رچرڈ گرنیل کی تعیناتی ۔ تحریک انصاف کی خوشیاں ؟
نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے رچرڈ گرنیل کو دنیا کے لیے اپنا خصوصی نمایندہ مقرر کیا ہے۔ تا ہم ڈونلڈ ٹرمپ نے ان کی تعیناتی کے حوالے سے جو ٹوئٹ کیا ہے، اس میں واضح کیا ہے کہ ان کو وینیز ویلا اور شمالی کوریا کے لیے نامزد کیا گیا ہے۔ لیکن ان کا عہدہ دنیا کے لیے خصوصی نمایندہ کا ہی ہوگا۔
اس لیے وہ دنیا میں کہیں بھی کام کر سکیں گے۔ تا ہم ڈونلڈ ٹرمپ نے ابھی ان کو ان دو ممالک کے لیے نامزد کیا ہے۔ ویسے تو ان کی نامزدگی پاکستان کے لیے کسی اہمیت کی حامل نہیں ہونی چاہیے تھی۔ہمیں اس کو معمول کی نامزدگی لینا چاہیے تھا۔ لیکن پھر بھی ان کی نامزدگی کو خصوصی اہمیت حاصل ہو گئی ہے۔
اپنی نامزدگی سے پہلے 24اور 25نومبر کو رچرڈ گرنیل نے عمران خان کی رہائی کے لیے ٹوئٹ کیے تھے۔ ان کے ایک ٹوئٹ میں بانی تحریک انصاف عمران خان کو پاکستان کے ٹرمپ کے طور پر بھی پیش کیا گیا ہے۔ اس لیے ہمارے تحریک انصاف کے دوست ان کی تعیناتی سے بہت خوش ہیں۔ بالخصوص تحریک انصاف اوور سیز خوشی کے شادیانے بجا رہی ہے۔ ان کی خوشی قابل دید ہے۔ اور ایسا تاثر دیا جا رہا ہے کہ بس رچرڈ گرنیل آگیا ہے۔
اور اب وہ پہلا کام یہی کرے گا کہ بانی تحریک انصاف کو رہا کرا دے گا۔ بلکہ ایسا ماحول بھی بنایا جا رہا ہے کہ اب تو جب تک بانی تحریک انصاف کو وزیر اعظم نہیں بنایا جا ئے گا، بات آگے نہیں بڑھے گی۔ اسٹبلشمنٹ اور حکومت پھنس گئے ہیں۔ کچھ دوست تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ بس 25دسمبر سے پہلے رچرڈ گرنیل کی کال آجائے گی۔ اور عمران خان رہا ہو جائیں گے۔ بہر حال فائنل کال کی ناکامی کے بعد ناا میدی کے جو بادل چھائے ہوئے تھے۔ رچرڈ گرنیل کی تعیناتی نے تحریک انصاف کے اندر امید کی دوبارہ کرن پیدا کر دی ہے۔
رچرڈ گرنیل امریکی کابینہ کے پہلے رکن ہوں گے جو اعلانیہ ہم جنس پرست ہیں۔ رچرڈ گرنیل اور میٹ لیشے ایک عرصہ سے ہم جنس پرست جوڑے کے طور پر رہ رہے ہیں، وہ اس کا باقاعدہ اقرار بھی کرتے ہیں۔ رچرڈ گرنیل ہم جنس پرستی کو قانونی قرار دینے کے حق میں ہیں۔ اور وہ کہتے ہیں کہ یہ کوئی جرم نہیں ہونا چاہیے۔ ان کی زندگی کا یہ پہلو انھیں امریکا جیسے پدرسری معاشرے میں بھی متنازعہ بناتا ہے۔ لیکن وہ ڈونلڈ ٹرمپ کے قریبی ساتھیوں میں بھی تصور کیے جاتے ہیں، اس لیے انھیں یہ عہدہ دیا گیا ہے۔
رچرڈ گرنیل متنازعہ بات کرنے اور تنازعہ کو بڑھانے میں کافی مہارت اور شہرت رکھتے ہیں۔ منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے گزشتہ دور میں انھیں جرمنی میں سفیر لگایا تھا تو ان کے پہلے ہی دن کے ٹوئٹ سے جرمنی میں تنازعہ کھڑا ہو گیا تھا۔جرمنی کی حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی ان کے خلاف ہو گئے تھے۔
رچرڈ گرنیل ایران مخالف بھی سمجھے جاتے ہیں۔ وہ ایران پر سخت پابندیوں کے حق میں سمجھے جاتے ہیں۔ اور جرمنی میں بھی انھوں نے جرمن کمپنیوں کو متنبہ کیا تھا کہ جو جرمن کمپنیاں ایران کے ساتھ کاروبار کر رہی ہیں، ان پر امریکا پابندیاں لگا دے گا۔ اس لیے موجودہ تناظر میں انھیں اسرائیل کا حامی اور ایران کا سخت مخالف بھی سمجھا جاتا ہے۔ وہ غزہ کے معاملے پر بھی اسرائیل کے حق میں ہیں۔ حماس اور حزب اللہ کو ختم کرنے کے حق میں ہیں۔
