دو دھاری تلوار سوشل میڈیا (تیسرا اورآخری حصہ)

ریاست پاکستان کے ساتھ نہیں پوری مسلم دنیا کے ساتھ دشمنی کے مترادف ہے

کلمہ طیبہ کے نام پر بنے پاکستان کے طاقتور طبقوں نے روز اول سے "وسائل" کا رخ اپنی نسلوں کی طرف اور "مسائل" کا رخ ہم عوام کی طرف کیا ہوا ہے مگر اب سوشل میڈیا ئی لشکریوں نے بھی اینٹی اسٹیٹ وی لاگز کے ذریعے ڈالروں کے پرنالے اپنے گھروں اور مصائب اور مشکلات کے پرنالے عوام کے سروں کے اوپر کھول دیے ہیں۔

ایک طرف لطیف کھوسہ نے 26 مئی کے واقعات کو غزہ اور کشمیر کی بربریت سے بڑھ کر بتایا تو دوسری طرف پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا بریگیڈ نے بجائے غزہ کے معصوم بچوں کے قاتل اسرائیل اور امریکا کی پروڈکٹس کے بائیکاٹ کرنے کے انھوں نے اپنے ملک کی پروڈکٹس کے بائیکاٹ کے لیے پروپیگنڈہ مہم چلانا شروع کر دی ہے۔

جس کا مقصد ملک اور اسٹیبلشمنٹ کی بدنامی کے ساتھ ملکی معیشت کا بیڑا غرق کرنا اور اپنے بانی چیئرمین کی اسرائیل لابی کی پروڈکٹس کے بائیکاٹ سے توجہ ہٹانا ہے یہ تو صرف ریاست پاکستان کے ساتھ نہیں پوری مسلم دنیا کے ساتھ دشمنی کے مترادف ہے اور اس کے لیے اب کسی اور دلیل کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ پاکستانی مخصوص مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان کرنے سے پہلے یہ تو سوچتے کہ ان کا بانی چیئرمین اس کی پارٹی کے لشکری سردار اور سوشل میڈیا ٹائیگرز سب غیر ملکی لابیوں کی پریمیم پروڈکٹس ہیں۔

پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین، ان کے حامی سرداران اور سوشل میڈیائی لشکر کے تمام چھوٹے بڑے لشکری اسٹیبلشمنٹ کی جھولی میں پروان چڑھے اور آج بھی ان کے جھولے میں جھولنے کے خواہشمند ہیں۔ دوسری طرف یہ سب اشرافیہ کے رکن ہیں‘یہ طبقہ ملک کی پریمیم ہاؤسنگ سوسائٹیز میں گھروں کے مالک، بڑے بڑے رفاحی و فلاحی اور کاروباری اداروں کے شئیر ہولڈرز ہیں یا ٹرسٹی اور بورڈز آف گورنرز کے رکن ہیںاگر بائیکاٹ کرنا ہے تو چھوڑ دیںیہ سب کچھ اور اگر یہ نہیں کرسکتے تو پھر عوام کو کھانے کی بنیادی ضروریات اور کھادوں سے بائیکاٹ کا کہہ کرانھیں بیوقوف نہ بنائیں، کسی نے بائیکاٹ نہیں کرنا۔ اگر اپنے آپ کو دوبارہ ایک پیج پر لانے اور اسٹیبلشمنٹ جھولے میں جھولنے کے لیے بائیکاٹ اور سوشل نافرمانی کے ڈرامے کو اچھال کر سوشل میڈیا لشکر کے لشکریوں نے اس ملک میں انتشار پھیلا کر صرف ڈالر کمانے ہیں تو پھر یہی سمجھا جائے گا کہ سوشل میڈیا لشکر کے لشکری اپنے بانی چیئرمین اور اپنے یوٹیوب چینلز کی مقبولیت کا خراج اس قوم سے لاشوں اور معذوروں کی شکل میں لینا چاہتے ہیں تو پھر پوری پاکستانی قوم اور خصوصاً پختونوں کو ہوش کے ناخن لے کر مٹنے سے پہلے اپنے "سیاسی مرشد" سے اور سوشل لشکر کے لشکریوں سے لا تعلقی کا اعلان کرنا ہوگا۔

