فتنہ، فساد، قتل و غارت کی مذمت
اپنے گھناؤنے اور ناپاک مقاصد کے حصول کے لیے معصوم شہریوں اور بے گناہ انسانوں کا بے دریغ قتل کرنے والے کیسے دین امن و سلامتی کے علم بردار بنتے ہیں۔۔۔ ؟ وہ اپنی دہشت گرد کارروائیوں کے ذریعے ہزاروں مسلمانوں کی قتل و غارت گری میں مصروف ہیں، جب کہ اﷲ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے، مفہوم : ’’اور جو شخص قتل کرے کسی مومن کو جان بوجھ کر تو اس کی سزا جہنم ہے، ہمیشہ رہے گا اس میں اور اﷲ تعالیٰ غضب ناک ہوگا اور اپنی رحمت سے دُور کردے گا اور تیار کر رکھا ہے اس نے، اس کے لیے عذاب عظیم۔‘‘ (سورہ النساء)
حضور کریم ﷺ کا ارشاد گرامی کا مفہوم: ’’اﷲ تعالیٰ کے نزدیک پوری دنیا کے فنا ہونے سے بھی زیادہ بڑا گناہ، بے گناہ مومن کا قتل ہے۔‘‘ (الحدیث) مذہب و اخلاق کی رُو سے انسانی جان کو ہمیشہ حرمت حاصل رہی ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن حکیم میں پوری صراحت کے ساتھ حکم دیا ہے کہ کوئی شخص کسی کو قتل نہ کرے، یہ شرک کے بعد سب سے بڑا جرم ہے۔ قرآن کریم کا ارشاد ہے کہ بنی اسرائیل کو یہی حکم اس تاکید کے ساتھ دیا گیا تھا کہ ایک انسان کا قتل درحقیقت پوری انسانیت کا قتل ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے خطبۂ حجۃُالوداع کے موقع پر انسانی جان و مال کے تلف کرنے اور قتل و غارت گری کی خرابی و ممانعت سے آگاہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’بے شک! تمہارے خون اور تمہارا مال اور تمہاری عزتیں تم پر حرام ہیں۔ سنو! میرے بعد ایک دوسرے کو قتل کرکے کافر نہ ہوجانا۔‘‘ (بخاری)
اس حدیث مبارکہ میں حضور نبی کریم ﷺ نے صراحتاً یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ جو لوگ آپس میں خون خرابہ کریں گے، فتنہ، فساد اور دہشت گردی کی وجہ سے ایک دوسرے پر اسلحہ اُٹھائیں گے اور مسلمانوں کا خون بہائیں گے وہ مسلمان نہیں بل کہ کفر کے مرتکب ہیں۔ لہٰذا انتہاء پسندوں اور دہشت گردوں کے جبر و تشدد کو حضور اکرم ﷺ نے ’’لا ترجعوا بعدی کفاراً، یضرب بعضکم رقاب بعض‘‘ یعنی میرے بعد ایک دوسرے کی گردن مار کر کافر نہ بن جانا۔ فرما کر انہیں کافر قراردیا۔
حضرت ابُو سعید خدریؓ اور حضرت ابُو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے مومن کے قاتل کی سزا بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’اگر تمام آسمان و زمین والے کسی ایک مومن کے قتل میں شریک ہوجائیں تب بھی یقیناً اﷲ تعالیٰ ان سب کو جہنم میں جھونک دے گا۔‘‘ (ترمذی)
قتل و غارت، خون خرابہ، فتنہ، فساد اور ناحق خون بہانا اتنا بڑا جرم ہے کہ قیامت کے دن اﷲتعالیٰ ایسے مجرموں کو سب سے پہلے بے نقاب کرکے کیفر کردار تک پہنچائے گا۔ حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے خون ریزی کرنے کی شدت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’قیامت کے دن سب سے پہلے خون ریزی کا فیصلہ سنایا جائے گا۔‘‘ (بخاری)