میں تحریک انصاف کے دوستوں کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ امریکی صدر کے تمام خصوصی نمایندے امریکا کے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ماتحت ہی کام کرتے ہیں۔ پاکستان نے بھی حال ہی میں افغانستان کے لیے خصوصی نمایندہ مقرر کیا ہے۔ لیکن وہ دفتر خارجہ کے ہی ماتحت ہے۔ رچرڈ گرنیل کو امریکا میں سیکریٹری آف اسٹیٹ نہیں لگایا گیا۔ انھیں اسسٹنٹ سیکریٹری آف اسٹیٹ بھی نہیں لگایا گیا۔ ٹرمپ کے پہلے دور میں انھیں جرمنی میں سفیر لگایا گیا تھا۔
اب انھیں صرف دو ممالک کے لیے نمایندہ خصوصی لگایا گیا۔ دونوں ممالک یعنی شمالی اور وینیز کے ساتھ امریکا کے اختلافات ہیں۔ وینزویلا کے ساتھ تو سفارتی تعلقات بھی ختم ہو چکے ہیں۔ وہاں امریکی مفادات کو شدید خطرہ ہے۔ وینزویلا کی حکومت نے امریکا کے ساتھ تعلقات بھی ختم کر دیے ہوئے ہیں۔ اس لیے وہاں کے مسائل کافی گھمبیر ہیں۔
اسی طرح شمالی کوریا اور امریکا کے درمیان بھی سرد تعلقات ہیں۔ ٹرمپ کے سابقہ دور میں امریکا اور شمالی کوریا کے صدر کے درمیان ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ لیکن ان کا بھی اچھا نتیجہ نہیں نکلا۔ امریکا نے شمالی کوریا پر بھی پابندیاں لگائی ہوئی ہیں۔ان کی تعیناتی یہ ضرور بتاتی ہے کہ ٹرمپ ان دونوں ممالک سے تعلقات ٹھیک کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں۔ بلکہ تعلقات مزید کشیدہ ہونے کی پالیسی ہوگی۔
اس لیے رچرڈ گرنیل کو جن ممالک کے لیے فی الحال لگایا گیا ہے۔ وہاں امریکا سفارتی جنگ میں ہے۔ ایک ملک سے تعلقات ختم ہیں، دوسرے سے سرد جنگ ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کا پاکستان کے لیے کوئی کردار نہیں۔ لیکن تحریک انصاف کے دوست خوش ہیں۔انھیں رچرڈ گرنیل سے بہت امید ہے۔ میں سمجھتا ہوں ان کی یہ امید جلد ٹوٹ جائے گی۔
یہ درست ہے کہ ان کے بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لیے ٹوئٹ ہیں۔ ایسے ٹوئٹ وہاں لابنگ فرم کروا لیتی ہے۔ لیکن 26نومبر کے کریک ڈاؤن پر ان کا کوئی ٹوئٹ نہیں۔ انھوں نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ جس کا مقصد ہے کہ وہ تحریک انصاف کے ساتھ نہیں ہیں۔
بہر حال جہاں تک پاک امریکا تعلقات کی بات ہے۔پاکستان اور امریکا کے درمیان اسٹرٹیجک تعلقات ہیں۔ امریکا اور پاکستان کے درمیان زیادہ معاملے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے بجائے پینٹاگون سے بھی ہینڈل ہوتے ہیں۔
کیونکہ پاک امریکا تعلقات میں پینٹاگون کا بھی ایک کردار رہتا ہے۔ اس لیے مجھے نہیں لگتا کہ ٹرمپ انتظامیہ کے آنے سے پاک امریکا تعلقات کو کوئی خاص خطرہ ہے۔ ریاست پاکستان ٹرمپ انتظامیہ سے رابطے میں ہے۔ اور شاید یہ رابطے خاموش ہیں۔ کیونکہ ایسے رابطے خاموش ہی ہوتے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں کہ کوئی رابطہ نہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ریاست پاکستان اور حکومت پاکستان کا ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ کے لیے ہوم ورک مکمل ہے اور فکر کی کوئی بات نہیں۔
جہاں تک بانی تحریک انصاف کا معاملہ ہے ، مجھے نہیں لگتا کہ امریکا بانی تحریک انصاف کو جیل سے باہر لانے اور اقتدار میں لانے کے لیے کوئی کام کرے گا۔ وہ پاکستان کی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ کام کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھے گا۔ ریپبلکن کا ماضی بھی ایسا ہی رہا ہے۔ وہ اسٹبلشمنٹ کے ساتھ کام کرنے میں زیادہ آسانی سمجھتے ہیں۔ اس لیے ہمیں اس پہلو کو بھی ذہن میں رکھنا ہوگا۔