شام کی تباہی: گریٹر اسرائیل کا عملی آغاز

صہیونی نظریے کے تحت گریٹر اسرائیل کی توسیع کے لیے مشرق وسطیٰ میں کارروائیاں جاری ہیں

فوٹو فائل

گریٹر اسرائیل کو ایک مفروضہ کہنے والوں کو چند ماہ اور گزرنے کے بعد معلوم ہوجائے گا کہ اس مفروضے میں کتنی صداقت ہے۔

گریٹر اسرائیل، یا "Eretz Yisrael Hashlema"، ایک ایسا منصوبہ ہے جسے صہیونی نظریے کے بعض حامی مشرق وسطیٰ کے جغرافیے میں اسرائیل کی توسیع کےلیے دیکھتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں منظر عام پر آنے والے نقشوں نے اس تصور کو مزید تقویت دی ہے۔ یہ یہودی مذہب کی مقدس کتاب تورات کے مطابق ہے جس میں اسرائیل کی سرحدوں کو دریائے نیل سے لے کر فرات تک پھیلایا گیا ہے، جو شام، عراق، اردن، سعودی عرب، اور مصر سمیت دیگر عرب ممالک کے علاقوں پر مبنی ہے۔

یہ منصوبہ نہ صرف مشرق وسطیٰ میں موجودہ سیاسی نظام کےلیے خطرہ ہے بلکہ اس کے پیچھے جاری پالیسیاں علاقائی عدم استحکام کا باعث بھی بن رہی ہیں۔ شام کی موجودہ خانہ جنگی اس منصوبے کی کامیابی کے لیے ایک اہم کڑی کے طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔ 

شام میں خونخوار ڈکٹیٹر بشارالاسد کا خونی دور ختم ہوگیا ہے، لیکن یہ کیسے ایسے اچانک ختم ہوا یہ اپنے آپ میں بہت سارے سوالات لیے ہوئے ہے۔ شامی اپوزیشن کی جنگ، جسے ترکی اور اسرائیل کی حمایت حاصل ہے، ایک پیچیدہ سیاسی اور عسکری کردار اختیار کررہی ہے، کیونکہ اسرائیل عرب معاشرے میں گہری تقسیم پیدا کرنے سمیت متعدد مقاصد کے حصول کےلیے اس کارڈ کو آگے بڑھا رہا ہے۔ شام میں بشارالاسد کی حکومت کا دھڑن تختہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب شاید جدید تاریخ میں پہلی مرتبہ یا چار عشروں میں پہلی مرتبہ عرب دنیا اپنے تمام فرقوں کے ساتھ سنی اور شیعہ ایک واضح موقف کے ساتھ غاصب صہیونی ریاست کے فلسطین پر مظالم کے خلاف متحد ہیں۔ تاہم، اسرائیل نے شام میں اپنے کارڈز منتقل کرنے سے اس متحد مؤقف تقسیم کرنے کا راستہ کھول دیا ہے، جو اسرائیل کے خلاف عربوں کی یکجہتی کو خراب کرنے میں معاون ہے۔

مقبوضہ فلسطین کا محصور شہر غزہ جو اس وقت بدترین اسرائیلی دہشتگردی کا شکا رہے جس میں تادمِ تحریر 16 ہزار سے زائد بچوں اور 12 ہزار سے زائد خواتین سمیت اب تک 44,930 فلسطینی شہید اور 10،66,24 زخمی ہوچکے ہیں، جبکہ فلسطینی وزارت صحت کی رپورٹ کے مطابق اب تک 15 ہزار سے زائد افراد ملبے تلے دبے ہوئے ہیں اور وسائل کی کمی اور وحشیانہ بمباری کے جاری رکھنے کے باعث اب تک ان ملبے تلے دبے ہوئے افراد کو نہیں نکالا جاسکا، جس کے باعث اس میں اب تک شہید ہونے والوں کی درست معلومات میسر نہیں ہے۔