حضرت ابُو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فتنہ و فساد کے ظہور، خون خرابے اور کثرت سے قتل و غارت گری سے لوگوں کو خبردار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا، مفہوم؛ ’’زمانہ قریب ہوتا جائے گا، عمل گھٹتا جائے گا، بخل پیدا ہوجائے گا، فتنے ظاہر ہوں گے اور ہرج کی کثرت ہوجائے گی۔‘‘
لوگوں نے عرض کیا: ’’یا رسول اﷲ ﷺ! ہرج کیا ہے۔۔۔؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’قتل۔‘‘ (کثرت سے قتل عام) جب ایک مرتبہ پُرامن اور بے گناہ شہریوں کو ظلم و ستم ، جبر و تشدد اور وحشت و بربریت کا نشانہ بنایا جائے اور معاشرے کی دیگر مذہبی و سیاسی شخصیات کی محض فکری و نظریاتی اختلاف کی بناء پر ٹارگیٹ کلنگ کی جائے تو اس دہشت گردی کا منطقی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ سماج، افراتفری، نفسانفسی، بدامنی اور لڑائی جھگڑے کی آماج گاہ بن جاتا ہے ۔
انہی گھمبیر اور خطرناک حالات کی طرف امام ابُو داؤد سے مروی درج ذیل حدیث مبارکہ اشارہ کرتی ہے۔ حضرت عبداﷲ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اﷲ ﷺ کی بارگاہ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ ﷺ نے فتنوں کا ذکر فرمایا۔ پس کثرت سے ان کا ذکر کرتے ہوئے ’’فتنہ احلاس‘‘ کا ذکر فرمایا۔ کسی نے پوچھا کہ یا رسول اﷲ ﷺ! فتنہ احلاس کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: وہ افراتفری، فساد انگیزی اور قتل و غارت گری ہے۔ (ابوداؤد)
مسلمانوں کو قتل کرنے والے کی نفلی اور فرض عبا دت بھی قبول نہیں ہوگی۔ حضرت عبداﷲ بن صامتؓ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جس شخص نے کسی مومن کو ظلم سے (بے گناہ) قتل کیا تو اﷲ تعالیٰ اس کی کوئی نفلی اور فرض عبادت قبول نہیں فرمائے گا۔‘‘ (ابوداؤد)
دہشت گردوں اور قاتلوں کو معاشرے میں سے افرادی، مالی اور اخلاقی قوت کے حصول سے محروم کرنے اور انہیں الگ تھلگ کرنے کے لیے حضور نبی کریم ﷺ نے ان کی ہر قسم کی مدد و اعانت سے کلیتاً منع فرمایا ہے۔ حضرت ابُو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جو شخص کسی مومن کے قتل میں معاونت کرے گا وہ رحمت الٰہی سے محروم ہوجائے گا۔‘‘ فرمان رسول کریم ﷺ کا مفہوم ہے : ’’جس شخص نے چند کلمات کے ذریعے بھی کسی مومن کے قتل میں کسی کی مدد کی تو وہ اﷲ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اس کی آنکھوں کے درمیان پیشانی پر لکھا ہوگا۔
’’یہ اﷲ کی رحمت سے مایوس شخص ہے۔‘‘ (ابن ماجہ)
اسلام اپنے ماننے والوں کونہ صرف امن و آشتی، تحمل و برداشت اور ایک دوسرے سے محبت کی تعلیم دیتا ہے، بل کہ ایک دوسرے کے عقائد و نظریات اور مکتب و مشرب کا احترام بھی سکھاتا ہے۔ اعتقادی، فکری یا سیاسی اختلافات کی بنیاد پر مخالفین کی جان و مال یا مقدس مقامات پر حملے کرنا صرف غیر اسلامی بل کہ غیر انسانی فعل بھی ہے۔ خودکش حملوں اور بم دھماکو ں کے ذریعہ اﷲ کے گھروں کا تقدس پامال کرنے والے اور معصوم و بے گناہ لوگوں کی قیمتی جانیں تلف کرنے والے ہرگز نہ تو مومن ہوسکتے ہیں اور نہ ہی ہدایت یافتہ۔
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو۔۔۔۔ !
