’’یہ کبھی بھی نہیں ہوا کہ رابطے بالکل ختم ہو جائیں‘‘

ایاز صادق وہ واحد آدمی تھے جو عمران خان کے دور حکومت میں گرفتار نہیں ہوئے تھے

لاہور:

گروپ ایڈیٹر ایکسپریس ایاز خان کا کہنا ہے کہ میں پرامید ہوں یہ مذاکرات ایسے ہی شروع نہیں ہوئے، سزا ہوتی ہے نہیں ہوتی اس سے اس کا کوئی تعلق نہیں کوئی فرق نہیں پڑے گا، چشمہ یہیں سے نکلے گا۔

ایکسپریس نیوز کے پروگرام ایکسپرٹس میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ آپ کا کیا خیال ہے کہ مذاکرات ایسے ہی چار بندوں نے اْدھر بیٹھ کر سوچا اور چار نے اِدھر بیٹھ کر سوچا چلیں جی آئیں مذاکرات کر لیں۔،یہ چیز اتنی سادہ نہیں ہے، یہ کبھی بھی نہیں ہوا کہ رابطے بالکل ختم ہو جائیں وہ ہمشہ رہتے ہیں۔

تجزیہ کار فیصل حسین نے کہا کہ مقامی سطح پر بھی اور عالمی سطح پر بھی صورت حال بہت تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے، ہم حالات سے اور ان کے اثرات سے اپنے آپ کو الگ نہیں کر سکتے۔

عمران خان جس مزاج کے آدمی ہیں کیا انھوں نے اپنے کسی وکیل کے کہنے پر یا اپنی بہن کے کہنے پر نافرمانی کی تحریک کو آگے بڑھایا ہوگا یہ بات ممکن ہی نہیں ہے۔ کیا حکومت یا اس کے اسپیکر کے پاس اس بات کا اختیار ہوگا کہ وہ تحریک انصاف کے لیے مذاکرات کیلیے اپنے دروازے کھول دے، نہیں ہے اختیار، اب جو زمینی حقائق ہیں اس سے آپ انکار نہیں کر سکتے۔

تجزیہ کار عامر الیاس رانا نے کہا کہ ایازصادق شاید ایچی سن کے عمران خان کے کلاس فیلو بھی ہیں دوست بھی رہے اور دونوں نے الیکشن بھی خوب لڑے اور عمران خان وہاں سے الیکشن ہارتے بھی رہے۔

ایاز صادق وہ واحد آدمی تھے جو عمران خان کے دور حکومت میں گرفتار نہیں ہوئے تھے، بڑی سیدھی بات کرتے ہیں، اب انھوں نے جو پیشکش کی ہے تو ان ہی کے پاس پی ٹی آئی والے جا رہے ہیں۔

تجزیہ کار نوید حسین نے کہا کہ اس وقت ملک میں جو صورتحال ہے اس کا واحد حل مذاکرات ہیں لیکن جس طرح مذاکرات ہو رہے ہیں میں ان کے نتائج کے بارے میں زیادہ پرامید نہیں ہوں، پرا مید اس لیے نہیں ہوں کہ ہم نے پہلے بھی بات کی تھی حکومت کے پاس پی ٹی آئی کو پولیٹیکلی انگیج کرنے کی کوئی موٹیویشن نہیں ہے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ آپ جب مذاکرات کرنا چاہتے ہیں تو مولانا فضل الرحمن کے گھر پہنچ جاتے ہیں، نہ صرف آپ بلکہ حکومت میں جتنے بھی بڑے ہیں مولانا صاحب کے گھر پہنچ جاتے ہیں۔

تجزیہ کار محمد الیاس نے کہا کہ مذاکرات ہونا اچھی بات ہے، بالکل ہونے چاہییں جس طرح کے ملک کے حالات ہیں سیاسی حالات، لا اینڈ آرڈر کی سچویشن ، اکانومی بھی خراب ہوئی ہے۔

معیشت ابھی بہتری کی طرف بڑھی ہے تو اس کو مستقل رکھنے کے لیے آپس میں سیاسی استحکام ہونا بڑا ضروری تھا تاکہ بیرونی سرمایہ کاری آئے، اس طرح کی باتیں اڑنے لگ گئی تھیں کہ جی کال دینے لگے ہیں پھر سے کہ بل نہ ادا کریں ، ترسیلات زر نہ بھیجیں تو اس طرح کی چیزیں نہیں ہونی چاہیں وہ بیٹھ کر ہٹا دینی چاہییں اور بیٹھ کر مذاکرات کرنے چاہییں۔

Load Next Story