مشرق وسطیٰ اور طاقت کا توازن

جب شام کے لوگ حافظ الاسد اور اس کے خاندان کی خلاف نکلے تو روس نے مداخلت کردی

مشرق وسطیٰ میں سرد جنگ کے بعد جن آمریتوں کا بسیرا تھا، اب وہ جمود ہمیں ٹوٹتا ہوا نظر آ رہا ہے۔سرد جنگ کے بعد پچاس برس تک حا فظ الاسد اور ان کے بیٹے کا اقتدار رہا اور اب ایک نئی صورتحال بنتی نظر آ رہی ہے۔ 2010 میں عرب دنیا میں اسپرنگ انقلاب آیا، اس نے تیونس، مصر، بحرین اور شام وغیرہ کو اپنی لپیٹ میں لیا۔

اس انقلاب کے بعد مصرواپس آمریت کی طرف لوٹ آیا جس کی وجہ یہی تھی کہ وہاں انقلاب ان عناصر کے ہتھے چڑھا جن کی سوچ الٹرا رائٹ کی تھی۔تحریر اسکوائر پر آمریت مخالف قوتوں کا اکھٹا ہونا،مصر کا آئین تحریر کے وقت ریفرنڈم کا ہونا،اس میں بٹ جانا، اس طرح سے آمریت مصر میں لوٹ آئی۔ بحرین میں کسی حد تک سیاسی انقلا ب آیا مگر پھر سنبھل گیا۔ تنزانیہ وہ واحد ملک ہے جہاں اب عورتوں کے موروثی وراثت کے حق کو مردوں کے برابر مانا جاتا ہے۔

جب شام کے لوگ حافظ الاسد اور اس کے خاندان کی خلاف نکلے تو روس نے مداخلت کردی۔وہاں اپنی فوج تعینات کی اور ہوائی اڈوں پر جنگی جہازوں کا پہرہ بٹھا دیا،لیکن بشار الاسد کے پاس شام کا صرف بیس فیصد حصہ ہی بچا تھا اور وہ بھی انھوں نے بھی دس سال بعد گنوا دیا۔

اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ بشارالاسد کی آمریت کو روس اور پیوتن نے بچا رکھا تھا۔شام مشرقِ وسطیٰ کاایسا واحد ملک جہاں روس کی فوج اور ان کے جنگی جہازوں کا ڈیرہ تھا جب کہ امریکن افواج کا ڈیرہ بہت سے ممالک میں ہے۔

1980 کی دہائی میں روس ، افغانستان پر غاصب تھا جہاں سے بلآخر اس کو پسپا ہونا پڑا، پھر امریکا ، افغانستان میں داخل ہوا اور ان کی افواج کا بھی حال ہی میں انخلاء ہوا۔جب سے روس نے یوکرین پر چڑھائی کی ہے، اس کی ترجیحات بدل گئی ہیں۔روس اپنے تھکے ہوئے جرنیل اور فوجی شام بھیجتا رہا اور لڑاکا اور تگڑے دستوں کو یو کرین کی جنگ میں مصروف رکھا۔

کرائے کے فوجی دستے بھی روس کے پاس موجود تھے جو ان کو سستے پڑتے تھے، یوں کہیے کہ یہ ٹھیکے کے مزدور تھے، جب ان کے ٹھیکیدار پرگوزین نے بغاوت کی، پھر بہ ظاہر پیوتن کے ساتھ سمجھوتہ ہوا، پھر ایک ہوائی جہاز حادثے میں مارا گیا۔ ادھر یوکرین نے روسی فوجوں کو تھکا دیا۔

یقیناً یوکرین کو اس جنگ نے بے حد نقصان پہنچایا مگر جنگ کا تسلسل نہیں ٹوٹا ، جنگ ختم نہ ہوئی جب کہ پیوتن کا یہ خیال تھا کہ کچھ ہی عرصے میں یوکرین روس کے قبضے میں ہوگا جس طرح کریمیا ان کے قبضے میں آگیا تھا، ایسا کچھ نہ ہوسکا۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ باغی شام کے دارالحکومت ہ کی طرف بڑھ رہے ہیں، روس شام میں اپنے اتحادی کے اقتدار کو نہیں بچا سکا۔

بشار الاسد کی دوسری بڑی حمایتی طاقت تھی ایران۔ میرا خیال یہ ہے ایران کے سہارے پر ہی حماس نے اسرائیل پر حملہ کر دیا تھا،کیونکہ وہ یہ چاہتے تھے کہ یو کرین کے بعد وہ یہ پرانا محاذ کھو ل دیں۔

جو ظلم اسرائیل نے غزہ پر ڈھائے ہیں وہ ایک بہت المناک داستان ہے اور اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے اور جس طرح سے اس ظلم کی داستان میں امریکا ، اسرائیل کے شانہ بہ شانہ کھڑا رہا وہ ایک الگ روداد ہے لیکن اس کے باوجود حماس کو اسرائیل پر حملہ نہیں کرنا تھا، حماس نے یہ حملے اپنے زمینی حقائق کے پیش ِ نظر نہیں کیے بلکہ ایران یا پھر روس کے سہارے پر کیے تھے اور پھر یہاں ایک جنگی محاذ کھل گیا، لبنان سے حزب اﷲ اس محاذ میں کود پڑے۔