اﷲ تعالیٰ نے اس کائنات میں باہمی تعارف و پہچان کے لیے انسانوں کو جس طرح مختلف قبیلوں، قوموں اور خاندانوں میں پیدا کیا۔ اسی طرح بعض انتظامی و تکوینی حکمتوں اور آزمائشوں کے تحت ان میں مال و دولت اور پیشہ و منصب کے اعتبار سے فرق رکھا، کسی کو مال دار بنایا تو کسی کو نادار، کسی کو حاکم تو کسی کو محکوم، لیکن ربانی تعلیمات اور الوہی ہدایت سے بے خبر یا فراموش انسانوں نے اس تفاوت کو عزت و بڑائی کا معیار بنالیا، مادی وسائل کی فراوانی اور جاہ منصب کے نشے میں مست لوگوں نے غریب و مفلس اور محکوم لوگوں کو نہ صرف ذلیل و حقیر جانا بل کہ ان بے چاروں کو ہر طرح کے مظالم اور تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔ حضور اکرم ﷺ کی تشریف آوری سے قبل اس عالم میں جہاں اور بہت سی خرابیاں تھی وہاں ایک بہت بڑا فساد یہ تھا کہ دنیا میں ہر طرف غریب مفلس، مسکین اور بے کس لوگ نہ صرف معاشی و معاشرتی عزت سے محروم تھے بل کہ وہ ظلم کی چکی میں پس رہے تھے اور ان کا کوئی پرسان حال نہ تھا۔
آپ ﷺ کی سیرت طیبہ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ آپ ﷺ نے آسمانوں اور زمینوں کے خزانوں کی چابیاں رکھنے کے باوجود فقراء کی دل جوئی کے لیے ساری زندگی فقر و فاقہ میں گزاری، خندقیں کھودیں، بھوک کی شدت سے پیٹ پر پتھر باندھے، دو ماہ تک کاشانہ مقدس میں آگ نہ جلی، قرض لیا اور ہر وہ کام کیا جس کا عام طور پر غرباء کو سامنا ہوتا ہے۔
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’ساری مخلوق اﷲ کا کنبہ ہے، اس لیے اﷲ تعالیٰ کے نزدیک تمام مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب و پسندیدہ وہ ہے جو اس کے کنبہ کے ساتھ نیکی کرے۔‘‘ (العلل المتناہیۃ)
حضرت ابُو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’بیواؤں اور محتاجوں کی خدمت و اعانت کرنے والا، اﷲ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کے برابر ہے یا اس نیکو کا ر کے برابر ہے جو عمر بھر دن کے روزے اور ساری رات عبادت کرے۔‘‘ (بخاری)
حضور اکرم ﷺ نے حضرت عائشہؓ کو نصیحت فرمائی، مفہوم: ’’اے عائشہ! کسی بھی محتاج و ضرورت مند کو مایوس نہ لوٹانا خواہ کھجور کی گٹھلی ہی کیوں نہ دے سکو، مزید یہ کہ غریب اور محتاج لوگوں سے محبت کیا کرو اور ان سے قربت حاصل کیا کرو۔ بے شک! (اس کے صلے میں) اﷲتعالیٰ روزِ قیامت تمہیں اپنے قرب سے نوازیں گے۔‘‘ (ترمذی)
مذکورہ بالا روایت ہمیں متوجہ کررہی ہیں کہ رب کریم کی رضا کے طالب اس کے بندوں سے محبت کرتے ہیں۔ اے مومنو! اس کی مخلوق کی مدد کرو، اس کے دکھی اور پریشان حال لوگوں کے دکھوں کا مداوا کرو۔ یہی مقصود عبادت ہے اور یہی منشاء دین ہے۔
حضرت عبدالقادر جیلانیؒ سے منسوب ہے کہ آپ نے عالم کشف میں باری تعالیٰ سے پوچھا کہ بارِ الہہ! تُو کہاں رہتا ہے ؟ میں تجھے ملنا چاہتا ہوں۔
بارگاہ الوہیت سے (الہام کسی صورت میں) جواب آیا: ’’اگر مجھے پانا چاہتا ہے تو شکستہ خاطر لوگوں کی دعوت کیا کر۔ ان کی دعوت سے تُو مجھے اپنے قریب پائے گا۔‘‘
