سولرصارفین کی حوصلہ شکنی کی جارہی ہے، ہراساں کرنا بند کیا جائے، میاں زاہد
ایف پی سی سی آئی پالیسی ایڈوائزری بورڈ کے چیئرمین میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ پاور بیورو کریسی منظم انداز میں شمسی توانائی کے ڈومیسٹک، کمرشل اور انڈسٹریل صارفین کی حوصلہ شکنی کر رہی ہے جو افسوسناک ہے۔ بجلی کی ناقابل برداشت قیمتوں کی وجہ سے عوام اور کاروباری برادری میں شمسی توانائی استعمال کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے مگر پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیاں اس سلسلہ میں تعاون کے بجائے روڑے اٹکا رہی ہیں تاکہ ان کی دوکانداری چلتی رہے گھریلو صارف کو ایک گرین میٹر لگانے کے لئے 40 سے 60ہزار تک اضافی اخراجات دینا پڑتے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق سنگل فیز میٹر کی ریڈنگ فرنٹ سے لی جاتی ہے جس میں استعمال شدہ یونٹ صاف نظر آتے ہیں ہے جبکہ گرین میٹر کی ریڈنگ کے وقت کیمرہ ترچھا کر دیا جاتا ہے تاکہ ریڈنگ واضح نظرنہ آئے تاکہ صارف کو باآسانی دھوکے میں رکھا جاسکے۔ سولر صارفین کے انورٹر کی بجلی کی پیداوار اور پاور کمپنی کی جانب سے بتائی جانے والی پیداوار میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے جس میں نقصان ہمیشہ صارف کاہی ہوتا ہے۔
گرین میٹر کی بلنگ کا نظام اتنا پیچیدہ رکھا گیا ہے جسے سمجھنا 99فیصد صارفین کے لئے ناممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ مختلف پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے افسران صنعتی صارفین کو شمسی توانائی کی اجازت دینے میں چھ سے آٹھ ماہ لگا دیتے ہیں جبکہ کئی کیس تو سالہا سال سے لٹکے ہوئے ہیں۔
اسی طرح جوصنعتی صارفین شمسی توانائی استعمال کر رہے ہیں انہیں پاور جنریشن میں توسیع کی اجازت بھی نہیں دی جاتی اور وہ مجبور ہوکر ازخود سولر پلیٹوں میں اضافہ کرتے ہیں انہیں چھاپے اور بجلی کی ڈس کنکشن بھگتنا پڑتی ہے جس سے کاروبار تباہ ہو جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس سلسلہ میں بنائے گئے قوانین یکطرفہ ہیں جن میں کنزیومر کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی اور انہیں پاورسیکٹر بیوروکریسی کی جانب سے مہنگی اور غیر متواتر گرڈ الیکٹرسٹی استعمال کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ صنعتیں بند کرنے سے جہاں صنعتکاروں کو پیداوار اور ساکھ کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے وہیں حکومت کو محاصل کی مد میں بھاری نقصان ہوتا ہے جبکہ ان صنعتوں میں کام کرنے والے افراد بے روزگار ہوجاتے ہیں۔
حکومت ان معاملات کا جائزہ لے اور قوانین میں تبدیلی کرکے انہیں متوازن بنائے تاکہ گھریلو، کمرشل اور صنعتی صارفین کی حق تلفی کا سلسلہ بند ہو اور شمسی توانائی پر کروڑوں روپے خرچ کرنے کے بعد انہیں کاروبار کی بندش کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ساری دنیا میں قابل تجدید توانائی کے ذرائع کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے سولر پاور استعمال کرنے والوں کو حکومتیں اسپورٹ کرتی ہیں اور انہیں ترغیبات دیتی ہیں کچھ عرصہ پہلے تک پاکستان میں بھی ایسے ہی ہو رہا تھا مگر اب پاکستان میں اس کا الٹ ہو رہا ہے جو قابل مذمت ہے۔