غزہ میں اسرائیلی فوجی اضافہ علاقائی میدان میں تزویراتی تبدیلیوں کی عکاسی کرتا ہے۔ صہیونی وزیراعظم نیتن یاہو نے عرب محاذ پر انتشار پیدا کرنے کےلیے جان بوجھ کر شامی کارڈ کا فائدہ اٹھایا۔ اسرائیلی قیادت کی جانب سے میڈیا وار کا مقصد غزہ کی میڈیا کوریج کو محدود کرنا ہے، جو حالیہ اسرائیلی دہشتگردی کے باعث عرب اور بین الاقوامی توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔ دنیا کی نظریں غزہ میں جاری قتل عام پر مرکوز ہیں، اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے عرب رائے عامہ کی توجہ غزہ میں قابض فوج کے جرائم سے ہٹانے کی ایک اور چال چلی۔ نیتن یاہو نے شام میں جاری جنگ کو نمایاں کرنے کی کوشش کی، جہاں نسل کشی کے ذریعے خاموشی سے زندگیاں ضائع ہورہی ہیں۔ اس اقدام کا مقصد غزہ میں ہونے والے قتل عام جیسے مظالم پر سے عالمی توجہ ہٹانا ہے، جنہیں نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔

لبنان کی مزاحمتی تحریک حزب اللہ نے 2006 کی طرح ایک بار پھر صہیونی ریاست اسرائیل کو ذلت آمیز شکست سے دوچار کیا۔ صہیونی وزیراعظم نیتن یاہو اپنی تمام تر وحشیانہ عسکری طاقت کے باوجود لبنان اور غزہ میں ایک بھی عسکری مقصد حاصل کرنے میں ناکام رہے ۔ طاقت کے زور پر نہ وہ حماس کے زیر حراست یرغمالیوں کو آزاد کروا سکے، نہ غزہ سے اسرائیل پر حماس کے حملے روک سکے، اور نہ ہی حزب اللہ کے حملوں کے بعد شمال کی خالی ہونے والی غیر قانونی صیہونی بستیوں کے رہائشیوں کو اپنے گھروں میں واپس آنے پر راضی کرسکے۔

اس دوران حزب اللہ نے اسرائیل کے سرحدی علاقوں کے علاوہ صہیونی ریاست کے دارالحکومت تل ابیب سمیت مختلف اہم شہروں کو نشانہ بنایا۔ یہاں تک کہ حزب اللہ نے نیتن یاہو کے ذاتی گھر پر حملہ کیا، اسرائیلی داخلی سلامتی کی خفیہ ایجنسی "شاباک" کے ہیڈکوارٹرز کو نقصان پہنچایا، اور اسرائیل کے سب سے بڑے اور مصروف ترین بن گورین ایئرپورٹ پر کامیاب حملے کیے۔ اسرائیل کی تمام تر طاقت اور وحشیانہ بمباری بھی حزب اللہ کے عزم کو توڑنے میں ناکام رہی۔ لبنان کی سرحدی جنگ میں کم از کم 150 اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکت صہیونی ریاست کےلیے ناقابل تلافی نقصان ثابت ہوئی۔

حزب اللہ کی جانب سے شمالی اسرائیل پر مسلسل حملوں اور اسرائیلی شہروں میں تباہی نے صہیونی قیادت کو بوکھلا دیا۔ جب عالمی دباؤ، سفارتی کوششیں، اور فوجی طاقت کے بدترین استعمال کے باوجود اسرائیل اپنی تباہی کو نہیں روک سکا تو اس نے حزب اللہ اور حماس کی شام سے منسلک اسلحہ سپلائی لائن کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ تاہم، ان تمام اقدامات کے باوجود اسرائیل کو بالآخر جنگ بندی معاہدے پر مجبور ہونا پڑا، جو اس کی ناکامی اور حزب اللہ کی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

حزب اللہ کی طاقت کو توڑنے کےلیے عالمی طاقتوں نے جو طریقہ کار اختیار کیا اور شام میں جس منظرنامے کا سامنا ہم کر رہے ہیں یہ حکومت مخالف دھڑوں کی عسکری طاقت یا بشارالاسد کی حکومتی کمزوری سے نہیں، بلکہ روس، ترکی کے درمیان اسرائیلی اور امریکی چھتری کے تحت ہونے والے معاہدے کی وجہ سے ہے، جس کی قیمت روسی صدر پیوٹن نے لگائی اور ادائیگی بشارالاسد نے شام کی لطاکیہ اور طرطوس میں حمیمیم نیول ایئربیس سے کی۔ ایک جانب حزب اللہ کے ساتھ جنگ بندی معاہدہ کرکے شمالی سرحدوں کو وقتی ہی سہی محفوظ کیا گیا تو دوسری جانب مشرق وسطیٰ کے قلب کی حیثیت رکھنے والے خطے شام میں ایک غیر معمولی کھیل سے حزب اختلاف کو اس قابل کیا کہ وہ ملک پر کنٹرول حاصل کرلیں۔

