ہم زاد
شاعری ہے کیا۔ انسان جن فکری تجربات سے گزرتا ہے۔ جو حوادث زمانہ اسے پیش آتے ہیں۔ حالات کے تنوع سے جو رس کشید ہوتا ہے۔ وہ آہستہ آہستہ ‘ دل کے نہاں خانے سے بوند بوند ٹپک کر‘ لفظوں کی صورت میں‘ کاغذ پر عیاں ہوتا ہے۔ دنیاکے تمام انسان ذہنی طور پر دو حصوں میں بٹے ہوئے ہیں۔
یہ لکیر کسی کو نظر نہیں آتی۔ پر ہر ذی شعوراسے محسوس کر سکتا ہے۔ ننانوے فیصد وہ لوگ ہیں جو نئی بات نہیں کہہ سکتے۔ ان کے لیے زندگی قدرے سادہ سی ہے۔ فکر روزگار‘ دنیاداری کے تقاضے اور پھر خدا کے راستے پر روانگی ۔ مگر ایک فیصد یعنی حد درجہ کم افراد ہوتے ہیں جو فکر کے آئینے سے مستعار ‘ نئی بات سوچنے‘ کہنے اور لکھنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔
قدرت کی یہ تقسیم حد درجہ انوکھی اور نادر ہے۔ توقیر احمد فائق ‘ اسی قبیل سے تعلق رکھتے ہیں۔ جو شیشہ گری کا فن جانتے ہیں۔ وہ اپنے ذہن کے جوار بھاٹا کو نظر نہیں آنے دیتے۔ زندگی ان پر کس کس طرح نشتر چلاتی ہے۔ وہ اسے سب کے سامنے حد درجہ تحمل سے برداشت کرتے نظر آتے ہیں۔ مگر یہ اہل جنوں کے قافلے کے مسافر ہیں۔ جو پھر اپنے خون دل سے کشید شدہ الفاظ‘ اشعار کی صورت میں رقم کرتے ہیں۔ یہ حددرجہ مشکل کام ہے۔ اور توقیر احمد فائق اس رفو گری سے بخوبی آشنا ہیں۔
وہ جو خورشید بکف تھے ید بیضا والے
جا بسے دور کہیں پر دم عیسیٰ والے
منعکس نور کی برسات تھی جن چہروں پر
جن کی خیرات کے طالب شب یلدا والے
جن کی پراثر دعاؤں سے تھا برکت کا نزول
وی جو درویش تھے اپنے لب گویا والے
لہو کی بوند بوند جب جسم خاکی سے اشعار کے روپ سے آراستہ ہوتی ہے تو پھر توقیر کے قلم کا درد‘ سینہ چیر کر سامنے آ جاتا ہے۔
اپنا بنا کے رکھ مجھے اذن وصال دے
یا مبتلائے شوق کو دل سے نکال دے
شرمندۂ فریب وفا کب تلک رہیں
اب تو وہ کہکشاں مری جھولی میں ڈال دے
نازک ہے آبگینۂ ہستی‘ مگر یہ ہے
وہ ساغر سفال جو دریا اچھال دے
بلندخیالی سے معمور ‘ یہ شاعر‘ پڑھنے والے کو حیران کر ڈالتا ہے۔ صاحبان! ذرا دیکھیے تو سہی‘ تو دل میں گھر کرنے والے کیاعمدہ اشعار کہے گئے ہیں۔
ان کو ہیں مسند شاہی کے مسائل درپیش
میرے حالات کہاں تخت نشیں جانتے ہیں
خواب کتنے تھے جو آخر خش و خاشاک ہوئے
ہم نے یہ عمر گزاری ہے یہیں‘ جانتے ہیں
راستے برف‘ ہوا تیز‘ پہاڑی ڈھلوان
رات وہ کیسے گزاری یہ ہمیں جانتے ہیں
