دس لاکھ بچے فری لانسنگ سیکھ لیں تو اربوں ڈالر ملک میں آئیں گے، کنول چیمہ

ٹیکنالوجی کے ذریعے عطیات کے نظام کو شفاف بنانے والی کنول چیمہ سے گفتگو

 تعـــارف

محترمہ کنول چیمہ ، Based Techکاروباری شخصت ہیں۔ ڈاکٹر والدین کی بیٹی ہونے کے ناطے ان پر ڈاکٹر بننے کا دباؤ تھا مگر انہوں نے اپنے رجحان اورشوق کی پیروی کی اور ٹیکنا لوجی کی فیلڈ کو اپنایا۔ عملی زندگی میں کامیاب ہو کر اپنے ڈاکٹر نہ بننے کے فیصلے کودرست ثابت کیا۔ آپ ایک ٹیک سٹارٹ اَپ (Up Start Tech) کی بانی اور چیف ایگزیکٹو آفیسر ہیں۔

سمندر پار پاکستانی کاروباری افراد کے ایک گروپ کی لاہور برانچ کی صدر، کاروباری اداروں کو بزنس بڑھانے، مارکیٹ شراکت داری قائم کرنے اور سٹارٹ اپس کو ایپ ڈیویلپمینٹ کے لے مشاورت فراہم کرنے والے ایک گروپ کی بانی بھی ہیں۔ آپ عطیات دینے اور عطیا ت وصولی کے عمل کو ٹیکناولوجی کے ذریعے شفاف بنا رہی ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف طریقوں سے معاشرے میں سماجی بھلائی کے کام بھی کر رہی ہیں۔

سوال: آپ کمپیوٹر ا نجینئرنگ کی جانب کیسے آئیں پھر ایم بی اے کیا۔ ا ِس فیلڈ کی جانب رْجحان کیسے ہوا؟

جواب: میرے ابا، اماں دونوں ڈاکٹر ہیں۔ میرے والد سرجن تھے اور میری والدہ گائناکالوجسٹ ہیں۔ ان کی خواہش تھی کہ میں ڈاکٹر بنوں کیونکہ ان کا یہ کہنا تھا کہ ہم اس فیلڈ کو جانتے ہیں اور جن مشکلات کا ہم نے سامنا کیا وہ مجھے نہیں کرنا پڑیں گی۔ میری والدہ چونکہ گائنا کالوجسٹ ہیں۔ تو مجھے یاد ہے کہ بچپن میں عید ہے یا کوئی تہوار ، ہم کہیں ڈنر پر ہیں تو ایک پیجر (Pager) ہوتا تھا تو وہ بج جاتا تھا، وہ فوراً اٹھ کر ہسپتال چلی جاتی تھیں، رات کے دو بجے ، تین بجے بھی ہسپتال چلی جاتی تھیں۔ تو یہ چیز میرے ذہن میں بیٹھ گئی تھی کہ یہ تو بہت مشکل چیز ہے۔ اور میرا ہمیشہ ان سے گلہ ہوتا تھا کہ آپ ہمیں وقت نہیں دے پاتیں۔ تو میں نے سوچ لیا تھا کہ میں نے ڈاکٹر نہیں بننا۔ جب میں نے اے لیول کر لیا تو میرے والد کی خواہش تھی کہ میں آغا خان سے پڑھوں۔ تو جس دن میرا آغا خان کا ٹیسٹ تھا تو میں ٹیسٹ دینے نہ گئی۔ پھر میں نے مختلف یونیورسٹیز میں اپلائی کیا تو میرا فاسٹ میں داخلہ ہو گیا کیونکہ میں کمپیوٹر اور ٹیکنالوجی کو پڑھنا چاہتی تھی۔

سوال : آپ کے میڈیکل نہ پڑھنے اور ٹیکنالوجی کی تعلیم کے انتخاب کے فیصلے پر والدین کا کیا ردِعمل تھا؟

