پیپلز پارٹی حکومت کو ڈی ریل نہیں کرے گی، پارٹی ذرائع
پیپلز پارٹی کے اندورنی ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ پارٹی ملک میں کسی بھی وقت اچانک تبدیلی کی چلنے والی ہواؤں سے فائدہ اٹھانے کے لیے اپنی خود مختار شناخت کو برقرار رکھ کر وہ ن لیگ پر اپنے وعدوں کی پاسداری کے لیے دباؤ ڈالے رکھنا چاہتی ہے تاہم اسکا مطلب یہ نہیں کہ وہ موجودہ سیٹ اپ کی تشکیل کیلئے طے پانیوالی ڈیل کو توڑ رہی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں پارٹیوں کی کمیٹیوں نے حال ہی میں ایک بار پھر ملاقات کی ہے تاکہ وعدوں کی تکمیل کے حوالے سے پیپلزپارٹی کے خدشات کو دور کیا جا سکے، مذاکرات بغیر کسی پیشرفت ختم ہو گئے۔
اگلی میٹنگ پیپلز پارٹی کے سی ای سی اجلاس کے بعد متوقع ہے،دونوں اطراف سے کمیٹیوں میں مذاکرات پہلی بار نہیں ہو رہے۔
مذاکرات سے پہلے پنجاب میں ملاقاتوں کا ایک دور ہوا جو پی پی پی کے لیے کسی حد تک شرمندگی پر ختم ہوا کیونکہ پنجاب میں ن لیگ کی حکومت نے مطالبات کی تکمیل کے لیے پیپلز پارٹی کے دباؤ کو کوئی اہمیت نہ دی اور غیر سنجیدہ رویہ اپنایا۔
مذاکرات کمیٹیوں کے بالا دونوں جماعتوں کی قیادت نے متعدد بار ملاقاتیں بھی کی ہیں لیکن اتحاد کیلئے وعدے نبھانے کی کوششوں کے حوالے سے کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی۔
ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو کرتے ہوئے پنجاب سے تعلق رکھنے والے پیپلز پارٹی کے رہنما قمرالزمان کائرہ کا کہناتھا کہ پارٹی کا پنجاب میں اپنے لیے کچھ جگہ بنانیکی خواہش کا سارا فسانہ صرف اس کی آزاد شناخت کو یقینی بنانے کا ایک ذریعہ ہے۔
پارٹی میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو حکومت میں کچھ حصہ لینے کی وکالت کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کسی کو کوئی سیاسی جگہ نہیں دے گی، دوسری بات یہ کہ اگر پیپلز پارٹی کے مطالبات مان بھی لیں تو یہ ان کے لیے سیاسی طور پر فائدہ مند نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ پی پی پی کو اس پوزیشن میں رہنا چاہیے جہاں اسے پی ٹی آئی کے زوال کا فائدہ اٹھانا چاہیے اور اس ضمن میں کسی بھی موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے آپشن کھلے رکھنے چاہئیں۔
انہوں نے کہا کہ ووٹرز کے لیے پہلا انتخاب مسلم لیگ ن جبکہ دوسرا آپشن پیپلز پارٹی ہے۔ مسلم لیگ ن کی بی ٹیم باقی رہ جانے سے وہ اس نقصان کا فائدہ نہیں اٹھانے دیں گے۔
یہی وجہ ہے کہ ضرورت پڑنے پر تحفظات کا اظہار کرنا ضروری ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کچھ حقیقی شکایتیں بھی زیر بحث ہیں جن میں سے ایک نہر کی تعمیر کا مسئلہ تھا جس پر ن لیگ کا رویہ تلخ تھا اور انہوں نے اس کی مخالفت کی۔
پیپلزپارٹی اپنی حکومت میں پی ایم ایل این کی حدود سے پوری طرح آگاہ ہے، خاص طور پر جب اسٹیبلشمنٹ سے متعلق یا اس سے متعلق معاملات کی بات کی جائے۔
پیپلز پارٹی کی جانب سے انٹرنیٹ کی پابندیوں پر حکومت پر طنز کے بارے میں سوال پر انہوں نے کہا کہ انٹرنیٹ بلیک آؤٹ ایک کلاسک معاملہ ہے جس سے ان کی پالیسی کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ن لیگ کی حکومت سال کے آغاز سے ہی وقفے وقفے سے انٹرنیٹ بلاک کرتی رہی ہے لیکن اس کے باوجود پیپلز پارٹی اس پر خاموش ہے۔ تاہم جب پیپلز پارٹی کو اسمبلی میں موقع ملا تو اس نے اپنے اتحادیوں کو بھرپور جواب دیا‘ کمزور ہوٓنے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اگر اسٹیبلشمنٹ ہماری حمایت کرے تو پیپلز پارٹی ہفتے کے کسی بھی دن اپنا راستہ اختیار کر سکتی ہے لیکن اس مرحلے پر مسلم لیگ ن ان کے حق میں نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن کی حکومت گرانے کی کوئی خواہش نہیں رکھتی لیکن اگر ایسی صورتحال پیدا ہوئی جس سے ملک کی باگ ڈور کسی دوسری جماعت کو سنبھالنی پڑے تو پیچھے نہیں ہٹے گی۔
انہوں نے کہا کہ امید ہے 2028 میں ہماری حکومت بنے گی لیکن فی الحال اپنی قسمت آزمانے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ اگر خالصتاً عوامی مسائل پر بات کرنے سے پیپلز پارٹی کوآزادانہ تشخص برقرار رکھنے میں مدد ملتی ہے تو اس میں کوئی ہرج یا نقصان کی بات نہیں ہے،پیپلز پارٹی عوام کے مسائل حل کرنے کیلئے حکومت پر زور دے رہی ہے۔
یہ ایک تیر سے دو شکارکے مترادف تھا، پیپلز پارٹی حقیقی طور پر چاہتی ہے کہ مسلم لیگ ن اپنے 25 نکاتی دستاویزی معاہدے پر عمل کرے۔ ہم انہیں معاہدوں کی پاسداری کی یقین دہانی کراتے رہیں گے لیکن ایسا لگتا ہے کہ ن لیگ اپنے کئے وعدوں سے انحراف کررہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پانی کی تقسیم ایک اہم مسئلہ ہے۔ پانی کی تقسیم کا ایک فارمولا ہے اور کوئی بھی حکومت اسے یکطرفہ طور پر تبدیل نہیں کر سکتی۔
اگر پنجاب نئی نہریں بنانا چاہتا ہے تو معاملہ مشترکہ مفادات کونسل میں لایا جائے،پی ٹی آئی سے مذاکرات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی بھی مذاکرات اور ٹیبل ٹاک کے ذریعے مسائل کے حل کی حامی رہی ہے،بدگمانیوں کے باوجود حکومت کو موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور ملک میں سیاسی استحکام لانے کے لیے پی ٹی آئی کے ساتھ بات چیت کرنی چاہیے۔