یہاں یہ نقطہ قابل غور ہے کہ جیسے ہی اپوزیشن جن میں تحریر الشام، جییش النصر، جییش العزة، حركتہ نور الدین الزنکی، حرکتہ احرار الشام، الجبهتہ الوطنیہ للتحرير، الجبهتہ الشاميہ اور القوة المشتركہ سمیت دیگر گروہوں نے شام کا کنٹرول سنبھالا ویسے ہیں شامی سیکیورٹی فورسز نے اطلاع دی کہ غاصب صہیونی ریاست کی نام نہاد فوج کے ٹینک گولان کی پہاڑیوں سے قطانہ میں 10 کلومیٹر شام کے علاقے میں داخل ہوگئے اور سرحدی علاقوں کو اپنی عملداری میں لے لیا، اسرائیلی فوج شامی دارالحکومت سے محض چار کلومیٹر دور رک گئی۔ اس اقدام کو خطے کے بہت سے ممالک نے ’’خطرناک‘‘ پیشرفت اور ’’بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی‘‘ قرار دیا ہے۔ ابھی یہ پیشرفت جاری تھی کہ صہیونی ریاست کے وزیراعظم نے ایک پریس کانفرنس کی اور زور دے کر کہا کہ گولان کی پہاڑیاں ’’ہمیشہ کےلیے‘‘ اسرائیلی حکومت کا حصہ رہیں گی، تل ابیب کے توسیع پسندانہ عزائم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس کے آبادکار نوآبادیاتی منصوبے کو آگے بڑھانا ہے۔ تجزیہ کار نیتن یاہو کے اس بیان کو ’’عظیم تر اسرائیل‘‘ کے ایجنڈے کے طور پر دیکھتے ہیں، جو کہ اس کی نام نہاد تاریخی بائبل کی سرزمین کا حصہ سمجھے جانے والے علاقوں کو گھیرنے کےلیے ناجائز وجود کو پھیلانا چاہتا ہے۔

یہاں میں ایک ضروری نقطے کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں، جیسے ہی سات اکتوبر 2023 کو اسرائیلی فوج نے غزہ پر بدترین نسل کشی کی کارروائیاں شروع کیں اس کے ساتھ ہی بہت سی معروف اسرائیلی شخصیات جن میں اسرائیلی وزیرخزانہ اسموٹریچ بیزلیل اور قومی سلامتی کے وزیر ایتمار بن گویر بھی شامل ہیں، نے کھلے عام غزہ کی بائیس لاکھ کی آبادی کو بے دخل کرنے کی خواہش کا اٖظہار کیا اور یہاں پر فارم ہاؤس سمیت غیر قانونی صہیونی بستیاں اور سیاحتی مراکز کے قیام کی بات کی۔

اسرائیلی وزیر بیزلیل سموٹریچ نے نہ صرف دریائے اردن تک کے تمام فلسطینی علاقوں کو فتح کرنے کی اپنی خواہش کا اظہار کیا بلکہ اسرائیل کی نام نہاد ’’سرحدوں‘‘ میں دمشق لبنان، مصر اور سعودی عرب کے بعض علاقوں کا کھلے عام کا ذکر کیا۔ سموٹریچ کی یہ تقریر اسرائیل کے معروف اخبار یدیعوت احرنوت اور معروف انگریزی اخبار یروشلم پوسٹ کی ویب سائٹ پر آج بھی دیکھی جاسکتی ہے۔