میں ‘ خود‘ ایک معمولی سا لکھاری ہوں۔ دہائیوں سے لکھتا چلا آ رہا ہوں۔ادب کا ادنیٰ سا طالب علم بھی ہوں۔ اپنے تجربہ کی بنیاد پر یہ برملا عرض کروں گا کہ توقیر احمد فائق کی شاعری‘ تازہ ہوا کا خوشبودار جھونکا ہے۔ بلکہ یہ کہنا بھی مقدم ہو گا۔ کہ توقیر اپنے ہم عصروں میں ایک بلند قامت درخت کی طرح نمایاں ہوا ہے۔ کیا کمال طریقے سے زندگی کے بوجھل پن کو کورے کاغذ پر منتقل کیا ہے۔
ان گنت چہرے ہجوم شام کے
مضمحل دن بھر کے اپنے کام کے
ان کے چہروں پر تھکاوٹ ہے عیاں
روز مرہ کی مشقت کے نشاں
ان کے کاندھوں پر کئی بارِ گراں
آ رہا ہے کارواں در کارواں
یہ گروہ ِبے کساں
سول سروس سے منسلک لوگ بخوبی جانتے ہیں۔ کہ کانٹوں سے بھرے اس ببول کے جنگل میں دامن بچا کر نکلنا کتنا مشکل کام ہے۔ ہمارے ہاں تو دربار سے منسلک رہنے والے کو ہی خلعت فاخرہ سے سرفراز کیا جاتا ہے۔ مگر توقیر احمد فائق ایک عجب مرد صحرا ہے۔ پوری زندگی‘ دربار اور درباریوں سے کوسوں دور رہا۔
اس لیے کہ اس کے اندر ‘ ایک بلند پایہ انسان اور شاعر چھپا ہوا تھا۔ تمام مواقع ملنے کے باوجود‘ دنیاوی آلودگی سے اپنے آپ کو بچانا‘ حد درجہ کوہ گرں کے برابر کا عمل ہے۔ مگر توقیر احمد فائق نے یہ کام کر کے دکھایا ہے۔ نہ ہی دربار تک رسائی چاہی اور نہ کبھی درباریوں سے میل جول رکھا۔ سول سروس کے اندر‘ یہ بلند سخن شاعر‘ اپنی دھن میں مست رہا۔ چہرے پر متانت لیے۔ کسی کو اندازہ ہی نہیں ہونے دیا کہ اندر کس قیامت کی توڑ پھوڑ جاری ہے۔ مگر وہ سب کچھ ‘ ضبط تحریر کر ڈالا جو کمال کام ہے۔
یہ سب سچ ہے
مجھے تسلیم ہے جاناں!
محبت ایسی خوشبو ہے ‘ محبت ایسا جھونکا ہے
طراوت جس کی دل کو بن کہے محسوس ہوتی ہے
جسے ادراک فطرت ہو‘ اسے محسوس ہوتی ہے
مگر مجھ کو یہ کہنا ہے
مری اتنی گزارش ہے
کہ یہ الفاظ ہی ہوتے ہیں جو جذبوں کی رنگت کو
اُجالے بخشتے ہیں‘ روشنی تقسیم کرتے ہیں
یہ خالق تو نہیں ہوتے‘ امنگوں آرزوؤں کے
مگر اپنے ذریعے ان کی‘ یہ تجسیم کرتے ہیں
توقیر احمد فائق اس قدر پر تاثیر شاعری کریں گے‘ یقین نہیں آتا ۔ ان کی کتاب ہم زاد سامنے پڑی ہوئی ہے۔ ان کے اشعار پڑھتا جاتا ہوں اور کیف ومستی کے اس زینے پر روانہ ہوجاتا ہوں جہاں صرف خوبصورت الفاظ ‘ کلام کی بوقلمونی اوررنگینی ساتھ رہ جاتی ہے۔ محترم فائق صاحب سے پہلی ملاقات 1987ء یعنی پچھلی صدی میں ہوئی۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ کے ڈپٹی کمشنر تھے اور میں ٹرانسفر ہو کر شکر گڑھ سے گوجرہ آیا تھا۔
