جامعات کی خودمختاری اور شفافیت کا عمل
کسی بھی ریاستی نظام میں تعلیم کو بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے ۔اسی بنیاد پر حکومتی اور معاشرتی نظام کی ترقی کا عمل جڑا ہوتا ہے ۔
آج کی جدید دنیا میں اعلیٰ تعلیم سے جڑے معیارات میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں رونما ہوچکی ہیں اور ماضی کی روائتی تعلیم کے بجائے آج کے جدید تعلیمی تصورات تبدیل ہورہے ہیں ۔ جو ریاستی نظام اپنی اعلیٰ تعلیم کے معیارات کو جدید دنیا سے جوڑ کر داخلی ترقی واصلاحات پر توجہ دے رہا ہے اس کے لیے عملی و فکری میدان میں ترقی کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔
خاص طور پر ہم نے اپنی اعلیٰ تعلیم کے معیارات کو عملی طور پر کیسے تحقیق کے میدان سمیت مارکیٹ کی ضرورت اور تربیت سمیت مختلف نوعیت کی صلاحیتو ں کے ساتھ جوڑنا ہے یہ ہی اس وقت ایک بڑا چیلنج اعلیٰ تعلیم سے جڑے ماہرین اور فیصلہ ساز لوگوں کے سامنے ہے ۔
یہ ہی وہ اعلیٰ تعلیم کے ادارے ہوتے ہیں جو معاشرے کی سطح پر ایک متبادل سوچ کو فروغ دیتے ہیں یا ترقی کا ایک مختلف متبادل بیانیہ پیش کرتے ہوئے جامعات کی فکری ،عملی آزادیوں و اظہار کو بھی یقینی بناتے ہیں۔ اس کی بنیادی کنجی جامعات کی سطح پر جہاں تعلیم و تحقیق اور آزدانہ سوچ کے لیے سازگار ماحول ہوتا ہے وہیں جامعات کی داخلی خودمختاری اور سیاسی مداخلتوں سے پاک ماحول بھی ہوتا ہے ۔
یہ نہیں کہ ہمارے جیسے ملکوںمیں پڑھے لکھے افراد یا جامعات کو چلانے کا تجربہ رکھنے والے اہم افراد کی کمی ہے بلکہ جامعات کی سطح پر سیاسی مداخلتوں کا ماحول ہے ۔ایک طرف مرکزی اور صوبائی حکومتیں ہیں تو دوسری طرف ریاستی ادارے سمیت ایک بڑی مضبوط بیوروکریسی ہے جو تمام تر معاملات کو اپنے کنٹرول میں رکھ کر جامعات کی داخلی خود مختاری کو چیلنج کرتی ہیں ۔
وائس چانسلرز کی تقرری کے نظام کو دیکھیں تو اس میں ہمیں ہر سطح پر حکمران طبقات کی مداخلت کا غلبہ نظر آتا ہے ۔سرچ کمیٹی کی جانب سے تجویز کردہ وائس چانسلرز کے ناموں پر بھی صوبائی وزیراعلیٰ،گورنر اور سیکریٹری ہائر ایجوکیشن ان کو نہ صرف چیلنج کرتے ہیں بلکہ یہ عمل بھی دیکھا جارہا ہے کہ حتمی انٹرویوز کے لیے تجویز کردہ وائس چانسلرکو وزیر اعلیٰ کے سامنے بھی انٹرویو کے لیے پیش کیا جاتا ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ میرٹ کے مقابلے میں سیاسی بالادستی یا کنٹرول کی اہمیت بڑھ گئی ہے ۔
حکومت یا بیوروکریسی سمجھتی ہے کہ جامعات کی سطح پر اپنا کنٹرول کرنے کے لیے وائس چانسلر کی تقرری کے اختیار کو خود تک محدود کیا جائے اور وائس چانسلر پر یہ ڈر اور خوف موجود ہو کہ اس کی اصل تقرری کا اختیار سرچ کمیٹی کے مقابلے میں وزیر اعلیٰ کے ہاتھ میں ہے ۔
جامعات کو شفافیت اور انتظامی سمیت اعلیٰ تعلیم کے معیارات سے جوڑنے اور اساتذہ اور طلبہ کے درمیان باہمی رشتوں کو قائم کرنے اور نئی سے نئی تحقیق پر توجہ دینے میں یقینی طور پر وائس چانسلر کا کردار یا اس کی عملی لیڈر شپ اہم نقطہ ہے ۔میرٹ اپنی جگہ لیکن اس کی قیادت کی صلاحیتیں بھی اہمیت رکھتی ہیں ۔
