مظلوم عورت

پاکستانی عورت کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ مرد کی کمائی پر انحصار کرنا پڑتا ہے

S_afarooqi@yahoo.com

دنیا میں ہر سال عورتوں پر تشدد کے موضوع پرکئی روزہ پروگرام ترتیب دیا جاتا ہے لیکن ایک تلخ سوال یہ ہے کہ کیا ہم صنفی بنیاد پرکی جانے والی تفریق کے خاتمے کی جانب پیش رفت کر رہے ہیں یا ہم محض دن مناتے ہیں اور عملاً کچھ بھی نہیں ہو رہا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم خواتین کے خلاف صدیوں سے ہونے والے تشدد کا خاتمہ کرسکیں گے یا ہماری یہ کوششیں صرف رسومات کے سوائے اورکچھ بھی نہیں۔

 سچی بات یہ ہے کہ اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ ہماری کاوشیں خام خیالی سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔ کروڑوں مظلوم عورتیں تکالیف کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہیں اور ان کی فریاد سننے والا کوئی نہیں ہے۔ چکی میں پستے رہنا ان کا مقدر ہے۔ خواتین پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے جا رہے ہیں اور ان کی آہیں اورکراہیں صدا بہ صحرا ہیں۔ کوئی نہیں بتا سکتا کہ یہ لامتناہی سلسلہ کب تک جاری رہے گا۔ ستم کی یہ سیاہ رات کب ختم ہوگی یا کبھی ختم نہیں ہوگی۔

 اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں ہر 11 منٹ کے بعد ایک عورت قتل ہو رہی ہے۔ پاکستان میں کارو کاری کا فرسودہ نظام صدیوں پرانا ہے۔ عورت فاؤنڈیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق 2020 میں عورتوں پر تشدد کے 11000 سے زائد کیس درج کیے گئے۔ کاروکاری کے حوالے سے غالبؔ کا یہ شعر ذہن میں آتا ہے۔

پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق

آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا

تشدد کے معاملات کی بیشتر وجوہات گھریلو تھیں جس میں آبرو ریزی اور اجتماعی زیادتی شامل ہیں۔ یہ تعداد بظاہر بہت بڑی لگتی ہے لیکن اصل حقائق کی تعداد ہوش اڑا دینے والی ہے۔

تازہ ترین واقعہ یہ ہے کراچی کے علاقہ سعید آباد میں ایک شوہر نے اپنی بیوی جو اسکول میں پڑھاتی تھی نہایت سفاکی سے قتل کردیا۔ اس کے تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود وہ زیادتی کا نشانہ بن گئی۔ اس کے والد نے انکشاف کیا کہ اس کی معصوم بیٹی جہیز کے مطالبے کے نتیجے میں قتل کردی گئی۔ مفلسی کے دام میں پھنسے ہوئے لوگوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ درحقیقت یہ ہمارے معاشرے کا بہت بڑا المیہ ہے۔

پاکستان میں اس سنگین صورتحال کا بنیادی سبب یہ ہے کہ بیچاری عورت کو کوئی تحفظ حاصل نہیں ہے اور وہ بیچاری حالات کے رحم وکرم پر ہے۔ خلع اور طلاق کے واقعات میں روز بروز اضافہ عائلی زندگی کی پیچیدگی کا مظہر ہیں۔ زر پرستی نے زندگیوں کو جہنم بنا کر رکھ دیا ہے۔ سب سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ اقدار کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے اور دینی ہدایات کے معنی اور مطالب کی اپنی مرضی کے مطابق تشریح کی جا رہی ہے۔

 پاکستانی عورت کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ مرد کی کمائی پر انحصار کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے اس کی حیثیت لونڈی یا باندی جیسی ہوتی ہے۔ اگرچہ عورت کے تحفظ کے لیے قوانین موجود ہیں لیکن ان کے نفاذ کا بھی وہی حال ہے جو دوسرے قوانین کا ہے۔ عدالتوں میں جا کر دیکھیے تو مردوں کے ظلم و ستم کی نشانہ بننے والی خواتین کی کافی بڑی تعداد نظر آئے گی جو بیچاری دھکے کھاتی پھرتی ہیں۔ مقدمے بازی کے اخراجات برداشت کرنے کے لیے انھیں جوں توں کرکے رقم کا بندوبست کرنا ہوتا ہے۔

عورت نے جنم دیا مردوں کو مردوں نے اسے بازار دیا

جب جی چاہا مسلا کچلا جب جی چاہا دھتکار دیا

ساحرؔ لدھیانوی نے اپنی نظم میں مظلوم عورت کی جو تصویر کشی کی ہے اسے پڑھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ تصویرکا یہ ایک رخ ہے جب کہ دوسرا رخ وہ ہے جس میں مولانا الطاف حسین حالیؔ نے عورت کی عظمت کو بیان کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں۔

اے ماؤ، بہنو، بیٹیو! دنیا کی زینت تم سے ہے

ملکوں کی بستی ہو تم ہی، قوموں کی عزت تم سے ہے

Load Next Story