جواب: میرے اس فیصلے پر والدین بہت خوش تھے، کیونکہ جب انہیں پتہ چلا کہ ٹیکنالوجی میں بہت اسکوپ اور مواقع ہیں۔ دوسرا یہ ہواکہ جونہی میں گریجویٹ ہوئی تو مجھے ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں جاب مل گئی او ر میں ہالینڈ چلی گئی۔ شروع ہی میں اللہ پاک نے مجھے اس فیلڈ میں کامیابی دیدی۔ تو پھر میرے والدین زیادہ خوش ہوئے، بالخصوص میرے والد بہت خوش ہوئے۔

سوال: پاکستان میں اکثر نوجوانوں کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ انہیں کہیں ملک سے باہر جاب مل جائے۔ آپ باہر کارپوریٹ ورلڈ میں بہت کامیاب تھیں اور آگے بھی کامیابی کے کئی مواقع تھے تو آپ پاکستان کیوں آئیں اور ایک ٹیک بیسڈ سوشل ایپ بنائی؟

جواب: کارپوریٹ ورلڈ میں کام کرتے ہوئے میں نے سوچنا شروع کیا کہ کیا میری زندگی اسی کارپوریٹ ورلڈ میں گزرے گی؟۔ کیونکہ جب میں آسٹریلیا گئی تو مجھے وہاں کارپوریٹ ورلڈ میں زیادہ کامیابی ملی۔ کارپوریٹ ورلڈ آپ کو اپنی جانب کھینچ لیتی ہے۔ آپ کواپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ اس کو چھوڑنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔

کیونکہ آسودگی اور آسائشیں بہت ہوتی ہیں۔ میں خود سِسکو میں تھی اور میرے شوہر مائیکروسافٹ میں ایک اچھے عہدے پر تھے۔ ہم دونوں بہت سکون میں تھے۔ لیکن ایک خیال مجھے باربارآتا تھا کہ میں اپنے پیچھے کون سا ورثہ چھوڑ کر جاؤں گی ، زندگی میں کیا ویلیو ایڈکر کے جاؤں گی؟۔جو صلاحیت اللہ نے مجھے دی ہے کیا وہ صرف میرے لیے ہے ،میری فیملی کے لیے ہے یا مجھے اسے وسعت دینی چاہیے۔ عطیات یا چیریٹی کے ذریعے پیسہ تو آپ عوا م کی بھلائی کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ اللہ نے مجھے اوربھی وسائل دیے ہیں۔ میں ان کا بہتر استعمال کیسے کر سکتی ہوں۔ تو کافی عرصے اور کئی سالوں سے یہ سوچ میرے اندر موجود تھی۔ لیکن پھر بھی اس سوچ کو عملی شکل میں ڈھالنے میں کئی سال لگ گئے لیکن پھر آخر کار میں نے فیصلہ کر ہی لیا۔

سوال:آپ نے اپنی ایپ کو پاکستان میں لانچ کرنے سے پہلے کیا ریسرچ کی تھی؟

جواب: بہت زیادہ ریسرچ کی تھی۔ میں سِسکو میں گلوبل ڈائریکٹرتھی اور میری بہت زیادہ ٹریولنگ ہوا کرتی تھی۔ بہت سے ملکوں میں جا کر میں نے این جی اوز کے انٹرویوز کیے، بہت سے ڈونرز کے انٹرویوز کیے، پھر سارا ڈیٹا اکٹھا کیا ، اس میں سے مشترکہ اور بہترین چیزیں نکالیں۔ میں جب آسٹریلیا میں تھی تو میں نے اپنے کارپوریٹ ورلڈ کے دوستوں سے بات چیت کی۔