یہ اس وقت کا زمانہ ہے جب ضلعی انتظامیہ حقیقت میں ضلعی انتظامیہ ہوتی تھی ۔ بطور اسٹنٹ کمشنر ‘ توقیر احمد فائق صاحب سے ان گنت ملاقاتیں رہیں۔ انھیں میں حد درجے انسان دوست اور لوگوں کے لیے ہمدرد دل کا مالک پایا ۔ ماضی کا ڈپٹی کمشنر اس ملک کا مضبوط ترین عہدہ گردانا جاتا تھا۔ مگرفائق صاحب میںایک فیصد بھی ضلعی انتظامیہ کی رعونت سرائیت نہ کر پائی۔ نرم خو ‘شائستگی اور مرنجان مرنج طبیعت کے مالک‘ وہ اپنے عہدے سے بڑے انسان تھے۔ یہ تو علم تھا کہ شاعری سے نسبت رکھتے ہیں مگر آہستہ آہستہ شاعری میں اتنے پختہ ہو جائیں گے‘اس کا گمان قطعاً نہیں تھا ۔
وہ طاقچوں کے دیے جو ہوا سے ڈرتے ہیں
ہم ان کو اپنا قبیلہ شمار کرتے ہیں
اگرچہ موت حقیقت ہے سب کو آئے گی
وہ ایک بار مریں گے‘یہ روز مرتے ہیں
توقیر صاحب جس داخلی کیفیت سے گزرے ہیں وہ ان کے کلام سے عیاں ہوتی ہے ۔ عشق ‘وصال‘ ہجر‘انسانیت کا دکھ اور عام لوگوں کی آواز سننے والا وہ شاعر ‘ جو اب تقریباً ناپید ہو چکے ہیں۔
ضمیر بکتے رہے ہیں‘ زبان بدلتی رہی ہے
یہ کس کمال کی طاقت نظام زر میں تھی
نظر شناس نہیں تھے فریب کھاتے رہے
یہی تو ایک خرابی ہمارے سر میں تھی
توقیر احمد فائق صاحب ایک بڑے انسان تو ہیں ہی سہی مگر حد درجے بلند سخن پر بھی ٹھہرائے جاتے ہیں۔ میری پوری زندگی شاعروں اور ادیبوںکے درمیان گزری ہے۔ موجودہ شاعروں کے کلام پر گہری نظر رکھتا ہوں۔ مگر بہت عرصے بعد کچھ ایسے کلام سے شناسا ہوا ہوںجو موجودہ زمانے کی ہر کسوٹی پر پورا اترتا ہے۔ کمال بات یہ بھی ہے کہ اس میں کلاسیکل شاعری کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔ یہ تحریر صرف اور صرف جذبات کے ٹھہراؤ اور اس کے مدو جزر میں رہتے ہوئے خون ِدل سے تحریر کی گئی ہے۔
جیتے ہوئے سرطشت میں لے کر نہیں پہنچا
واپس ابھی میدان سے لشکر نہیں پہنچا
یہ شہر گراں خواب اسی بات پہ خوش ہے
دشمن ابھی پیچھے ہے برابر نہیںپہنچا
ہم زاد کی ایک نظم سے چند اشعار آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں ۔
ہجر کا گہرا سبز سمندر
جس کے بیچوں بیچ
دل کا بے آباد جزیرہ
دھند میں لپٹا ہے
لکھنے کو تو بہت کچھ ہے۔ مگر صرف یہ کہوںگا کہ توقیر احمد فائق ایک ایسے ذہنی سفر سے گزرے ہیں جس سے ان کا کلام آفاقی ہو چکا ہے آخر میں صرف ایک شعر ؎
بتاؤں کیسے مرے ساتھ جو گزرتی ہے
کہ آئنہ ہوں مگر پتھروں میں رہتا ہوں
آخر میں یہی عرض کروںگا کہ ہم زاد صرف ایک شاعری کا مجموعہ نہیں۔ یہ صدیوں کی کاوش اور گرم صحرا میں آبلہ پانی کا شہکار ہے۔