حماس کے اس محاذ کے بعد اسرائیل نے غزہ میں حماس اور لبنان میں حزب اللہ کو شدید نقصان پہنچایا۔اس جنگ میں نئی جنگی تکنیک بھی منظر عام پر آئی جو موبائل فونز یا واکی ٹاکی حزب اللہ لیڈرز استعمال کر رہے تھے، ان کی جیبوں یا گھروں میں تھیں ، ان کو ریموٹ کے ذریعے اڑا دیا گیا،جس سے بھاری نقصان ہوا۔

دمشق میں موجود ایران کی ایمبسی پر حملہ کیا گیا۔ تہران میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو میزائل حملے میں شہید کردیا گیا لیکن اس کا جواب انتہائی کمزور تھا۔ شام کا بشار الاسد کے ہاتھوں سے نکلنے کا مطلب ہے کہ شام اب ایران اور روس کے اثر سے بھی نکل چکا ہے۔روس کو یوکرین پر چڑھائی کی بھاری قیمت اداکرنی پڑرہی ہے۔ایران دہائیوں سے مشرقِ وسطیٰ میں مصروف عمل ہے۔ سوائے یمن میں حوثی اور عراق کی فورسز کے،ایران کے مشرق وسطی میں تین مضبوط ستون گر پڑے ہیں۔ حزب اللہ اور حماس بہت کمزور ہو گئے ہیں اوراب شام بھی چلا گیا۔
ایران میں بھی موجودہ رجیم کے بارے میں بے چینی موجود ہے۔سعودی عرب میں قدامت بادشاہی نظام ہونے کے باوجود وہاں کا نظام اوپن ہو رہا ہے، وہاں عورتوں کو مردوں کے برابر حقوق دیے جا رہے ہیں جب کہ ایران کا نظام اب بھی بے لچک ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں چالیس ، پچاس برس سے برقرار طاقت کا توازن لرز چکا ہے۔

مشرقِ وسطیٰ میں جنگی صورتحال کے باوجود پر پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہورہا بلکہ تیل کی قیمتیں گرنے کا امکان ہے۔دنیا میں جس طرح شمسی توانائی کا استعمال تیز ہو رہا ہے، اسی طرح دائیں بازو کا پاپولر ازم بھی اپنی اہمیت کھو رہا ہے۔

گو اس وقت ہندوستان پر مودی کی انتہاپسند نظریات کی حامل حکومت ہے جب کہ امریکا پر ٹرمپ کی صورت میں قدامت پسندی کو عروج مل رہا ہے مگر آمریتیں تیزی سے زوال پذیر ہو رہی ہیں۔


یہ کہنا قبل از وقت ہو گا شام میں ترکی کا اثر بڑھ رہا ہے۔شام میں اسلامی پہچان رکھنے والے باغی ضرور آئے ہیں مگر ان کا رویہ مختلف ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین واپس آرہے ہیں۔جنگوں کے اعتبار سے مشرق وسطیٰ، پچاس برس سے ایک خطرناک خطہ رہا ہے،کیا وہ آیندہ زمانوں میں بھی رہے گا؟

کیا پٹرول کی کھپت آیندہ زمانوں میں توانائی کی ضروریات کے لیے اتنی ہی اہم رہے گی؟سرد جنگ سے اب تک پٹرول کی رسدیقینی ہونا اتنی ضروری ہوگی کہ یہاں آمریتیں مسلط کردی جائیں گی کہ پٹرول کی رسد دنیا میںیقینی رہے،لیکن اب دنیا بہت تیزی سے توانائی کی ضروریات کے لیے متبادل راستے تلاش کر رہی ہے۔


مستقبل میں تین بڑی ریاستیں مشرقِ وسطیٰ میں تیزی سے ابھر رہی ہیں۔وہ اس لیے کہ وہ آ مریتیں ہوتے ہوئے بھی بہت تیزی سے Plural AND Inclusive ہوتی جا رہی ہیں۔وہ ریاستیں ہیں متحدہ عرب امارات، قطر اور سعودی عرب اور جو ریاستیں تیزی سے اپنے وجود کی افادیت کھو رہی ہیں وہ ہیں ایران ، مصر، یمن اور عراق وغیرہ۔

جب نظریہ اپنی افادیت کھو بیٹھے جیسا کہ سابق سوویت یونین، عراق اور شام میں بعث پارٹی کا نظریہ اور موجود ایرانی حکمران اشرافیہ کی سوچ، تو ریاست کے اندر تبدیلی یقینی ہو جاتی ہے۔دنیا کے ایک کونے میںروس اب اپنی سپر طاقت کی حیثیت کھو رہا ہے اور اسی طرح ٹرمپ کی سربراہی میں امریکا ۔ مغربی یورپ کی حکومتیں امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت میں ایک دوسرے سے دور ہوتے نظر آ رہے ہیں۔آنے والا برس دنیا کی سیاست میں بہت سی تبدیلیاں لا رہا ہے ۔

Load Next Story