لیکن اگر ہم وائس چانسلر کے لیے میرٹ اور اس کی صلاحیتوں کی بنیاد پر بھی اس کی تقرری کو یقینی بنالیں تو بھی اس کی جامعات کی سطح پر خود مختاری کو یقینی بنائے بغیر کوئی بڑی تبدیلی اعلیٰ تعلیم کے میدان میں ممکن نہیں ہوگی۔وائس چانسلر کا کام اگر یہ ہی بنادیا جائے کہ وہ جامعات کے داخلی معاملات میں بہتری پیدا کرنے کے بجائے اپنی توجہ کا مرکز حکومت اور مضبوط بیوروکریسی یا وزرا سمیت ارکان اسمبلی تک محدود کردے تو پھر اس کی شفافیت کا عمل متاثر ہوتا ہے ۔
اسی طرح حکومتی فیصلہ کہ جامعات کی سطح پر موجود سنڈیکیٹ میںحکومتی ارکان اسمبلی کی شمولیت بھی سیاسی مداخلت کا دروازہ کھولنے کا سبب بنتا ہے۔جب وائس چانسلر کو یہ پیغام دے دیا جائے کہ اصل طاقت کا مرکز حکومت ہے اور ان کو ان ہی کے کنٹرول یا فیصلوں کی بنیاد پر آگے بڑھنا ہے تو اس کو آزادانہ فیصلوں سے روکا جاتا ہے یا وائس چانسلرز کے متوقع افراد حکومتی طاقت کے مراکز تک محدود ہوجاتے ہیں ۔
بدقسمتی سے یہ مسئلہ محض تعلیم تک محدود نہیں بلکہ حکمرانی کے کھیل نے سارے نظام کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور اقرباپروری کو بنیاد بنا کر فیصلہ کرنے سے اداروں کی اپنی خودمختاری کو چیلنج کیا جارہا ہے ۔ایک طرف سرکاری جامعات سے جڑے مسائل تو دوسری طرف ہمیں نجی جامعات یعنی پرائیویٹ سیکٹر کی سطح پر موجود جامعات کا بحران نظر آتا ہے ۔ریگولیٹری یا نگرانی اور شفافیت کو جانچنے والے ادارے یا ان کو احتساب اور جوابدہی میں لانے والے ادارے خود بھی عدم شفافیت کا شکار ہیں ۔
حکومتی سطح پر جامعات کی شفافیت پر توجہ دینے کے لیے وفاقی اور صوبائی ہائر ایجوکیشن کمیشن تشکیل دیے گئے ۔لیکن وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی مداخلت ، وفاقی اور صوبائی ہائر ایجوکیشن کے اپنے اندر موجود تضادات سمیت بیوروکریسی کے حد سے بڑھتے ہوئے کنٹرول نے ہائر ایجوکیشن کے نظام کی اہمیت ہی کم کردی ہے اور یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ وفاقی و صوبائی ہائر ایجوکیشن کے سربراہ بیوروکریسی کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں ۔
اسی طرح ایک فکری مغالطہ سے بھی نکلنے کی ضرورت ہے کہ جامعات کو بیوروکریسی یا کوئی بڑے محکمے کا انتظامی سربراہ بہتر طور پر چلاسکتا ہے ۔جامعات کی سطح کو چلانے کے لیے ہمیں اعلیٰ ماہرین تعلیم چاہے وہ ریٹائرڈ ہوں اور جن کی اعلیٰ تعلیم سے جڑے معاملات یا جدید تعلیمی تصورات پر نظر ہو ان کی مشاورت کی سطح پر خدمات کو یقینی بنا کر نظام میں بہتری لائی جاسکتی ہے ۔
کیونکہ مسئلہ محض جامعات کا انتظامی صلاحیتوں کا نہیں بلکہ حکومتی نظام کو درپیش چیلنجز سے نکلنے کے لیے ایک متبادل علم و تحقیق اور نئے بیانیہ کی ضرورت ہے ۔یہ کام وہی کرسکتا ہے جو تعلیم وتحقیق کا بندہ ہو اور اسے دنیا میں ہونے والی جدید تعلیم پر دسترس ہو یا وہ اس کا سماجی اور علمی شعور رکھتا ہو۔اسی طرح ہم نے گورنرز کے بجائے اب جامعات کے فیصلوں میں وزیر اعلیٰ کو زیادہ خود مختار بنادیا ہے جو یقینی طور پر سیاست اور سیاسی فیصلوں کو دعوت دیتا ہے ۔
