مقبرہ بی بی مائی صاحبہ
سابق ریاست بہاولپور کے تاریخی شہر خانپور میں ایک خوب صورت مقبرہ ہے جسے تاریخی ورثے کی حیثیت حاصل ہے۔ یہ مقبرہ شہر کے سب سے قدیم قبرستان جٹکی بستی کے جنوبی سِرے پر ہے۔ اس مقبرے کو ہم گم نام مقبرہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ گم نام اس لیے کہ یہاں کون دفن ہے یہ تو ہم جانتے ہیں لیکن ان کے نام کیا ہیں اس حوالے سے تاریخ بھی خاموش ہے۔
تاریخی اہمیت؛ یہ مقبرہ جِسے لوگ مقبرہ بی بی مَائی صَاحبہ کے نام سے جانتے ہیں دراصل اُن کے والدین کا مقبرہ ہے جس میں کچھ دیگر رشتے دار بھی دفن ہیں۔
بی بی مائی صاحبہ جن کا اصل نام ’’کُندن بی بی‘‘ بتایا جاتا ہے۔ آپ سابق ریاست بہاول پور کے آخری نواب سر صادق محمد خان عباسی پنجم کی دادی نواب بہاول خان عباسی پنجم کی والدہ اور نواب صبح صادق خان عباسی کی زوجہ تھیں جن کا تعلق خان پور کٹورا سے تھا۔ مائی صاحبہ مرحومہ کا اپنا مقبرہ چولستان میں ڈیراور کے شاہی قبرستان کے باہر موجود ہے۔
کہتے ہیں کہ خان پور سے تعلق رکھنے والی یہ بی بی بہت خدا ترس اور غریب پرور قسم کی خاتون تھیں جنہوں نے نواب خاندان میں شادی کے بعد بھی اپنے شہر اور رشتہ داروں کو یاد رکھا۔ آپ نے اپنے والدین کے لیے نہ صرف یہ مقبرہ تعمیر کروایا بلکہ شہر میں موجود کچھ زمین بھی وقف کی جس پر بعد میں ایک بڑی مسجد تعمیر کی گئی جو اب مسجد بی بی مائی صاحبہ کے نام سے مشہور ہے اور محلہ صدی وال میں واقع ہے۔
مقامی تاریخ دانوں کے مطابق اس مقبرے کا سنِ تعمیر 1886 ہے جب کہ پاکستان کے مشہور سیاح اور لکھاری جناب سلمان رشید کے مطابق یہ مقبرہ 1870 یا 1880 کی دہائی میں تعمیر کیا گیا ہوگا، یعنی یہ مقبرہ لگ بھگ ایک سو تیس سال پرانا ہے۔
مقبرے کے اندر ایک چبوترے پر چھے قبریں ہیں جن پر کوئی کَتبہ موجود نہیں، اس لیے حتمی طور پر یہ کہنا مشکل ہے کہ بی بی صاحبہ کے والدین کی قبور کون سی ہیں۔ البتہ ہوسکتا ہے کے دو کونے والی بڑی قبور ان کی ہوں۔ ان میں سے چند قبروں پر ماضی کے نقش و نگار مدھم پڑتے دکھائی دیتے ہیں۔
طرزتعمیر؛ اگر مقبرے کے طرزِتعمیر کی بات کی جائے تو یہ مقبرہ اندرونی طور پر ہشت پہلو ہے۔ یعنی اس کے آٹھ کونے ہیں۔ ہر پہلو کے ہر حصے پر آٹھ محرابیں بنی ہوئی ہیں جو دو منزلہ ہیں۔ اوپر کی محرابوں میں سے شمالی محراب پر آیت الکرسی جب کہ جنوب والی پر ہلکے نیلے رنگ سے نقش و نگار بنائے گئے ہیں۔ نچلی محرابوں میں مشرق اور شمال کی طرف پتھر کی خوب صورت جالی بنائی گئی تھی جو وقت کے تھپیڑے نہ سہہ سکی۔ ایک جالی کے دونوں جانب بنے خوب صورت طاقچے ابھی تک اپنی اصلی حالت میں موجود ہیں۔
مقبرے کی خاصیت اس کا بڑا اور خوب صورت مرکزی گنبد ہے جس پر بہت پہلے پیتل کی چار کٹوریوں والا ایک کَلس لگا دیکھا گیا تھا۔ گنبد کی اندرونی جانب نقش و نگار بنائے گئے ہیں۔ چاروں طرف ایک ایک مینار ہے جن میں سے دو کا ڈیزائن ایک جیسا جب کہ بقیہ دو کا الگ ہے۔ چہار جانب پتھر کی دو دو خوب صورت محرابیں بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔ مغربی طرف باہر کو نکلی ہوئی ایک مرکزی محراب ہے جب کہ اس کا واحد دروازہ جنوبی سمت میں واقع ہے۔