ایک ماں کو اپنی اولاد سے جتنی محبت ہوتی ہے باری تعالیٰ کو اس سے کئی گنا زیادہ اپنی مخلوق سے محبت و شفقت ہوتی ہے، وہ ذات اسی سے زیادہ پیار کرے گی جو اس کے بندوں کے دکھ سکھ کو اپنا دکھ سکھ سمجھتے ہوئے ان کی دل جوئی اور غم خواری کرے گا۔ اس لیے تاج دار کائنات ﷺ نے انسانوں میں اُس شخص کو افضل و بہتر قرار دیا جو خالق کائنات کے بندوں کا زیادہ خیر خواہ اور نفع بخش ہوتا ہے۔ ارشاد نبوی ﷺ کا مفہوم ہے: ’’بہترین انسان وہ ہے جو دوسرے انسانوں کو زیادہ نفع پہنچانے والا ہو۔‘‘
ایک مرتبہ مسجد نبوی میں سرکار دو عالم ﷺ تشریف لائے، آپ ﷺ نے غریب مہاجر صحابہؓ کوایک طرف حلقہ باندھے دیکھا، آپ ﷺ بھی انہی کے ساتھ آکر بیٹھ گئے۔ حضرت عبداﷲ بن عمرو بن العاصؓ روایت کرتے ہیں کہ میں بھی اپنی جگہ سے اُٹھ کر آپؐ کے قریب کھڑا ہوگیا۔ سرکا ر ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’فقراء مہاجرین کو بشارت ہوکہ وہ دولت مندوں سے چالیس برس پہلے جنت میں داخل ہوں گے، اس بات سے ان فقراء کے چہرے خوشی سے چمک اُٹھے۔‘‘
غریبوں کے والی، فقیروں کے غم گسار آقا ﷺ کی عادت کریمہ یہ تھی کہ سرکا ر دو عالم ﷺ مساکین کی عیادت فرماتے، فقراء کے پاس مجلس کرتے اور کوئی غلام بھی دعوت دیتا تو اسے قبول فرماتے تھے۔ (بہ حوالہ: ترمذی)
تاج دار مدینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’وہ شخص (کامل) مومن نہیں ہوسکتا جو خود تو پیٹ بھر کر کھا لے اور اُس کے پہلو میں اس کا پڑوسی بھوکا پڑا ہو۔‘‘ (بیہقی)
اس حدیث پاک میں پڑوسی کی وضاحت میں حضرت امام حسن رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا قول توجہ طلب ہے کہ امام حسن رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے پوچھا گیا: ’’ارشاد رسول کریم ﷺ میں پڑوسی سے کون مراد ہے؟ امام حسنؓ نے فرمایا: ’’چالیس گھر سامنے اور پیچھے، چالیس گھر دائیں اور بائیں۔‘‘ (ادب المفرد)
توجہ طلب امر یہ ہے کہ معلم انسانیت ﷺ نے ہمسایوں کا اس قدر خیال رکھنے کی تعلیم دی کہ کوئی بھوکا نہ سوئے، لیکن آج ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے سے اتنے بے نیا ز اور لاپروا ہیں کہ ہمسائے کی بھو ک دور کرنا تو دور کی بات ہے ہمیں سال ہا سال تک اتنا بھی پتا نہیں ہوتا کہ ہمارے دائیں بائیں یا فلیٹس کی صورت میں اوپر نیچے کون رہتا ہے ؟ آج کے مشینی دور نے دنیا کو تو ’’گلوبل ولیج ‘‘ بنا دیا ہے لیکن پاس رہنے والوں سے غافل کردیا، ہمیں مشہور صوفی بزرگ حضرت بشر حافیؒ کے اس عمل سے بھی راہ نمائی لینی چاہیے جو شدید سردی میں گرم اور موٹے کپڑے دیوار سے لٹکا کر خود عام کپڑوں میں ٹھٹھرتے تھے، پوچھنے پر جواب دیتے کہ میں شہر یا گاؤں کے سارے محتاجوں اور ضرورت مندوں کو گرم کپڑے مہیا تو نہیں کرسکتا البتہ ان کی تکلیف کو محسوس کرنے کے لیے میں اپنے اوپر بھی ان جیسی کیفیت طاری کر رہا ہوں۔