ذہین افراد کی پہچان کیا ہے؟
کیا آپ ذہین ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو چند سکینڈ کےلیے ہر کسی کو پریشان کرسکتا ہے کیونکہ ہم میں سے کوئی بھی خود کو کم عقل یا جاہل سمجھنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ جس طرح ہم اول الذکر جملے کو کبھی نہیں مانتے، اسی طرح ہم یہ بات بھی عموماً تسلیم نہیں کرتے کہ کوئی دوسرا بھی سمجھدار اور ذہین ہوسکتا ہے۔
یہ بحث ہے تو بہت طویل، لیکن پھر بھی کچھ چیزیں یا علامات ایسی ضرور ہوتی ہیں جو کسی حد تک ذہانت کے بارے میں پتہ دیتی ہیں۔ ذہین ترین افراد کو عام فہم الفاظ میں ہم دور اندیش بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ وہ عام افراد کے مقابلے میں زندگی کے مسائل کو بہتر انداز سے نہ صرف سمجھ سکتے ہیں بلکہ ان کے حل کےلیے بہتر اقدامات بھی اٹھا سکتے ہیں۔
ذہین افراد کی سب سے اہم صلاحیت یہ ہوتی ہے کہ وہ ہمیشہ روشن خیال اور کھلے ذہن کے مالک ہوتے ہیں، یعنی وہ ہمیشہ سے نئے نئے آئیڈیاز پر کام کرنا چاہتے ہیں۔ وہ لکیر کے فقیر اور کنویں کے مینڈک ہرگز نہیں ہوتے۔ اس لیے کسی بھی طرح ہر وقت روایتی طریقوں پر ڈٹے نہیں رہتے اور ’’اسٹیٹس کو‘‘ کے مارے بھی نہیں ہوتے۔
ایسے افراد مسائل کے حل کےلیے فوری اقدامات کرتے ہیں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ بحران کے وقت ان کا دماغ زیادہ بہتر انداز سے کام کرتا ہے۔ وہ تنقیدی اور تعمیری دونوں انداز سے مسائل کا جائزہ لیتے ہیں۔ اب چونکہ وہ دوراندیش ہوتے ہیں اس لیے ان کا کسی کام کے فائدے نقصان سے متعلق اندازہ بھی عموماً درست ہی ہوتا ہے۔ لیکن یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ ایسے افراد عموماً مسائل کے حل کےلیے قابل عمل طریقوں کو اپناتے ہیں اور ہوا میں تیر نہیں چلاتے۔
ان افراد میں ایک بہت ہی عجیب بات یہ بھی ہوتی ہے کہ خود کو یہ کبھی اوسط درجے سے اوپر کے نمبر نہیں دیتے۔ کیونکہ یہ اپنی ذہانت کو کبھی غیر معمولی ہی نہیں سمجھتے، کئی مرتبہ تو انھیں اپنی قابلیت کے بارے میں خود بھی علم نہیں ہوتا۔ وہ اپنی ان کامیابیوں کو بہت کم تصور کرتے ہیں جو شاید دوسرے لوگوں کےلیے بہت اہم اور بڑی ہوں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہوتی ہے کہ یہ کھی خود سے مطمئن نہیں ہوتے اور خوب سے خوب تر کی تلاش میں مزید محنت کرتے رہتے ہیں۔ کسی بھی چیز کے بارے میں متجسس رہتے ہیں تو دیوار کے صرف ایک طرف نہیں بلکہ اس پار دیکھنے کا ہنر بھی رکھتے ہیں۔
حس مزاح اور حس لطیف یہ دونوں ایسی خوبیاں ہیں جو کہ ذہین افراد کا خاصہ ہیں۔ وہ مشکل سے مشکل وقت کو بھی کبھی خود پر سوار نہیں کرتے بلکہ دنیا بھر کی خوشی کا باعث بن جاتے ہیں۔ وہ مشکل حالات کو بھی ہنسی مذاق میں ٹالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن یاد رہے کہ یہ ہوتی صرف کوشش ہی ہے۔ وہ بھی انسان ہی ہوتے ہیں اور درپردہ اس مسئلے سے متاثر ہوتے ہیں اور اس سے نبرد آزما ہونے کےلیے تیار ہوتے ہیں لیکن انھیں اپنے جذبات پر مکمل کنٹرول ہوتا ہے۔
