روبینہ بلوچ۔۔۔۔۔ عورتوں کے لیے ایک روشن مثال
آپ کو وطن عزیز میں کراچی، لاہور یا دیگر بڑے شہروں میں کاروبار کرتی خواتین نظر آتی ہیں تو یہ عام سی بات ہے لیکن اگر آپ کو یہ بتایا جائے کہ بلوچستان کے ضلع گوادر کے علاقے ’’کنٹانی ہور‘‘ میں ایک نوجوان خاتون ہزاروں مردوں کے درمیان اپنا کاروبار کر رہی ہے تو آپ کتنے حیران ہوں گے اور اگر آپ کو یہ بتایا جائے کہ ان خاتون نے پاکستان، ایران تجارتی راہ داری کے لیے ایک ٹرانسپورٹ سروس بھی شروع کررکھی ہے جس کی مدد سے وہ چھوٹے پیمانے پر تجارت بھی کرتی ہیں تو آپ ان کے عزم و حوصلے کی داد دیے بغیر رہ سکیں گے ؟
جی ہاں! یہ کہانی ہے گوادر کے علاقے ’’کنٹانی ہور‘‘ میں چھے مرد ورکروں کے ساتھ ’’باجی ٹرانسپورٹ‘‘ سروس کی مالکن روبینہ بلوچ کی جو اسکول تو کبھی نہیں گئیں مگر وہ کاروبار کام یابی سے کررہی ہیں۔
’’میں کبھی اسکول نہیں گئی، لیکن کاروباری سوجھ بوجھ رکھتی ہوں، حساب کتاب کرنا مجھے اچھی طرح آتا ہے۔‘‘ روبینہ بلوچ نے یہ بات اپنی کمپنی کے ورکرز کو معمول کی ضروری ہدایات دینے کے بعد بتائی۔ ساحلی علاقے میں روبینہ بلوچ ہمت و عزم کے ساتھ کام کر رہی ہیں اور کہتی ہیں:’’گوادر میں تعلیم کی ڈگری رکھنے والی خواتین دس پندرہ ہزار روپے کی نوکری کے لیے یہاں وہاں بھاگتی پھرتی ہیں لیکن میں نے اس کے برعکس چھوٹے پیمانے پر اپنا کاروبار کرنے کو ترجیح دی اور آج میرے پاس 6 مرد مزدور کام کرتے ہیں۔ اپنے گھر سے کوسوں دور ہزاروں مردوں کے درمیان ایک اکیلی عورت کے لیے کام کرنا کتنا مشکل ہے یہ صرف میں جانتی ہوں لیکن یہ میری مجبوری ہے، میری طرح ایسی بہت سی خواتین ہیں جو کسی پر بوجھ بننا نہیں چاہتیں، کام کرنا چاہتی ہیں لیکن وہ باہر نکلنے سے ڈرتی ہیں اُنھیں بالکل بھی ڈرنا نہیں چاہیے۔‘‘
گوادر کے سی پیک منصوبے
روبینہ بلوچ کا تعلق بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر سے ہے اور گوادر پاکستان کا وہ شہر ہے جہاں چین نے سی پیک منصوبے کے تحت 24 کروڑ ڈالر کی مالیت سے سال 2002 میں گوادر پورٹ بنانے کی بنیاد رکھی تھی، 2007 میں سابق صدر جنرل پرویزمشرف نے اس پورٹ کا باقاعدہ افتتاح کیا تھا اور حکومت پاکستان نے سال 2013 میں گوادر پورٹ کا کنٹرول مکمل طور پر چین کے حوالے کردیا تھا۔
حکومتی اعدادوشمار کے مطابق چین سی پیک منصوبوں پر تقریباً 65 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ گوادر کی پینتیس سالہ روبینہ بلوچ گوادر شہر سے 82 کلو میٹر دور پاک ایران سمندری بارڈر ’’کنٹانی ہور‘‘ اپنا کاروبار کر رہی ہیں۔
کنٹانی میں کتنے لوگ برسر روزگار ہیں