ان میں ملٹی نیشنل کمپنی کے سینئیر پوزیشنز پر فائز افراد تھے۔ ایک وہاں کے سب سے بڑے ٹیلی کام آپریٹر تھے، ایک وہ تھے جنہوں نے سعودی عرب میں "کریم" کو لانچ کیا تھا۔ ان سب لوگوں کو اکٹھا کرکے میں نے ایک ورکشاپ کی۔اس میں ہم نے بہت بحث مباحثہ کیا کہ اگر ہم ٹیک پروڈکٹ ( Product Tech) بنائیں جو سوشل سیکٹر میں پائے جانے والے گیپ (Gap) کو کَور کر دے۔ ایک پروڈکٹ جو آپ کے عطیات کو شفاف، قابلِ اعتماد اور Rewarding کر دے۔ لوگوں اور انسانیت کے لیے ایک ترغیبی پروڈکٹ بنا دیں۔ اس کو کیسے بنائیں ، اس کا میکنزم کیا ہو گا۔ تو ہم نے بہت سوچ بچار، مشاورت سے انسانیت پر مبنی طریقہ کار ( Human Based Methodology) کو اپنا کر اس پروڈکٹ تک پہنچے۔

سوال: آپ کی پروڈکٹ ہے کیا اور یہ کیسے کام کرتی ہے؟

جواب: یہ ایک مرکزی ڈیجیٹل پلیٹ فارم ہے۔ یہ آپ کے عطیات کوٹریک (Track) بھی کرتا ہے اور اس میں سہولت بھی فراہم کرتا ہے۔ مختصراً بتاؤں تو اس کے چار بنیادی ستون ہیں۔ پہلا یہ ہے کہ اس پروڈکٹ کے ذریعے ہم نے اس کو تمام این جی اوز کے لیے ایک وال(Wall) بنا دیا ہے۔ تمام این جی اوز وہاں موجود ہوں گی۔ کوئی فرد کسی بھی این جی او کو عطیہ دے رہا ہے وہ اس کو دیتا رہے ۔

اس پلیٹ فارم کے ذریعے یہ ہو گا کہ وہ عطیہ ٹریک (Track) ہو گا۔ آپ کو نظر آئے گا۔ آپ کے تمام عطیات ایک جگہ سے ہو رہے ہوں گے۔ پھر اس کو Rewarding کر دیا۔ وہ ایسے کہ کوئی بھی فرد اگراس پلیٹ فار م کے ذریعے معاشرے میں کوئی Impact پیدا کر رہا ہے تو اس کو پوائنٹس ملیں گے۔ اس میں کیلکولیٹرز ہیں، زکوٰۃ کیلکولیٹرز ہے، آپ ا پنا کوئی ہدف طے کر سکتے ہیں۔

والٹ ہے۔ جتنی کسی کی نیت ہے وہ عطیہ کر دے باقی وہ والٹ میں ڈال دے۔ پھر جیسے جیسے چیرٹی کرنی ہے ، کرتے جائیں۔ توہم نے عطیات دہندگان(Donors) کو ایسے بہت سے فیچرز دیے ہیں ان کو سہولت دینے کے لیے، اس عمل کو سادہ بنانے کے لیے، ان کو ٹریکنگ دکھانے کے لیے، اس کو ماپنے کے لیے، ان کو ترغیب دلانے کے لیے، ان کے لیے فن (Fun) بنانے کے لیے وہاں گیمز بھی موجود ہیں۔

اس کا تیسرا ستون یہ ہے کہ اگر کوئی فرد کسی کی مددکرنا چاہتا ہے تو بجائے اس کے کہ آپ کو اس کو کیش دیں۔ کیونکہ ہم جب انٹرویوز کر رہے تھے تو جو سب سے بڑا مسئلہ سامنے آیا تھا تو وہ اعتماد کا فقدان تھا۔ کیونکہ جب آپ کسی کو کیش دیتے ہیں تو آپ کو پتہ نہیں ہوتا کہ اس کیش کا کیا ہوتا ہے۔

