ڈی ایٹ، معاشی و اقتصادی اشتراک کا وسیلہ

اس تنظیم نے رکن ممالک کے مختلف شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے میں بڑا نمایاں کردار ادا کیا ہے

ڈی ایٹ ممالک کے گیارہویں سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم محمد شہباز شریف کا کہنا تھا کہ نوجوان چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار، معاشی ترقی کے کلیدی محرک ہیں، ڈی ایٹ رکن ممالک کے لیے نوجوانوں کو بااختیار بنانا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے اس موقع پر مختلف ممالک کے سربراہان مملکت سے ملاقات کی۔ ملاقات میں مجموعی طور پر مشرق وسطیٰ اور دوطرفہ تعلقات اور تعاون کو فروغ دینے کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا۔

 ڈی 8 تنظیم ترقی پذیر مسلمان ممالک کے درمیان اتحاد کو فروغ دینے اور یک جہتی کو مضبوط بنانے کا مقصد لیے ہوئے ہے، جس کا بنیادی مقصد بھی ہر رکن ریاست کی کوششوں میں تعاون کرنا تھا۔

ڈی ایٹ تین مختلف براعظموں میں پھیلی ہوئی ہے اور اس کے رکن ممالک میں مختلف اقتصادی وسائل رکھنے والے اور زیادہ آبادی کے مالک ممالک کو جگہ دی گئی ہے۔ اس تنظیم نے رکن ممالک کے مختلف شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے میں بڑا نمایاں کردار ادا کیا ہے اور اس طرح اس تنظیم نے ماضی سے حال تک بڑا اہم اور کامیاب سفر طے کیا ہے۔

پاکستان پانچ سال تک اس تنظیم کا صدر رہا ہے، اِس عرصے میں دو اہم امور سر انجام دیے گئے۔ ایک تو تنظیم کے چارٹر کو حتمی شکل دے کر اسے منظور کیا گیا اور دوسری جانب تنظیم کو اقوام متحدہ میں مبصر کا درجہ حاصل ہوا۔ آج کے دور میں دُنیا کے بڑے بڑے ترقی یافتہ ممالک بھی ایک دوسرے کے تعاون کے محتاج ہوتے ہیں اور ترقی کے میدان میں آگے بڑھنے کے لیے انھیں دوسروں کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔

 اِس لیے دُنیا کے ہر خطے، بلکہ خطوں کے باہر بھی بہت سی تنظیمیں وجود میں آ چکی ہیں اور اِن تنظیموں کی چھتری تلے مُلک ترقی کے میدان میں آگے بڑھ رہے ہیں۔Developing 8 المعروف D-8 ترقی پذیر مسلم ممالک کا ایک اتحاد ہے جو اقتصادی ترقی کے لیے متحد ہوئے ہیں۔ 1997میں اپنے قیام کے وقت یہ ممالک مشترکہ طور پر دنیا کی کل آبادی کا 13.5 فیصد تھے۔

اس کے اراکین میں انڈونیشیا، ایران، بنگلہ دیش، پاکستان، ترکی، مصر، ملائیشیا اور نائجیریا شامل ہیں۔ ڈی 8 کے مطابق اس گروپ کے قیام کا مقصد ترقی پذیر ممالک کو عالمی اقتصادیات میں نمایاں مقام عطا کرنا، تجارتی تعلقات کو متنوع کرنا اور ان میں نئے مواقع تخلیق کرنا، بین الاقوامی سطح پر فیصلہ سازی میں کردار کو بہتر بنانا اور بہتر معیار زندگی فراہم کرنا شامل ہیں۔ رکن ممالک کے درمیان تعاون کے مرکزی شعبے مالیات، بینکاری، دیہی ترقی، سائنس اور ٹیکنالوجی، انسانی ترقی، زراعت، توانائی، ماحولیات اور صحت ہیں۔