ہمیں اصولی طور پر وائس چانسلرز کو زیادہ سے زیادہ سیاسی ،انتظامی اور مالی خود مختاری دینی چاہیے اور ان کو اس خود مختاری کے ساتھ پابند کرنا ہوگا کہ وہ اپنی کارکردگی سے ثابت کریں اور جامعات کے معیارات میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیوں کی مدد سے اعلیٰ معیارات قائم کریں اور جو بھی وائس چانسلر اس خود مکمل خود مختاری کے ساتھ اپنی کارکردگی کو ثابت نہ کرے تو درمیانی مدت کے بعد اس کی جوابدہی کا نظام ہو اوروہ ہر سطح پر جوابدہ ہو کہ وہ کیونکر اپنی طے کردہ کارکردگی کے معیارات کو قائم نہیں کرسکا ۔
آج کل جامعات دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ مالی سطح کے مسائل سے بھی دوچار ہیں ۔اول تو حکومت کو اعلیٰ تعلیم و تحقیق پر مالی وسائل میں اضافہ کرنا چاہیے اور ہائر ایجوکیشن کے بجٹ میں کٹوتی کی جگہ اس میں اضافہ ہونا چاہیے۔لیکن لگتا ہے کہ ہم حکومتی سطح پر اعلیٰ تعلیم پر دعوے تو بہت کرتے ہیں مگر وسائل میں اضافہ کرنے کے بجائے اس میں مسلسل کمی کررہے ہیں ،دوئم وائس چانسلرز کو بھی یہ خود مختاری دی جائے کہ وہ اپنے مالی وسائل میں خود سے اضافہ کریں اور ایسے غیر معمولی اقدامات کو یقینی بنائیں جو ان کے مالی وسائل میں اضافہ کا سبب بن سکے ۔
خاص طور پر جامعات کو یہ خود مختاری دی جائے کہ وہ اپنی اپنی جامعات کی سطح پر تین شفٹوں میں یعنی صبح ، دوپہر اور شام کی کلاسز کا اجرا کریں تاکہ عام آدمی کو ان سرکاری جامعات کی سطح پر تعلیم حاصل کرنے کے مواقع مل سکیں اور ان پر جو نجی شعبوں کی فیسوں کا بوجھ ہے اس کو بھی کم کیا جاسکے۔ ہمیں اپنے موجودہ یونیورسٹی ایکٹ میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں درکار ہیں ۔کیونکہ جامعات کی سطح پر موجود اہم تقرریوں پر حکومتی مداخلت کم اور وائس چانسلرز کا اختیار زیادہ ہونا چاہیے۔
لیکن یہ کام سیاسی تنہائی میں نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس میں سابق وائس چانسلرز، ماہرین تعلیم ،اعلیٰ تعلیم کا وسیع تجربے رکھنے والے افراد جن میں سول سوسائٹی سمیت یونیورسٹی اساتذہ ، اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن سے بات چیت کی جائے اور اس اہم مسئلہ پر مختلف نوعیت پر مبنی مکالمہ اور ڈائیلاگ کا اہتمام کیا جائے تاکہ جو کچھ بھی فیصلہ ہو اس میں سب کی رائے اور اتفاق عمل کی جھلک نمایاں نظر آنی چاہیے۔
یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اگر ہم نے واقعی اعلیٰ تعلیم کے معیارات میں داخلی اور خارجی محاذ پر کچھ کرکے اپنی عالمی اور ملکی ریٹنگ کو موثر بنانا یا اس میںاپنی شفافیت پیدا کرنی ہے تو کچھ غیر معمولی اقدامات کی طرف اپنی پیش رفت کو آگے بڑھانا ہوگا۔