ورنہ آگے تباہی ہی تباہی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ، ریاست اور حکومت سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین سے بھی درد دل کے ساتھ اپیل کروں گا کہ اللہ رب العزت کے واسطے پختونوں کو اپنے بچے سمجھ کر ان پر رحم کریں، ان کو اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے بچائیں ورنہ اگر آپ لوگوں نے ان کوبے رحم مفاد پرستوں اور ان کے سوشل میڈیا لشکر کے لشکریوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تو اس ملک میں نفرت کی وہ آگ بھڑک اٹھے گی جسے کوئی بجھا نہیں سکے گا اور اس ملک کو متحد رکھنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوجائے گا۔

ایک درخواست معصوم نوجوانوں سے کروں گا کہ ذرا چیک تو کریں کہ 24 مئی کے احتجاج کی فائنل کال سے لے کر آج تک سوشل میڈیا لشکر کے پہلے دس بڑے لشکریوں کے سبسکرائبرز کتنے بڑھے، دن میں کتنے وی لاگز کیے، کتنے میلینز ویوز ملے اور اس دوران نا معلوم گمشدہ شہداء، قتل عام، لاشوں کو جلانے اور ہزاروں نامعلوم زخمیوں کی جعلی کہانیوں پر وہ کتنے ڈالر کما چکے ہیں۔

حساب آپ کو گوگل ماموں فوراً کرکے دے دیگا، اور پھر اپنی محرومیوں اور سڑکوں پر خوار ہونے کا موازنہ ان کروڑ پتی سوشل میڈیاکے لشکریوں سے کریں، آخر کیوں وہ آپ لوگوں کے جذبات سے کھیل کر، جعلی کہانیاں گھڑ کر خود تو ہر مہینے لاکھوں اور کروڑوں کمائیں اور آپ لوگوں کی اقتصادی حالت دن بدن خراب ہوتی جائے وہ خود تو امریکا اور لندن میں مزے کریں اور ہمارے نوجوان سڑکوں پر اور بزرگ گھر میں مفلسی کی حالت میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مریں۔ خدارا ہوش کے ناخن لیں اور ان پختون فروشوں کے وی لاگز دیکھنا بند اور ان کے چینلز کو’’ ان سبسکرائب‘‘ کرکے اپنے اپنے مستقبل کو سنوارنے کا سوچیں۔

سوشل میڈیا کے لشکریوں سے بھی دست بستہ درخواست کرونگا کہ خدا کے لیے اپنے ایک پاؤ گوشت (چند ہزار ڈالروں) کے لیے پوری بھینس (ریاست وقوم) کو ذبح کرنے کا سلسلہ روک دیں ورنہ ان کے لیے بھی آگے تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں۔یہ سب اسٹیبلشمنٹ پر حملہ آور ہیں اس موقع پر اپنے مرشد و مربی باباجان ڈاگئی باباجیؒ کا قول یاد آتا ہے وہ ہمیں کہا کرتے تھے کہ "کم ظرف دوست پر احسان سے بہتر تھا کہ کسی ظرف والے دشمن کے ساتھ احسان کرو" اگر اسٹیبلشمنٹ تباہی سرکار پر احسانات کی بارش نہ کرتی تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا، حکومت وقت اور اسٹیبلشمنٹ دونوں کی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اگر اربوں روپے کی سرمایہ کاری کرنے والوں کو صبر آزما مراحل سے گزر کر کلیئرنس اور این او سی کے بغیر نجی چینل کا لائسنس نہیں ملتا جو ہزاروں لوگوں کو روزگار دینے، ملکی معیشت کا پہیہ چلانے میں حصہ ڈالنے اور ملکی قوانین کی پابندی کے باوجود انکو نکیل ڈال کر چلایا جاتا ہے تو سوشل میڈیائی لشکریوںکو شتر بے مہار کی طرح کھلا کیوں چھوڑا ہے؟

ان کے لیے بھی قانون سازی کرکے سیکیورٹی کلیرنس، این او سی کے بعد لائسنس کے اجرا کا باقاعدہ نظام وضع کرنا چاہیے۔ ان سے بھاری سیکیورٹی ڈیپازٹ رکھنے چاہیے تاکہ یہ مادر پدر آزادی ختم ہوجائے۔ اگر ریاست نے مادر پدر آزاد اور بے لگام لشکری سوشل میڈیا کے لشکریوں کو شتر بے مہار کی طرح کھلا چھوڑا تو ملک و ملت کی تباہی اور بربادی کے لیے یہی کافی ہیں۔

Load Next Story