نشستن، گفتن، برخاستن

حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکراتی عمل کے آغاز سے امید کی ایک کرن پیدا ہوئی ہے ۔

پہلے بھی کئی مرتبہ یہ عرض کیا ہے کہ ملک کو چلنے دیں، سیاسی گفت و شنید کے دروازے کھولیں، اپنی سیاسی لڑائیاں اسمبلیوں کے ایوانوں میں لڑیں ، سڑکوں پر سیاسی لڑائیاں مسائل کا حل نہیں ہوتیں بلکہ مسائل میں گنجھل ڈالتی ہیں ۔

سڑکوں پر شور و غوغا، جلسے جلوس ، ریلیاں اور دھرنے آپ کی سیاسی مقبولیت اور عوام میں سیاسی طور پرزندہ رہنے کا باعث تو بن سکتے ہیں لیکن ان ہنگاموں میں مسائل کا حل نہیں ہوتا۔ شاید کسی عقل مند مشیر کے پلے یہ بات پڑ گئی ہے اور اس نے بانی پی ٹی آئی کو مذاکرات کے لیے راضی کرلیا ہے یا پھر تحریک انصاف کی قیادت روز روز کے احتجاج سے تنگ آگئی ہے کیونکہ ان کے یہ احتجاج کوئی رنگ نہیں لا رہے حالانکہ ان کو نتائج کا پہلے سے علم ہونا چاہیے تھا کہ ماضی میں جب نواز شریف کی حکومت گرانے میں سب طاقتیں ان کی ہمنوا تھیں تو چار ماہ سے زائد کے دھرنے کے بعد بھی حکومت گرانے میں انھیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا اور ایمپائر کی انگلی نہ اُٹھ سکی تھی جو میاں نواز شریف کو حکومت سے آؤٹ کر دیتی۔ وہ تو بھلا ہو ہمارے عدالتی نظام کا جس کی وجہ سے میاں صاحب وزیر اعظم کے عہدے سے رخصت کر دیے گئے لیکن پھر بھی حکومت ان کی پارٹی کی قائم رہی تھی۔

سیاسی میدان میں اسے تازہ ہوا کا جھونکا ہی کہنا چاہیے کہ تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان مذاکرات کے لیے کمیٹیاں تشکیل دی جا چکی ہیں ، یہ کمیٹیاں کیا نتائج نکال پائیں گی اس کا دارومدار بانی پی ٹی آئی کی سمجھ بوجھ پر ہے ۔

ایک جانب حکومت اپنے مسائل اور مصائب سے پریشان ہے تو دوسری طرف بانی پی ٹی آئی کے آئے روز کے بدلتے بیانئے ہیں جو اس قدر تیزی کے ساتھ بدلتے ہیں کہ ان کے بارے میں کچھ لکھتے ہوئے بھی اپنی ہی سبکی کا ڈر رہتا ہے کہ نہ جانے وہ ان الفاظ کی اشاعت تک کیا کچھ نہیں کہہ چکے ہوں گے۔ یہ صرف اﷲ کو یہ معلوم ہے کہ اس کا یہ بندہ کچھ دیر بعد کیاکہنے یا کرنے والا ہے۔

خان صاحب اگر کچھ ماہ پہلے ہی سیاسی مشاورتی عمل کا حصہ بن جاتے یا سیاسی لوگوں کو اپنے مشاورت گروپ میں شامل کر لیتے تو ان کے یہ احتجاج اور عوامی حمائیت بے سود نہ جاتی اور اب تک کتنے ہی سیاسی مخالف ان احتجاجوں میں پس چکے ہوتے کیونکہ سیاست میں اتنے دھرنوں اور احتجاجوں کی تاب کون لا سکتا ہے خصوصاً اگر وہ اقتدار میں ہو۔ سب سے کمزور سیاستدان وہ ہوتا ہے جو اقتدار میں آجاتا ہے اور اقتدار کے ایوانوں میں قید ہوجاتا ہے ۔