 ڈی۔ایٹ سربراہی اجلاس کے موقع پر وزیراعظم اور عوامی جمہوریہ بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر پروفیسر ڈاکٹر محمد یونس کے درمیان ملاقات ہوئی، جو پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان موجودہ خیر سگالی اور برادرانہ تعلقات کی حقیقی عکاسی کرتی ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے اقتصادی تعاون کی نئی راہیں تلاش کرنے کے لیے مشترکہ کوششیں کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور کیمیکلز، سیمنٹ کلینکرز، آلات جراحی، لیدر مصنوعات اور آئی ٹی سیکٹر جیسے شعبوں میں تجارت کو فروغ دینے کے لیے وسیع امکانات سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت پر زور دیا۔ وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان نے دونوں ملکوں کے مابین تجارت اور سفرکی سہولت کے لیے کیے گئے حالیہ اقدامات پر بنگلا دیش کی عبوری حکومت کا شکریہ ادا کیا، جس میں پاکستان سے آنے والے سامان کے 100 فیصد فزیکل معائنے کی شرط کو ختم کرنا اور ڈھاکا ایئرپورٹ پر پاکستانی مسافروں کی جانچ پڑتال کے لیے قائم خصوصی سیکیورٹی ڈیسک کو ختم کرنا شامل ہے۔

بنگلہ دیش ڈی ایٹ کا واحد ملک ہے جس کے ساتھ تجارت کا توازن پاکستان کے حق میں ہے اور پاکستانی ٹیکسٹائل کی سب سے زیادہ سرمایہ کاری بنگلہ دیش ہی میں ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں لوڈ شیڈنگ اور امن و امان کے حالات کے سبب لگ بھگ چالیس فیصد ٹیکسٹائل صنعت بنگلہ دیش منتقل ہو چکی ہے تاکہ بنگلہ دیش کو سینتیس ممالک میں ڈیوٹی فری ٹیکسٹائل کوٹہ فروخت کرنے کی جو سہولت حاصل ہے، اس سے پاکستانی سرمایہ کار بھی مستفید ہو سکیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ پاکستانی ٹیکسٹائل انڈسٹری کی بنگلہ دیش منتقلی کے جاری عمل سے اب تک صوبہِ پنجاب میں ساٹھ ہزار سے زائد مقامی ٹیکسٹائل ورکرز اور اس صنعت سے بلاواسطہ منسلک لاکھوں خاندان معاشی طور پر متاثر ہوئے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے مصر کے صدر عبد الفتاح السیسی سے ملاقات کی، ملاقات میں دو طرفہ تعاون اور مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

ڈی ایٹ تجارت، انڈسٹری، اطلاعات، مواصلات، فنانس، توانائی، بینکنگ، مشترکہ سرمایہ کاری، کسٹم، انشورنش، نجکاری، زراعت، علم و ٹیکنالوجی، غربت میں کمی اور انسانی وسائل میں اضافہ کرنے  جیسے موضوعات کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے اور ان تمام، شعبوں میں ڈی ایٹ تعاون کو فروغ دینے میں کردار ادا کررہی ہے۔

ڈی ایٹ کے دائرہ کار میں تجارت اور اقتصادیات کے شعبوں میں موجود مواقع سے بھر پور استفادہ کرنے کی ضرورت ہے۔پاکستان کو دہشت گردی سمیت مختلف چیلنجوں کا سامنا رہا ہے، وہ جامع حکمت عملی اور مضبوط عزم کے ساتھ دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے کوشاں ہے، سلامتی کی بہتر صورتِ حال سے معیشت بحال ہوئی ہے، سی پیک سے معیشت مستحکم ہوئی،خطے میں توانائی کے منصوبوں پر بھی کام ہورہا ہے۔

اس کے ساتھ رکن ممالک کے ساتھ پاکستان ریل، سڑک اور دوسرے ذرایع سے شراکت داری چاہتا ہے، پاکستان کی خواہش ہے کہ ڈی ایٹ تنظیم منصوبوں پر عمل درآمد کے مرحلے میں داخل ہو اور اس کی توجہ لوگوں کی خوشحالی اور ترقی پر ہونی چاہیے۔

جیسا کہ تنظیم کا مقصد زراعت، صنعت، تجارت، ٹرانسپورٹیشن، توانائی اور سیاحت کے شعبوں میں تعاون بڑھانا تھا اب تک حاصل کیے گئے اہداف پاکستان کی توقعات سے کم ہیں۔ رکن ممالک کے درمیان تجارتی حجم کم ہوا ہے پاکستان چاہتا ہے کہ ترجیحی تجارت اور چھوٹے اور بڑے پیمانے کی صنعتوں پر توجہ دے کر تجارتی حجم میں اضافہ کیا جاسکتا ہے، مضبوط شراکت داری قائم کرنے کے لیے ضروری اقدامات اُٹھانا ہوں گے۔

