ان دیکھے امریکی عزائم

پاکستان کے بیلیسٹک میزائل کے بارے میں امریکی بیان کو تحریک انصاف کے بانی سمیت کوئی بھی رہنما سنجیدہ لینے پر تیار نہیں

شام کی صورتحال اور تحریر الشام کے پیش کردہ ہیرو ابو محمد الجولانی کے شام ایسے ملک پر پلک جھپکتے ہی قبضہ کرنے اور اس پر قریبی ممالک اور امریکا کی مجرمانہ خاموشی کا تجزیہ کرتے ہوئے میں نے لکھا تھا کہ صلیبی جنگ سے کنونشل جنگ اور نیوکلیئر ٹیکنالوجی کی طاقت پر حکمرانی کرنے والوں نے اب ملکی فتوحات کا طریقہ کار وقت اور حالات کے مطابق تبدیل کر دیا ہے اور اب عالمی سرمایہ دارانہ سامراج دنیا کے نافرمان ممالک میں ’’سوشل میڈیا اور عالمی میڈیا‘‘ کی مدد سے بظاہر فتوحات حاصل کرنے کی نئی حکمت عملی پر گامزن ہے۔

جس میں فوری ہدف کے طور پر مشرق وسطیٰ میںاسرائیل اور ایشیا میں دہشت گردوں کو اپنے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا طریقہ نکالا گیا ہے،جس میں جہاں ضروری ہوا وہاں عالمی سامراجی قوتیں حکومتی تبدیلی کے لیے عوام سے زیادہ ’سوشل میڈیا اور میڈیا‘ کو استعمال کرنے کے طریقے پر عمل کریں گی، وگرنہ من پسند حکومتوں کے قیام میں عوام کی شرکت یا خود رو احتجاج کا دباؤ دکھا کر مطلوبہ ملک پر قبضہ کیا جائے گا۔

جیسا کہ افغانستان میں طالبان کی قوت دکھا کر دنیا کو امریکی فوج کی پسپائی دکھائی جب کہ دوسری جانب سری لنکا اور بنگلہ دیش میں پلانٹیڈ احتجاجی پیدا کرکے حکومت یا فوج کو مجبور کیا گیا کہ وہ عالمی سامراج کے مقامی ایجنٹوں کے ذریعے ہی حکومت چلانے کا اہل ہوگا،یہی سوشل میڈیا اور میڈیاکا پروپیگنڈا تحریک انصاف کے ذریعے پاکستان میں خود رو احتجاج میں دیکھا جاسکتا ہے،جس کو سمجھنے کی ضرورت سیاسی دانش کی ہے۔

 میری اس دلیل پر میرے محترم سینئر صحافی دوست کی یہ رائے تھی کہ ’’اس جنگ میں پاکستان یا اس کی سیاست میٹر نہیں کرتی ‘‘گویا خطے کی اس تمام صورتحال کا عکس پاکستان میں نہیں دکھائی دے رہا،جب کہ میں اپنے استدلال پر قائم رہا جو آخر کار دو ہفتے کے بعد اس وقت کی تنہا عالمی سامراج امریکا کی جانب سے پاکستان کے بلیسٹک میزائل ٹیکنالوجی کے استعمال پر رد عمل سامنے آگیا،جس میں پس پردہ کئی ایسی نشانیاں واضح ہیں جن کی وکالت بادی النظر میں تحریک انصاف پاکستان میں کرتی ہوئی نظر آتی ہے اور پاکستان کی وزارت خارجہ کا بھی فوری رد عمل اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ معاملہ اتنا سادہ یا غیر سنجیدہ نہیں کہ جس کو در خور اعتنا سمجھ لیا جائے۔

گزشتہ دنوں امریکی سیکیورٹی کے ڈپٹی ایڈوائزر جان فلنر نے اس امر پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ ’’پاکستان میں بننے والے دور مار بیلیسٹک میزائلز کی طاقت اتنی بڑھتی جارہی ہے کہ یہ میزائل نہ صرف ساؤتھ ایشیا بلکہ امریکا تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جن کو امریکا تشویش کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اس سلسلے میں بیلیسٹک میزائل کو طاقت فراہم کرنے والی چار کمپنیوں پر پابندیاں لگانے کے مرحلے میں ضروری کارروائیوں کے لیے پیش رفت کر سکتا ہے‘‘