مقامی بیوپاریوں کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق ’’کنٹانی ہور‘‘ میں لگ بھگ 6000 کے قریب لوگ مزدوری کر رہے ہیں جن میں صوبہ سندھ کے شہر سانگھڑ، جام شورو، لاڑکانہ اور خیبرپخونخوا سمیت اندرون بلوچستان کے لوگ بھی شامل ہیں لیکن یہاں جو اصل بیوپاری ہیں اُن کا تعلق ضلع گوادر سے ہے جن میں ’’باجی ٹرانسپورٹ‘‘ کی مالکن روبینہ بلوچ بھی شامل ہے۔
گوادر میں خواتین کی آبادی
ادارہ شماریات پاکستان کی حالیہ مردم شماری 2023 میں ضلع گوادر کی آبادی 3 لاکھ پانچ سو کے قریب بتائی گئی ہے جس میں خواتین کی تعداد 144.385 ہے اور زیادہ تر تعداد اُن خواتین کی ہے جو گھروں میں رہتی ہیں اور گھریلو زندگی گزارنے کے ساتھ بلوچی دست کاری کا کام بھی کرتی ہیں، جب کہ بہ مشکل 10فی صد خواتین ایسی ہیں جو مقامی مچھلی کی پیکنگ اور پروسیس کمپنیوں میں کام کرتی ہیں۔
بلوچستان میں خواتین کے لیے دست کاری سینٹروں کی صورت حال
حکومت بلوچستان کا دعویٰ ہے کہ اُس نے گھریلو خواتین کو ہنرمند بنانے کے لیے بلوچستان بھر میں ووکیشنل سینٹر بنائے ہیں جہاں سے خواتین ہنرمند ہوکر اپنے گھر میں بیٹھ کر اپنی آمدنی میں اضافہ کے ساتھ باعزت روزگار سے منسلک ہیں۔ دوسری طرف سوشل ویلفییر ڈیپارٹمنٹ گوادر کے افسران نے ضلع گوادر کی چاروں تحصیل میں ووکیشنل سینٹر بنانے کا دعویٰ کیا ہے۔ تاہم یہ تمام سینٹر غیرفعال ہیں اور اس پر طرہ یہ کہ ان ووکیشنل سینٹرز کی اپنی کوئی ذاتی عمارت موجود نہیں ہے۔
سی پیک منصوبوں میں گوادر شہر کے اندر 10ملین ڈالر کی لاگت سے چین نے ’’پاک چائنا ووکیشنل سینٹر‘‘ تعمیر کیا ہے۔ گوادر ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (جی ڈی اے) کے مطابق پاک چائنا ووکیشنل سینٹر میں تقریباً 249 اسامیاں ہیں، جن میں مقامی لوگوں کے لیے 135 اسامیاں موجود ہیں، لیکن اس بڑے ووکیشنل سینٹر میں ضلع گوادر کی گھریلو خواتین کو ہنرمند بنانے کے لیے کوئی ایک بھی شعبہ موجود نہیں ہے۔ حکومت بلوچستان نے اپنے مالی سال 2023/24 کے بجٹ میں سوشل ویلفییر کے شعبے کی ترقی کے لیے 92 کروڑ روپے مختص کیے تھے جب کہ غیرترقیاتی مد میں 2 ارب 55 کروڑ روپے مختص کیے گئے۔ بجٹ اجلاس کے دوران بتایا گیا تھا کہ سال 2023 میں بلوچستان بھر میں خواتین کو ہنرمند بنانے کے لیے3527 دست کاری مشین تقسیم کی گئیں۔
اس حوالے سے اسسٹنٹ سوشل ویلفییر آفیسر پسنی صائمہ بلوچ بتاتی ہیں: ’’ادارے کی جانب سے اُنھیں دست کاری کی صرف دس مشینیں دی گئیں ہیں لیکن ان مشینوں کے لیے نہ ہمارے پاس دھاگا موجود ہے اور نہ ہی فرنیچر دست یاب ہے۔ ہمیں یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ ہمارے سینٹر کے لیے سالانہ کتنی گرانٹ منظور ہوتی ہے اور وہ کہاں استعمال ہوتی ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ ہم ان مشینوں کو رننگ پوزیشن میں لائیں لیکن ہمارے پاس دست کاری سینٹر موجود نہیں ہے اور نہ ہی ہمیں کوئی بجٹ فراہم کیا گیا ہے جس کو استعمال میں لاکر دست کاری سینٹر فعال بناسکیں۔ گھریلو خواتین دست کاری کا کام سیکھنا چاہتی ہیں لیکن اُنھیں مواقع میسر نہیں۔‘‘