ہو سکتا ہے کہ کسی کو آپ نے کیش دیا ہو اور وہ اس کو کسی اور مقصد کے لیے استعمال کر لے۔ یا کوئی آپ سے بچے کی سکول فیس مانگ رہا ہے۔ تو پتہ چلے کہ وہ دس گھروں سے فیس ہی مانگ رہا ہے۔ تو اس طرح سفید پوش رہ جاتے ہیں کیونکہ وہ مانگتے نہیں ہیں۔ ہم نے سوچا کہ کسی طرح جو کمرشل سروس دینے والے ہیں ان کے ذریعے آپ کسی کو گفٹ کر دیں۔ بجائے اس کے کہ آپ کسی کو نقد رقم دیں ، آپ اس کو سروس گفٹ کر دیں۔ مثال کے طورپر آپ کسی کو راشن یا سکول کی فیس گفٹ کر سکیں۔ یہ ایک پورا سسٹم ہے جو ہم نے بنایا ہے۔ جیسے آن لائن ٹیکسی سروسز ہیں انہوں نے رائڈر کو Connect کردیا اس شخص سے جو رائیڈ لینا چاہتا ہے۔

اس طرح ہم نے عطیات دہندگان(Donors)، امداد لینے والوں کو اْن کمرشل سروس دینے والوں سے ملا دیا جن کے ذریعے وہ امداد دیں گے مثلاً کریا نہ اسٹورز، سکولزوغیرہ۔ مستقبل میں ہم ہا سپیٹلز، ڈاکٹرز ، فارمیسیز کو بھی اس میں شامل کریں گے۔ مثلاً اگر آپ کسی کو راشن دینا چاہتے ہیں، آپ اس ایپ کو کھولیں، جتنے کا راشن دینا چاہتے ہیں ، دے دیں، اب ہو گا کیا کہ امداد لینے والے کو ایک میسج چلا جائے گا کہ کسی نے چھ ہزار روپے کا راشن گفٹ کیا ہے۔

امداد لینے والا گھر کے قریب دکان پر چلا جائے ، وہ میسج دکھا ئے، دکاندار کے پاس اپنی ایپ ہے، وہ بہت سادہ ہے اردو زبان میں ہے، وہ دکاندار کیا کرے گا کہ وہ ٹریکنگ آئی ڈی ڈالے گا، اس کو پتہ چل جائیگا کہ اس کو چھ ہزار روپے کا راشن چاہیے، وہ کہے گا آپ میری دکان سے چھ ہزار روپے کا راشن خرید لیں، جب دونوں کنفرم کریں گے تو ایپ کے ذریعے پیسے دکاندار کے اکاؤنٹ میں چلے جائیں گے۔ اسی طریقہ کار کے تحت سکول کی فیس بھی دی جا سکتی ہے۔

چوتھا اس کا ستون یہ ہے کہ جیسے آپ فیس بک پر فرینڈ بناتے ہیں، لنکڈاِن پر رابطے بناتے ہیں اسی طرح اس ایپ پر جو Impactors ہیں وہ Buddies  Impactبن سکتے ہیں۔ اس طرح جب وہ ایک دوسرے کے فرینڈز بن جائیں گے تو پھر وہ بینیفیشریز کو شئیر بھی کر سکتے ہیں۔ آ پ کا کوئی دوست، رشتہ دار ملک سے باہر ہے ، وہ آپ پر اعتماد کر تا ہے۔ آپ کسی مستحق کو بینیفیشری کو اس میں ایڈ کریں اور ان کو بتا دیں تو وہ کسی کو راشن یا فیس وغیرہ دے سکتے ہیں یا کچھ اور مدد فراہم کر سکتے ہیں۔

سوال: یہ بتائیں کہ آپ کی اس ایپ پر عطیات کی شفافیت ، مستحقین کی اہلیت کو یقینی بنانے یا کسی فراڈ ، جعلسازی کو روکنے کا کیا طریقہ ہے؟

