہ پرانے نظریات پرکار بند لوگوں کے سامنے جب بھی نئے تصورات پیش کیے گئے تو انھوں نے تغیر پسندوں کے خلاف اپنی تلواریں بے نیام کر لیں اور جب ان کے انتقامی جذبے سرد پڑے تو انھوں نے خود پر طعن کیا اورکف افسوس ملنے لگے‘‘ ۔

سماج کا وہ طبقہ جسے علم سے آگاہی حاصل ہوگئی تھی، اس نے اس کے ذریعے نہ صرف سیاسی اقتدار پر قبضہ کر لیا بلکہ آگے چل کر وہ روحانی طاقت کے بھی مالک بن گئے۔ اس طبقے کی یہ کوشش رہی کہ علم سے دوسرے طبقے مستفید نہ ہوں کیونکہ صرف اسی صورت میں وہ اپنی بالادستی معاشرے پر قائم رکھ سکتے تھے، اس لیے بادشاہوں کے درباروں میں ان کی قدر تھی انھیں دینوی و دنیاوی علوم کے ماہر ہونے کی وجہ سے معاشرے اور دربار میں غلبہ حاصل تھا اور ان سے خو ف بھی کھایا جاتا تھا۔

بادشاہوں کی تاجپوشی اور پیدائش سے لے کر موت تک تمام رسو مات کی ادائیگی ان کے ذمے تھی۔ مذہبی و ثقافتی تہوار ان کی رہنمائی میں منائے جاتے تھے اور ان کی کہی گئی باتوں کو آنکھ بند کر کے سچا تسلیم کیا جاتا تھا پھر ان ہی لوگوں میں سے ہی دانشوروں کا نیا طبقہ پیدا ہوا انھوں نے یہ نعرہ بلند کیا کہ چیزوں کو تسلیم کرنے سے پہلے ان کی تصدیق کی جائے جانچ پڑتال کی جائے اسے عقل کے ترازو میں تولا جائے۔

ان کے فلسفے کی بنیاد شک اور تحقیق پر تھی، اس کے بعد عقیدہ پرست دانشوروں اور عقل پرست دانشوروں میں جنگ چھڑ گئی اور تصادم شروع ہوگیا جو دنیا کے ہر سماج میں آج بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔ عقیدہ پرست اس کوشش میں لگے ہو ئے ہیں کہ انسانوں کو عقیدے کی زنجیر میں باندھ کر قید رکھا جائے اور عقل پر ست اس کو شش میں مصروف ہیں کہ انسانوں کو ان زنجیروں سے آزادی دلوائی جائے ۔

عقل پرستوں کی کوشش اور جدوجہد کے نتیجے میں آج دنیا بھرکے انسان اپنی زنجیروں کو توڑنے میں کامیاب ہو چکے ہیں تقریباً پوری دنیا تبدیل ہوچکی ہے آج عقل کی حکمرانی دنیا بھر میں قائم ہے لیکن دوسری طرف ہم گنتی کی ان چند قوموں میں شامل ہیں جو آج بھی زنجیروں میں جکڑی پڑی ہے ۔

آزادی، خوشحالی، ترقی کے لیے معاشرے میں سب سے ضروری عنصر تبدیلی کا ہوتا ہے لیکن اگر آپ تبدیلی کے سامنے خود دیوار بن کر اس کے آگے کھڑے ہوجائیں تو پھر جمود کبھی نہیں ٹو ٹ پاتا ہے۔ معاشرتی انقلاب سے پہلے ذہنی انقلاب ضروری ہوتا ہے جب داخلی انقلاب آجاتا ہے تو پھرخارجی انقلاب کی بنیادیں استوار ہوجاتی ہیں، ہم نے ان عقائد و تاریخی حقائق کو جو ہمیں ورثے میں ملے تھے، انھیں بغیر سوچے سمجھے قبول کر لیا، اس کی ایک تو یہ وجہ ہے کہ انسان غور و فکر سے جی چراتا ہے اور دوسری یہ کہ ان کو جانچ پرکھ کا عمل خاصا اذیت ناک ہوتا ہے۔

عمر کے گزرنے کے ساتھ اور غور و فکر نہ کرنے کی وجہ سے ہمارے ذہن میں ان گنت جالے بن جاتے ہیں اور ہم ان جالوں سے اس قدر مانوس ہوجاتے ہیں کہ ہم انھیں صاف ہی نہیں کرنا چاہتے ۔ اس لیے ان بے وقوفوں کو آزاد کرانا مشکل ہوتا ہے جو اپنی زنجیروں کی عزت کرتے ہیں ہم سب روایتوں بوسیدہ اخلاقیات ، عقیدوں کی زنجیروں میں بندھے ایسے غلام ہیں کہ اگر ہم ذرا برابر رو گردانی کرتے ہیں تو ہماری پیٹھ پرکوڑے برسنے لگتے ہیں، ہم روزگلتے سڑتے رہتے ہیں، لیکن کوڑے کو پکڑنے کی جرأت اور ہمت نہیں کرتے۔

ہم اپنی جہالت ،کم عقلی، اندھیروں سے اس قدر مانوس ہوچکے ہیں کہ ہمیں روشنی ، علم اورعقل سے چڑ ہوگئی ہے۔ ہم ہر اس شخص کے دشمن بن جاتے ہیں جو ہمیںآزادی دلانے کی بات کرتا ہے اور اس پر چڑھ دوڑتے ہیں ۔ ہمیں آزادی سے زیادہ غلامی پسندہے، تو پھر آپ ہی بتائیں اس صورتحال میں علم اور عقل کیا کرے ۔

Load Next Story