ستمبر کے آخر میں لبنان میں شروع ہونے والی صہیونی ریاست کی حالیہ فوجی کارروائیاں جو 27 نومبر کو جنگ بندی کے ساتھ اختتام پذیر ہوئیں، کو بھی صہیونی حکومت کی وسیع تر توسیع پسندانہ حکمت عملی کا حصہ سمجھا جاتا تھا لیکن یہاں اسرائیل کو حزب اللہ کی غیر معمولی مزاحمت کے باعث کامیابی نہیں ملی لیکن اس کے ساتھ ہی ایک اشتعال انگیز اقدام دنیا نے دیکھا جب صہیونی ریاست کی غیر قانونی بستیوں کے قیام کےلیے کام کرنے والی تحریک ’’موومنٹ فار یوشو‘‘ کی جانب سے 25 ستمبر ایک نقشہ جاری کیا گیا جس میں جنوبی لبنان کے سرحدی علاقوں کے ’’نئے عبرانی نام‘‘ درج تھے۔ نقشے میں جنوبی لبنان میں لبنانی قصبوں اور دیہاتوں کا نام تبدیل کردیا گیا، جو اس علاقے پر اسرائیلی تسلط قائم کرنے کی ایک کھلی کوشش ہے، جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ پورا کام ایک مربوط نظام کے تحت کام کررہا ہے۔

یہ تمام اقدامات بیانات اور کارروائیوں کو محض اتفاق وہ لوگ تو قرار دے سکتے ہیں جو اسرائیل کے فلسطین پر قبضے کو جائز کہتے ہیں اور اسرائیل سے تعلقات کو کامیابی کی ضمانت سمجھتے ہیں اور گریٹر اسرائیل کو ایک مفروضہ قرار دیتے ہیں۔ ان کےلیے یہاں میں سوشل میڈیا پر خود ان اسرائیلی فوجیوں کی جانب سے شیئر کردہ تصاویر کا ذکر کرنا چاہوں گا جو اس وقت غزہ میں موجود ہیں اور انھوں نے اپنی فوجی وردی کے ساتھ گریٹر اسرائیل کے نقشے والے بیچ لگا رکھے ہیں۔ یہ تصاویر صہیونی حکومت کے توسیع پسندانہ عزائم کا مظاہرہ کرتی ہیں، جس میں صہیونی ریاست کو شام، عراق اور سعودی عرب سمیت کئی دیگر عرب علاقوں تک پھیلے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔

اسرائیل کی جانب سے لبنان میں اپنے قبضے کو وسعت دینے کی ناکام کوششوں کے بعد، جنگ زدہ ملک شام کی غیر مستحکم صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اب اپنی تمام تر توجہ شام پر مرکوز کردی ہے۔ اس نئی حکمت عملی کا ثبوت یہ ہے کہ 1973 کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد پہلی بار صہیونی زمینی افواج کی شامی سرزمین میں داخل ہوئی ہے اور بہت اندر تک اپنے فوجی بیس قائم کرلیے ہیں۔

گولان کی پہاڑیوں کو امریکا کے علاوہ اقوام متحدہ سمیت دنیا کے تمام ممالک شام کا حصہ قرار دیتے ہیں اور اس علاقے میں اقوام متحدہ کی فوج بھی تعینات ہے لیکن اس کے باوجود اسرائیل اس کو صہیونی ریاست کا حصہ قرار دیتا ہے۔ اسد حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد صہیونی وزیراعظم نیتن یاہو نے شام کے ساتھ 1974 کے جنگ بندی کے معاہدے کو یکطرفہ طور پر تحلیل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اسرائیلی فورسز کو مقبوضہ گولان کی پہاڑیوں میں بفرزون پر قبضہ کرنے کا حکم دیا۔

نیتن یاہو نے دعویٰ کیا کہ شامی فوجیوں کی جانب سے پوسٹوں کو ترک کرنے کی وجہ سے دراندازی ضروری تھی اور یوں اسرائیل نے گولان کی پہاڑیوں، جس کا مکمل رقبہ تقریباً 1,800 مربع کلومیٹر ہے، اس میں سے 1,200 مربع کلومیٹر پر قبضہ کرلیا ہے۔ اور اب اسرائیل شام کے دارالحکومت تک اپنی فوجوں کو تعینات کرچکا ہے۔ یہ صورتحال دیکھ کر ہم باآسانی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اسرائیل کی مشرقی وسطیٰ کے حوالے سے ممکنہ حکمت عملی کیا ہوگی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

Load Next Story