ڈی ایٹ کے رکن ممالک کے درمیان باہمی تجارت کا حجم کم ہے جسے بڑھانے کی ضرورت ہے یہ اضافہ کیسے ہوگا؟ اس کے لیے تجارت میں اضافے کی راہ میں حائل قوانین کو تبدیل کرنا ہوگا اور کسٹمز کے ضابطوں کو وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہوگا۔

اس ضمن میں ایک تجویز بہت ہی مناسب ہے اگر رکن ممالک اپنی اپنی کرنسیوں میں تجارت شروع کر کے دوسری رکاوٹیں بھی دور کردیں تو تجارت میں اضافہ ممکن ہے اِس سے پہلے ضروری ہے کہ تمام ممالک ترجیحی بنیادوں پر اپنی اپنی درآمدات کا جائزہ لیں اور یہ دیکھیں کہ ضرورت کی اشیا کن ممالک سے درآمد کی جا رہی ہیں اگر یہ اشیا رکن ممالک میں دستیاب اور وافر ہیں تو پھر ایسی اشیا کی باہمی تجارت ترجیحی بنیادوں پر ہونی چاہیے۔

پاکستان کو شنگھائی تعاون تنظیم کی رکنیت بھی حاصل ہوئی ہے،جس میں خطے کی دو بڑی طاقتیں چین اور روس بھی شامل ہیں، پاکستان کو کئی برس تک اِس تنظیم میں مبصر کا درجہ حاصل رہا، بھارت سارک کا بھی رُکن ہے، لیکن جنوبی ایشیائی ملکوں کی تنظیم میں اس کا کردار لائق تحسین نہیں ہے۔

اِس تنظیم میں باہمی تعلقات زیر بحث لانے کی ممانعت ہے، لیکن بھارت نے سارک کو باہمی تنازعات کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ تنظیم وہ مقاصد حاصل نہیں کر سکی جو اِس کی بنیاد رکھتے وقت پیشِ نظر تھے۔ اس کی بنیادی وجہ بھارت کا منفی کردار ہے سارک میں پاکستان کے سوا کوئی مُلک ایسا نہیں، جو بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتا ہو۔

باقی تمام ممالک کو تو بھارت اپنے ڈھب پر لا سکتا ہے، لیکن پاکستان سارک میں بھی اہمیت رکھتا ہے اِس لیے بھارت نے اسلام آباد میں ہونے والے گزشتہ سربراہی اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا تھا اور اس مقصد کے لیے دو رکن ممالک کو اپنے ساتھ ملا لیا تھا۔ علاقائی تعاون کی تنظیموں کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ رکن ممالک تعاون اور رواداری کے ساتھ باقی ممالک کے ساتھ تعلقات رکھیں، بھارت شنگھائی تعاون تنظیم کا رکن بھی بن گیا ہے، جس میں سب سے زیادہ زور ہی اِس بات پر دیا جاتا ہے کہ تنظیم کے رکن مُلک اپنے تعلقات خوشگوار رکھیں گے، لیکن یہاں تو دو رکن ممالک کے درمیان کشیدگی کا سلسلہ برسوں سے جاری ہے۔

ڈی ایٹ کے رکن ممالک کو یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ان کی باہمی تجارت بڑھنے کے بجائے کم کیوں ہو رہی ہے، کیا رکن ممالک کی ضروریات آپس کی تجارت سے پوری نہیں ہوتیں یا کسی اور وجہ سے وہ تجارت نہیں بڑھا رہے، اب مقامی کرنسی میں تجارت کی جو تجویز پیش کی گئی ہے اگر تمام رکن ممالک اِس پر عمل کر کے تجارت شروع کر دیں تو تھوڑے ہی عرصے میں اضافہ ممکن ہے۔

اس وقت ڈی ایٹ تنظیم کو عالمی سطح پر مزید موثر بنانے کی ضرورت ہے۔ رکن ممالک کو تجارتی اور اقتصادی شعبے میں اہداف کے حصول کے لیے کام کرنا ہے، رکن ممالک کے درمیان تجارت کے فروغ کے لیے رکاوٹوں کو دور کرنا ہے، ترقی اور خوشحالی کے لیے نجی شعبے کی حوصلہ افزائی کرنا ہوگی۔

Load Next Story