مشکل حالات میں خود پر قابو پانا بذات خود بہت مشکل کام ہے لیکن ذہین افراد اس مصیبت سے بھی خود کو نکالنے کی جستجو میں لگے رہتے ہیں۔ ذہین افراد ایک ہی وقت میں بہت سے کام سرانجام دے سکتے ہیں، ہم کسی گھریلو خاتون کی ہی مثال لے لیتے ہیں جیسے وہ بیک وقت ہنڈیا بھی پکا رہی ہوں، مارننگ شو بھی دیکھ رہی ہوں اور بچوں پر بھی نظر رکھ رہی ہوتی ہیں۔
نت نئی چیزیں اور مہارتیں کون نہیں سیکھنا چاہتا لیکن یہ ہر شخص کے بس کی بات نہیں ہوتی لیکن ذہین افراد کےلیے یہ بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے۔ وہ بہت سی مہارتیں سیکھ لیتے ہیں اور ان میں نئی نئی چیزیں سیکھنے کا جذبہ ہمہ وقت زندہ رہتا ہے۔ ایسے افراد تخلیقی صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں اس لیے کوئی بھی نیا رسک لینے سے ہچکچاتے نہیں اور اپنی مرضی کا کام کر ڈالتے ہیں۔
معاشرے میں رہتے ہوئے ایک دوسرے سے بہتر تعلقات بنانا آسان کام نہیں کیونکہ اس کےلیے آپ کو ایک دوسرے کو سمجھنا پڑتا ہے، اور مختلف لوگ اپنے ماحول اور تعلیم و تربیت میں تفاوت کی وجہ سے آپس میں ٹکراؤ کی کیفیت بھی رکھتے ہیں۔ اس لیے اس سب کے ساتھ میانہ روی کے ساتھ چلنا بہت دشوار ہوتا ہے، لیکن ذہین ترین افراد ایک ٹیم کی طرح کام کرتے ہیں، کسی کا کریڈٹ خود نہیں لیتے بلکہ محنتی لوگوں کو سراہتے ہیں۔ وہ بے جا تنقید سے نہ تو خود دل ہارتے ہیں اور نہ کسی اور کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں بلکہ وہ لوگوں کو جانتے ہوئے ان کے ہم قدم ہوتے ہیں اور یہ بہت بڑی صلاحیت ہے کہ آپ مختلف لوگوں کو ساتھ لے کر چلیں۔
ایسے افراد یہ بھی جانتے ہیں کہ علم کو پھیلانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہوتا ہے کہ سوالات پوچھے جائیں، لیکن وہ سوالات با معنی ہوں، بے مقصد اور تھکانے والے نہیں۔ یہ چیزوں سے اور حالات سے متعلق استفسار کرتے ہیں۔ ان کے سوالات کا مقصد کسی کو زچ کرنا نہیں بلکہ اپنی معلومات اور علم میں اضافہ کرنا ہوتا ہے۔
ذہانت عموماً پیدائشی ہوتی ہے۔ ہم میں سے ہر کوئی کسی نہ کسی خداداد صلاحیت کا حامل ہوتا ہے لیکن ماحول، تریبت اور زندگی کے تجربات ہمیں بہت کچھ سکھا دیتے ہیں اور اس بنا پر بھی انسان بہت کچھ سیکھ لیتا ہے۔ وہ تو آپ سب نے سنا اور پڑھا ہی ہوگا کہ ٹھوکر کھا کر ہی ٹھاکر بنتا ہے۔ ہم میں سے ہرشخص کو اپنی صلاحیتوں کے پہچاننے اور پھر ان کو بہتر بنانے سے متعلق ہر لمحہ کوشاں رہنا چاہیے ملک اور قوم تو بعد میں رہی پہلے انسان اپنی حالت سدھار لے یہ ہی بنی نوع انسان کی کامیابی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