دوسری جانب امریکی خبر اور تشویش پر فوری ردعمل دیتے ہوئے پاکستانی وزارت خارجہ نے اس ممکنہ امریکی دھمکی پر امریکا کے اس قدم کو دہرا اور جانبدارانہ عمل قرار دیتے ہوئے وضاحت کی ہے کہ پاکستان اپنے ملک کے دفاع کے لیے ضروری سمجھتا ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو ملکی دفاع اور حفاظت کے لیے استعمال کرے۔

پا کستانی وزارت خارجہ نے مزید دو ٹوک انداز میں کہا ہے کہ یہ پاکستان کا حق ہے کہ وہ خطے کے حالات کے پیش نظر اپنے میزائل پرگرام کو ملکی حفاظت کے لیے مضبوط سے مضبوط تر کرے تاکہ ساؤتھ ایشیا کے امن میں لاحق خطرات سے بہ احسن نمٹا جاسکے۔

پاکستان کے فوری رد عمل پر تبصرہ کرتے ہوئے امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان ویدنت پاٹل نے کہا ہے کہ امریکا کو اپنے تحفظ کے خاطر پاکستان کے بیلیسٹک میزائل کے دور مار میزائلز سے ممکنہ خطرات ہیں اور امریکا اس بات پر قائم ہے کہ دنیا کے امن کو لاحق نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے استعمال کو روکا جائے جب کہ ہم پاکستان کو اس ضمن میں ایک اہم شراکت دار کے طور پر دیکھتے ہیں۔

سوال امریکی تشویش اور پاکستان کے ردعمل سے زیادہ یہ ہے کہ امریکا کا یہ بیان یا تشویش اس وقت سامنے آئی ہے جس وقت اسرائیل شام کی تبدیل شدہ صورت حال میں گولان کی شامی پہاڑیوں پر قبضہ کرنے کی قوت بڑھا رہا ہے اور عرب ممالک کی تشویش کے باوجود اسرائیل کو امریکا توسیع پسندانہ عزائم سے باز رکھنے کی کوشش نہیں کر رہا بلکہ اسرائیل کے ذریعے وہ مشرق وسطی میں اسرائیل کی بالادستی پر خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہا ہے۔

جب کہ پاکستان کے بیلیسٹک میزائل کے بارے میں امریکی بیان کو تحریک انصاف کے بانی سمیت کوئی بھی رہنما سنجیدہ لینے پر تیار نہیں بلکہ امریکا کی اس مبینہ دھمکی کے پیش نظر حکومت وقت سے ذاتی یا پارٹی کے لیے فوائد حاصل کرنے کی کوششوں میں سرگرداں دکھائی دے کر ملک میں تحریک انصاف ایک ایسا’’انتشاری سیاسی ماحول‘‘ برقرار رکھنا چاہتی ہے جس کے نتیجے میں ملک نہ صرف اندرونی خلفشار کا شکار رہے بلکہ اس گھٹن زدہ سیاسی ماحول میں بیرونی دباؤ میں اضافہ ہوتا رہے جو کہ کسی نہ کسی طرح تحریک انصاف کے غیر سیاسی فوائد کا پیش خیمہ ہو۔

ملک میں سیاسی بے چینی پیدا کرنے اور تحریک انصاف کی جانب سے سوشل میڈیا کا ملکی نظام کے خلاف پروپیگنڈہ اور میڈیا وار کسی نہ کسی طور امریکی حمایت حاصل کرکے اقتدار کی راہداریوں میں واپس آنے کے لیے بے چین ہے اور امریکی ایوان نمایندگان سے لے کر متوقع ٹرمپ تبدیلی میں اپنی سیاسی بقا تلاش کرتی ہوئی نظر آتی ہے جس کا پیش خیمہ امریکا کے جان ملر کا بیلیسٹک میزائل پر تشویش اور امریکا کی ’’سوشل میڈیا و عالمی میڈیا‘‘ کی حمایت سے پاکستان کے اندرونی خلفشار سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کو بآسانی دیکھا جاسکتا ہے جس کی حمایت میں تحریک انصاف واضح طور سے امریکی حکمت عملی یا رد عمل پر مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے جس کو عوام نے نہایت سنجیدگی سے نہ صرف دیکھنا بلکہ سمجھنا بھی ہے۔
 

Load Next Story