حکومت بلوچستان اپنے ہر مالی سال کے بجٹ میں سوشل ویلفییر سیکٹر کو فعال بنانے کے لیے اربوں روپے مختص کرتی ہے لیکن بلوچستان میں گھریلو خواتین کی صورت حال انتہائی ناگفتہ ہے، خواتین گھروں میں بیٹھ کر معمولی اجرت پر بلوچی کشیدہ کاری کرتی ہیں جب کہ اندرون بلوچستان خواتین انتہائی کس مپرسی کی زندگی گزار رہی ہیں اور اُن کا گزر بسر صرف لکڑیاں چننے پر منحصر ہوکر رہ گیا ہے، حالاں کہ حکومتی دعوے اس کے برعکس ہیں۔
گھریلو خواتین کے لیے حکومتی دعوے
وزارت صنعت و حرفت بلوچستان کی جانب سے 2019 کی جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق بلوچستان کی خواتین کو ہنرمند بنانے کے لیے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں 65 کے قریب ٹریننگ سینٹر بنائے گئے ہیں جہاں 2750 خواتین قالین بُنائی، 450 کو بلوچی کشیدہ کاری، 500 خواتین کو لیدر (چمڑے) کی سلائی اور کشیدہ کاری جب کہ 375 خواتین کو کپڑے کی کٹنگ اور سلائی کا ہنر سکھایا گیا ہے۔ 200 خواتین کو لکڑی کی کٹائی 225 خواتین کو ماربل کی کٹنگ اور 1500 کے قریب خواتین کو مختلف ہنر سکھائے گئے جو اِس وقت اپنے علاقوں میں وومن بزنس کے ذریعے معاشی طور پر خوش حال زندگی گزار رہی ہیں۔
بلوچستان کے اندر نجی ڈویلپمنٹ سیکٹر:
بلوچستان کے اندر ڈیویلپمنٹ سیکٹر میں کام کرنے والی تنظیمیں بھی خواتین کو ہنرمند بنانے کی دعوے دار ہیں اور کوئٹہ شہر میں تین وومن چیمبرز کام کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ’’بلوچستان وومن بزنس ایوسی ایشن‘‘ (BWBA) کے نام سے خواتین کے لیے ایک پلیٹ فارم کی تشکیل بھی کی گئی جس کی 300 خواتین ممبرز ہیں لیکن سب غیرفعال ہیں۔
گوادر میں ’’رژن زالبول سوشل اینڈ ووکیشنل ٹریننگ سینٹر گوادر‘‘ کی چیئرپرسن بی بی زیتون عبداﷲ کافی عرصے سے ڈیویلپمنٹ سیکٹر میں کام کر رہی ہیں اور ان کے دست کاری سینٹر سے اب تک 200 سے زاید خواتین مکمل ہنرمند ہوچکی ہیں۔ اس حوالے سے اُن کا کہنا ہے:’’خواتین کو اتنا ہنرمند بنایا جائے جس سے اُن کا اعتماد بحال ہو اور وہ اپنی اور اپنے خاندان کے لیے معاون ثابت ہوں۔ ہمارے معاشرے میں خواتین کو مردوں کے ساتھ کام کرنے میں بہت سی مشکلات کا سامنا ہے، خاص کر غیر یا کم تعلیم یافتہ خواتین مردوں کے درمیان خود کو غیرمحفوظ محسوس کرتی ہیں اور بہت سی خواتین کو اُن کی فیملی کی طرف سے باہر جاکر کام کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ لیکن ہمیں چاہیے کہ ہم گھریلو خواتین کو وومن بزنس کی طرف لے آئیں ہمارے پاس سب سے بڑا اسکوپ ہماری ثقافتی لباس یعنی ’’بلوچی دوچ‘‘ ہے جسے پروموٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ یورپ اور عرب ممالک میں اُس کی بہت مانگ ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ دست کاری سینٹرز کو فعال بنایا جائے۔‘‘
ان کا کہنا ہے:’’ہمیں چاہیے کہ اپنی خواتین کو ہنرمند بنا کر پھر انھی سے ہم کام لیں اور ان کی مارکیٹ یا کہ باہر سے روابط کاری بنائیں، جس سے وومن بزنس کو سپورٹ ملے گا اور خواتین معاشی طور پر مستحکم ہوں گی۔‘‘
بلوچ معاشرے میں خواتین کے باہر نکلنے اور کام کرنے پر پابندی کے سوال پر ضلع گوادر سے تعلق رکھنے والی بلوچ خاتون صحافی ہزاران رحیم داد کہتی ہیں:’’صرف بلوچ معاشرہ نہیں دنیا کے بہت سی معاشرے ایسی ہیں جہاں خواتین کو طرح طرح کی پابندی کا سامنا ہے اور وہاں کا سماجی بیانیہ یہ ہے کہ جو خواتین گھروں سے باہر نکلتی ہیں وہ پھر دوبارہ گھر کے قابل نہیں رہتیں لیکن یہ ایک غلط سوچ ہے اور اس سوچ کے خلاف روبینہ بلوچ جیسی بہت سے باہمت خواتین نے ہمیشہ مزاحمت کی ہے اور باہر نکل کر وومن بزنس کو پروموٹ کیا ہے۔‘‘
کام کے دوران خواتین کو درپیش مسائل
صحافی ہزران رحیم داد بتاتی ہیں:’’آج دوسرے سماجوں کی طرح بلوچ سماج میں بھی خواتین ہر شعبے میں کام کرنے کے لیے گھروں سے باہر نکل رہی ہیں اور سماجی پابندی کے اس بیانیے کو رد کر رہی ہیں کہ عورت صرف گھر کے لیے ہے۔ یہ بات درست ہے کہ دوران کار خواتین کو کچھ مسائل کا سامنا ہمیشہ سے رہا ہے، یعنی خواتین کو صنفی تعصب کی بنیاد پر اُجرت کم دی جاتی ہے اور ساتھی مرد ورکروں کے مقابلے میں اُنھیں ہر وقت کم زور سمجھا جاتا ہے اور طعنہ دیا جاتی ہے کہ وہ مردوں کے برابری نہیں کر سکتیں لیکن روبینہ بلوچ جیسی بلوچ خاتون کے پاس چھے مرد مزدوری کر رہے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ عورت اگر باہمت ہو تو وہ بہترین مینیجمنٹ کرسکتی ہے۔‘‘
’’کنٹانی ہور‘‘ میں کام کرنے والی روبینہ بلوچ کہتی ہیں کہ کاروبار کرنے کے لیے جب وہ پہلی بار کنٹانی ہور آئیں تو یہاں پر کام کرنے والے مردوں نے اُنھیں ہراساں کرنے کی کوشش کی۔ اُنھیں عجیب نظروں سے دیکھا گیا اور یہاں تک کہ یہ بھی کہا گیا کہ یہ عورت ٹک نہیں پائے گی اور بہت جلد یہاں سے بھاگ جائے گی، لیکن میرے حوصلوں نے مجھے ثابت قدم رہنے میں قوت عطا کی اور آ ج میں چھے ہزار مردوں کے درمیان اکیلی کام کررہی ہوں۔
روبینہ بلوچ کی کہانی صرف ایک عورت کی کہانی نہیں بلکہ وہ بلوچستان میں باعزت روزگار کمانے کی خواہش مند خواتین کے لیے ایک مثال بھی ہے۔