 جواب: ہم نے اس بات کو یقینی بنا یا ہے کہ فراڈ اور غلط استعمال ممکن نہ ہو۔ ایک عطیہ دہندہ(Donor) ہی ایک Donne (امداد لینے والا) کو ایڈ کر سکتا ہے۔ شناختی کارڈ اور موبائل نمبر کے ذریعے وہ اسے ایڈ کر ے۔ وہ اس کو جانتا ہے کہ وہ امداد کا مستحق ہے۔ خود اس نے اپنے پیسے دینے ہیں۔ ا ب کوئی ایسا ڈونر ہے جو کسی کو جانتا نہیں ہےوہ کسی کی مدد کرنا چاہتا ہے اور براہ راست کرنا چاہتا ہے۔ تو پھر بڑی بڑی جو این جی اوز ہیں جیسے الخدمت ہے۔

انہوں نے پورے پاکستان سے لو گوں کی تصدیق کرکے انہیں ایڈ کیا ہوا ہے۔ مثال کے طور پر الخدمت نے پانچ ہزار بیوائیں ایڈ کی ہیں۔ ان کا تعلق بلوچستان، گللگت، اندرون سندھ ، جنوبی پنجاب سے ہے۔ اب آپ بطور ڈونر ان بیواؤں کی فہر ست اس ایپ پر دیکھ سکتے ہیں۔

آپ ان میں سے کسی کو بھی ایڈ کرنا چاہیں تو کر لیں۔ اگر کوئی پہلے سے ہی ایڈ ہو چکی ہے توآپ اس کو نہ کریں۔ تو یہ دو طریقے ہو ئے افراد کوایڈ کرنے کے۔ ایک تو آپ خو د ایڈ کرلیں، دوسرا جو این جی اوز کے تصدیق شدہ افراد ہیں ، آپ اْن میں سے کوئی ایڈ کر لیں۔

تیسرا طریقہ یہ ہے کہ جو آ پ کے Buddies  Impactہیں جن پر آپ اعتماد کرتے ہیں۔ وہ بھی ایڈکر کے آپ سے شئیر کر سکتیہیں۔ اس طرح آپ ان کو اپنی لسٹ میں ڈال سکتے ہیں تو یہ تین طریقے ہیں لوگوں کو ایڈ کرنے کے۔ کوئی مستحق خود سے آکر ایڈ نہیں ہو سکتا۔ 

اس میں ایک اور پہلو بھی ہے کہ جب ڈونر کسی کو ایڈکرتا ہے تو وہ کسی کو نظر نہیں آتا صرف اسی کو نظر آتا ہے۔ صرف وہی ڈونر ان کو پیسے دے سکتا ہے کوئی اور نہیں دے سکتا۔سوائے اس صورت کے کہ وہ اس کو شئیر کرے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ فرا ڈ نہ ہو کیونکہ کوئی بندہ خو د کسی مستحق کو ہی ایڈ کرے گا۔ دوسرا اگر کوئی سفید پوش ہے تو اس کا بھرم اور پردہ رہ جائیگا۔ صرف اور صرف وہ Donees نظر آتے ہیں جن کو این جی اوز تصدیق کے بعد ایڈکر تی ہیں۔

سوال: کسی فرد یا یا کسی این جی او کی جانب سے ایڈ کیے گئے افرا د کتنے عرصے تک فہرست میں رہتے ہیں؟

جواب: جس طرح کسی بھی بینک کی ایپ میں لوگ پیسے بھیجنے کے لیے بینیفشری ایڈ کرتے ہیں اور پھر جب چاہے ان کو ڈیلیٹ کردیتے ہیں۔ ایسا ہی یہاں پر ہے اگر ایک ڈونر کسی امداد وصول کرنے والے کو اپنی فہرست سے نکالنا چاہے تو نکال سکتا ہے۔ لیکن وہ فرد ڈیٹا بیس میں رہے گا۔ اگرکوئی اور فرد اس کے شناختی کارڈ سے اس کو ایڈ کرتا ہے تو ریکارڈ میں آ جائے گا کہ یہ فرد پہلے بھی فہرست میں موجود تھا۔ جو بھی Impactee ہوتا ہے اس کے شناختی کارڈ سے اس کی ہسٹری جْڑ جاتی ہے۔