مقبرے کے باہر وسیب کی پہچان نیلی کاشی گری کا کچھ کچھ کام بھی دیکھا جا سکتا ہے جب کہ کہیں قرآنی آیات اور فارسی کی عبارات بھی لکھی ہوئی ملتی ہیں۔
یعنی کہ یہ مقبرہ اِسلامی اور مُغلیہ فنِ تعمیر کا حسین امتزاج ہے۔
مقبرے کے احاطے میں پہلے چند قبریں موجود تھیں جب کہ اب کچھ نئی قبریں بھی بن چکی ہیں۔ احاطے کا بیرونی محرابی دروازہ اب تک اپنی اصلی خوب صورتی کے ساتھ قائم ہے۔ نقش و نگار کی اِنفرادیت؛ گذشتہ سال جب میرے ایک دوست ’’واجد علی ڈہرکی والا‘‘ جو یونیورسٹی اف گجرات میں فائن آرٹس کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں، یہ مقبرہ دیکھنے تشریف لائے تو انہوں نے مجھے اس کے بارے میں ایک بڑی دل چسپ بات بتائی۔
وہ کہتے ہیں کہ مقبرے کے مرکزی دروازے سے باہر بنے ہوئے نقش و نگار کو اگر بغور دیکھیں تو آپ کو پھولوں، پتوں اور بیلوں کے ساتھ ان کے نام اور مختلف نمبر لکھے ہوئے نظر آئیں گے، جیسے گُلِ ہزارہ، گُلِ نارافل، گُلِ رانران زیبا، انگور اور گلِ کچنال وغیرہ۔ یہ چیز شاید کسی اور مقبرے پر آپ کو نہ ملے۔ اُن کے مطابق ہوسکتا ہے کہ یہ نقش و نگار کسی ایسے شاگرد نے بنائے ہوں جو اپنے استاد سے نقش و نگار بنانا سیکھ رہا ہو اور اس کو ہُوبہو نمبروں اور ناموں کے ساتھ یہاں نقل کر بیٹھا ہو جیسے یہاں لکھے ایک تا چھے نمبر۔ یہ چیز بہت زیادہ غور کرنے پر ہی دیکھنے والے کی نظر میں آتی ہے۔
مقبرے کی بَحالی اور حکومتی رویہ؛ خانپور کے اس سب سے بڑے اور قدیم قبرستان کے جنوبی کونے میں واقع بی بی مقبرہ مائی صاحبہ اب اپنی حالت پر اشکبار ہے۔ گذشتہ دورِحکومت کی بات ہے کہ میں نے ’’سٹیزن پورٹل‘‘ پر اس مقبرے کے تحفظ اور بحالی کے حوالے سے ایک درخواست بھیجی تھی جو مختلف محکموں سے ہوتی ہوئی یہ کہہ کر داخل دفتر کردی گئی کہ یہ مقبرہ میونسپل کمیٹی کی حدود میں آتا ہے اور ان کے پاس فنڈز نہیں ہیں۔ یعنی کہ محکمہ اوقاف، محکمۂ آثار قدیمہ، محکمۂ سیاحت اور میونسپل کمیٹی خانپور، کوئی اس کی حفاظت کی ذمے داری لینے کو تیار نہیں۔ مقبرہ اس وقت نشئیوں کی آماج گاہ بن چکا ہے۔ محرابیں توڑ دی گئی ہیں، گنبد بھی خطرے میں ہے۔ مقبرے کے اندر جا بجا کبوتروں کی گندگی نظر آتی ہے۔ سردیوں میں اس کے اندر آگ جلائی جاتی ہے۔ مرکزی دروازے پر کوئی تالا نہیں ہے جس کی وجہ سے اس کے نقش و نگار کو شدید خطرات لاحق ہیں۔
میں حکومتی اداروں، خانپور کے شہریوں اور آثار قدیمہ سے محبت رکھنے والوں سے ملتمس ہوں کہ خدارا اس مقبرے کی حالت پر رحم کھائیں۔ بچی کھچی عمارت کے ہمارے تحفظ اور بحالی کے لیے کچھ اقدامات کریں کیوںکہ یہ مقبرہ ریاست بہاول پور اور والدہ نواب آف بہاولپور کی اس شہر میں آخری نشانی ہے۔