اگر کوئی اس کو راشن یا امداد دے رہا ہے تو وہ نظر آجاتا ہے۔ یہ اس لیے ہے کیونکہ مانگنے والا جو ہے وہ دس اور لوگوں سے بھی مانگ لیتا ہے۔ تو آپ کو اْس کی ہسڑی سے پتہ چل جائیگا کہ اس کو اِس ماہ راشن یا امداد مل چکی ہے۔ تو اس لیے ہر ایک کی ہسڑی کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے۔ اس طرح ایک فرد کسی بھی امداد لینے والے کو اپنی فہرست سے ڈیلیٹ کر سکتا ہے۔ اسی طرح جن این جی اوز نے تصدیق شدہ افراد کی فہرست دی ہے وہ بھی اپنی فہرست سے لوگوں کو ڈیلیٹ کر سکتی ہیں۔ اگر وہ فرد پڑھ لکھ گیا یا امداد کا مستحق نہ رہا تو این جی اوز ایسے افراد کو فہرست سے ڈیلیٹ کر سکتی ہیں۔

سوال: اگر کوئی فرد امداد وصول کرنے والے افراد کی فہرست میں شامل ہے اور کسی نا گہانی صورتحال کی وجہ سے امداد وصول نہیں کر پاتا یا پھر وہ فوت ہو جاتا ہے تو ایسے افراد جو فہرست میں تو ہیں مگر عملی طور پر امداد وصول نہیں کرتے اور وہ اس سسٹم سے غیر حاضر ہو جاتے ہیں۔تو ایسے افراد کا اس ایپ میں کیا تدارک ہے؟

جواب: ایسا ہوتا ہے۔ اس ایپ میں ایک فیچر ہے جس پر لکھا ہوتا ہے۔ Impactee Impactee Recieved by  Notاگر یہ نوٹیکفیشن بار بارآتا ہے اور ڈونر کسی وجہ سے اس کو دیکھ نہیں پاتا تو یہ ایپ ازخود ڈونر کو بتاتی ہے کہ امداد وصول کرنے والے فرد نے دو ماہ سے راشن یا امداد وصول نہیں کی ہے۔ تو پھر ڈونر کال کر کے اس کو چیک بھی کرسکتا ہے کہ آپ نے امداد وصول کیوں نہیں کی۔

میرے اپنے ساتھ یہ ہوا تھا کہ میں نے ایک فرد کو ایڈ کیا تھا تو ان کی وفات ہو گئی تو کچھ عرصے تک مجھے پتہ نہ چلا۔ پھر میں نے کال کر کے چیک کیا تو معلوم ہوا کہ وہ فوت ہو گئے ہیں۔ پھر میں نے ان کی بیوہ کو ایڈ کیا۔ اس طرح کا میکنزم ہے جہاں آپ کو کسی کی غیر حاضری کا پتہ چل جاتا ہے۔ ایک اور صورت ہے کہ ایک ڈونر نے کسی طالب علم کو ایڈ کیا اور چھ ماہ تک اس کی سکول فیس دی اور پھر اس کو چھوڑ دیا تو سکول کے پاس بھی یہ آپشن ہے کہ وہ اْ س بچے کا کیس باقی ڈونر ز کے سامنے رکھے کہ اس کو فیس مل رہی تھی اور اب نہیں مل رہی تو ہو سکتا ہے کہ کوئی اور ڈونر اس کو لے لے۔ اس طرح اگر کوئی ڈونر فیس نہیں دے سکتا تو وہ اس کو کسی اور ڈونر سے شئیر کر سکتا ہے۔ 

سوال: آپ کی ایپ کہاں کہاں دستیا ب ہے

جواب : اگر آپ کے پاس آئی فون ہے تو ایپ سٹور سے اگر اینڈرائڈ فون ہے تو گوگل پلے سٹور سے ڈاؤن لوڈ کرلیں۔ مستقبل میں یہ ہواوے کے اسٹور پر بھی دستیاب ہو گی۔ یہ تو ڈونرز کے لیے ایپ ہو گئی۔ ا ب جو دکاندار ہیں وہ گروسری سے متعلقہ ہماری ایپ ڈاؤن لوڈ کرلیں تاکہ وہ ہمارے ساتھ جْڑ جائیں اور وہ اپنی خدمات دے سکیں۔ جو این جی اوز ہیں وہ این جی او سے متعلقہ ایپ اور سکول، کالج ، یونیورسٹی ، فنی تربیت دینے والے ادارے ایجوکیشن والی ایپ استعمال کر سکتے ہیں۔

سوال: ہمارے ملک میں بوجوہ ڈیٹا کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی ۔ کیا آپ سمجھتی ہیں کہ آپ کی ایپ سماجی خدمت کیساتھ ساتھ ڈیٹا کو بھی Maintain کرے گی؟

جواب: اس ایپ کے ذریعے Impactees کا ڈیٹا بھی اکٹھا ہورہا ہے اور ساتھ ساتھ اْن کی ہسٹری بھی رکھی جا رہی ہے۔ اس سے بہت فائدہ ہورہا ہے ایک تواس سے ایپ کی شفافیت سامنے آرہی ہے۔ دوسرا اگر کسی نے راشن دیا ہے، تعلیمی اخراجات دیے ہیں تو ڈیٹا کے ذریعے اس عمل کی ساری ہسڑی سامنے آ رہی ہے۔ دوسرا اس کا سب سے بڑا فائدہ جو کہیں اور میں نے نہیں دیکھا ۔وہ یہ ہے کہ بطور ڈونر آپ کو اپنا ریکارڈ بھی پتہ چل رہا ہے کہ پچھلے سال یا پچھلے ماہ آپ نے کتنے پیسے دیے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ آپ کسی کے ساتھ شئیر کریں مگرآپ اپنا ریکارڈ دیکھ رہے ہیں۔ آپ کے لیے ترغیب ہے آپ اپنا ہدف طے کر سکتے ہیں، زکوٰۃ کا ہدف رکھ سکتے ہیں۔

دنیا میں کامیابی کو پرکھنے کے کئی معیار ہیں۔ آپ کی دولت ، آپ کا ٹائٹل ، آپ کی ڈگریاں معیا ر ہیں۔ اب آپ کی کامیابی کا ایک پیمانہ یہ ہو سکتا ہے کہ آپ سوسائٹی میں کیا Impact ڈال رہے ہیں۔ ۔ بستر ِمرگ پر آپ کے پاس پوری ایک Report Legacyہے کہ آپ دنیا میں کیا چھوڑ کر جا رہے ہیں۔

میری نانی جان کی ایک بات میرے دل اور ذہن پر نقش ہو گئی، وہ کہا کرتی تھیں کہ جو میں اپنے اوپر لگاتی تھی وہ تو خرچ ہو گیا۔ مگر میں جو دوسروں کو دیتی ہوں وہ اپنے اکاؤنٹ میں ڈال رہی ہوں جو میں اپنے ساتھ لے کر جاؤں گی۔ باقی سب کچھ تو ہم اس دنیا میں چھوڑ جاتے ہیں۔ آخر میں وہ ساراڈیٹا آپ کے پاس ہے ، آپ کی اگلی نسل کے پاس ہے کہ آپ کیا کچھ کر کے گئے ہیں۔ یہ اگلی نسل کے لیے بھی ایک انسپائریشن ہے اور ان کے لیے ترغیب بھی ہے کہ وہ اس کارِخیر کو جاری رکھیں۔

سوال: ا ب تک کتنی این جی اوز، تعلیمی ادارے یا انفرادی ڈونرز آپ کے ساتھ جْڑے ہیں؟

جواب: پاکستان کی بہت سی این جی اوز ہمارے ساتھ ہیں۔ ان میں الخدمت ، سہارا ٹرسٹ ، اللہ والے ٹرسٹ اور بہت سی دیگراین جی او ز ہیں۔ کیونکہ ہماری ایپ ایک Wall of NGOs ہے جو ان کے مقصد کے لیے عطیہ کرنا چاہے وہ کرے۔ ہم اور این جی او ز کو بھی اپنے پلیٹ فارم میں ایڈ کر رہے ہیں۔ اسی طرح تعلیمی ادارے بھی ہمارے ساتھ منسلک ہیں۔ ملک کے صفِ اول کے آئی ٹی ٹریننگ انسٹی ٹیوٹس ہمارے ساتھ موجود ہیں۔کیونکہ آئی ٹی کی سکِلز ایسی ہیں جن کو نوجوان سیکھ کر دو سو سے تین سو ڈالرز آسانی سے کما سکتے ہیں۔

ہم لوگوں کو کہتے ہیں کہ وہ بچے ، بچیاں جو میڑک ، ایف اے کر چکی ہیں ان کی آئی ٹی ٹریننگ کو سپانسر کردیں۔ کیونکہ جب بچہ سیکھ کر پیسے کمانا شروع کرتا ہے تو فیملی غربت سے با ہر آتی ہے۔ اور دوسرا پاکستان کی آئی ٹی ایکسپورٹ آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے۔ آپ سوچیں ذرا کہ اگر آپ ایک ملین بچوں کو ٹریننگ دے دیں تو آپ پاکستان کی آمدنی میں فری لانسنگ کے ذریعے بلین ڈالرز کا اضافہ کر سکتے ہیں۔ پھر پاکستان کے تین سے زائد مقبول، مستند اور بڑے تعلیمی نیٹ ورکس ہیں ا ن کے ساتھ ہمارے ایم او یوز سائن ہو چکے ہیں۔ دیگر نیٹ ورکس کے ساتھ بھی بات ہو رہی ہے کہ وہ بھی ہماری ایپ پر آ جائیں تاکہ ان سکولوں میں پڑھنے والے کسی بھی بچے کو سپانسر کر سکیں۔ پھر گروسری اسٹورز پورے پاکستان میں ہماری ایپ پر آ چکے ہیں۔ پنجاب تو سارا ہی کَور ہو چکا ہے۔ لاہور میں تو پچاس ، ساٹھ گروسری اسٹورز ہیں۔

دور دراز علاقوں بلوچستان، گللگت، آزاد کشمیر میں ہمارے ساتھ گروسری اسٹورز ہیں۔ جب آپ کسی کو بھی گروسری دیتے ہیں، کہیں دور علاقے میں رہتا ہے، ہمار ے پاس پورا یک کال سینٹر ہے۔ ہم اس Impactee کو کہتے ہیں کہ قریب کے دکاندار سے ہماری بات کرواؤ تو ہم اس دکاندارکو فوری طورپر اپنے پاس ایڈ کر لیتے ہیں تاکہ وہ ہمارے پینل میں آجا ئے۔ا س طرح ہم نے پور ے پاکستان میں سکولز، گروسری سٹورز کے ساتھ ایک نیٹ ورک بنایا ہوا ہے۔ مستقبل میں ہم اس میں ڈاکٹرز، پیتھالوجی لیبز، فارمیسیز کو بھی شامل کرلیں گے۔ 

سوال: کیا پاکستان سے باہر مقیم کوئی پاکستانی ، پاکستان میں اس ایپ کو استعمال کرتے ہوئے کسی کو سپانسر کرسکتا ہے؟

جواب: اس وقت ہمارے پاس انیس ممالک سے عطیات آ رہے ہیں۔ ان میں امریکہ ، انگلینڈ، کینیڈا اور نیپال بھی شامل ہے۔ پوری دنیا سے لوگ ہمیں عطیات بھیجتے ہیں۔ انٹرنیشنل پیمینٹ گیٹ وے کے ذریعے دنیا بھر سے کہیں سیبھی عطیات بھیجے جا سکتے ہیں۔ مسقبل میں ہم اس ایپ کو گلوبل کردیں گے۔ تو دنیا بھر کی این جی اوز اور ڈونرز اس ایپ کے ذریعے عطیات اور سماجی بہتری کا کام کر سکیں گے۔

Load Next Story