اقتدار کے مسائل اس قدرزیادہ اورمتنوع ہوتے ہیں کہ بھلا چنگا آدمی بھی بوکھلا جاتا ہے اور جس کا اقتدار ہی عوامی حمائیت کے بغیر ہو اس کا بطور حکمران عوام کا سامنا کرنا مشکل ہوتا ہے۔ ابن خلدون نے انسانی مزاج کے علوم پر دنیا میں پہلی بار علمی کام کیاتھا اور انسانوں پر حکمرانی کے راز بیان کیے تھے لیکن زمانہ بدل گیا اور انسان کی ضروریات بھی بدل گئیں لیکن انسان کا مزاج نہیں بدلا۔ آج بھی حکمرانی کے لیے وہی کچھ کرنا پڑتا ہے جو صدیوں پہلے کیا جاتا تھا۔

انسانوں کو قابو کرنا مشکل ترین عمل ہے لیکن ہمارے آج کے حکمرانوں نے تواقتداربھی کسی چکر میں حاصل کر لیا ، وقت کی کروٹوں نے اقتدار کو ان کی تجوری میں ڈال دیا اور ان کے مسائل حل ہو گئے لیکن عوام اور ملک کے مسائل بڑھ گئے ،گو کہ آج وہ عوام کا سامنا کرنے سے گھبراتے ہیں لیکن ان کی خوش قسمتی ہے کہ ان کا مخالف ان سے زیادہ اناڑی ہے یا انتہائی عجلت پسند دونوں طرف آگ برابر ہے۔

اس وقت تو دعا کیجیے کہ اس اناڑی پن سے کہیں کوئی حادثہ نہ پھسل جائے ۔ معلوم یوں ہوتا ہے کہ دونوں طرف جہاں آگ برابر کی ہے، وہیں پر دونوں فریق غالب آنے کے لیے ایک دوسرے کو تھکانے کے چکر میںتھکن سے چور ہو چکے ہیں،ان کا یہ سفر خاصا طویل ہو چکا ہے، ان کے ساتھی بھی دعاگو ہیں کہ کوئی ایسی سبیل پیدا ہو جائے کہ آئے روز کے احتجاجوں سے جان چھوٹ جائے ۔

انسانی نفسیات کا تجزیہ کرنا انتہائی مشکل عمل ہے اور موجودہ حالات میں سیاسی تفرقہ بازی نے اسے اور بھی مشکل عمل میں ڈھال دیا ہے ۔ حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکراتی عمل کے آغاز سے امید کی ایک کرن پیدا ہوئی ہے ۔ بانی پی ٹی آئی کے مداحین اس بات کے منتظر ہیں کہ کیاان کے لیڈر کو اس مذاکراتی عمل کے نتیجہ میں رہائی مل جائے گی ؟یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ابھی کسی کے پاس نہیں ہے۔

حکومتی کارپردازوں کا کہنا ہے کہ مقدموں سے بریت کا عمل عدالت سے ہو کر گزرتا ہے لیکن اگر سیاسی قائدین کے درمیان مذاکرات کامیاب ہو جائیں اور ملک چلنے کی بہتر سبیل پیدا ہو جائے تو یہ عدالتوں سے بریت کا عمل راتوں رات بھی مکمل ہو سکتا ہے۔ بہر حال ان مذاکرات کا انحصار بانی پی ٹی آئی کے طرز عمل سے مشروط ہے کہ وہ مذاکراتی عمل کے اس اونٹ کو کس کروٹ بٹھانا چاہتے ہیں ۔ ابھی تک کی شنید تو یہی ہے کہ وہ اپنے انتخابی مینڈیٹ کی واپسی سے کم کسی بات پر رضامند ہونے کو تیار نہیں ہیں، وہ شاید یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے مینڈیٹ کی واپسی ان کی رہائی کے دروازے کھول دے گی ۔

ان کے سیاسی حریف بھی اس بات کا مکمل ادراک رکھتے ہیں اور وہ اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کو ہر گز تیار نہیں ہوں گے۔ اس صورتحال میں اگر کوئی مناسب حل نکل آنے کی امید ہے تو قومی حکومت کا قیام ہو سکتا ہے جس میں تمام جماعتوں کی نمایندگی ہو جو ایک مخصوص مدت تک ملک کا نظم و نسق چلائے اور جب معاشی حالات اجازت دیں تو انتخابی عمل کا ڈول ڈال دیا جائے۔

یہی حل تما م فریقوں کی جیت ہو گا۔ لیکن اگر خان صاحب اکیلے ہی جیتنا چاہئیں تو یہ عمل فی الحال ناممکن نظر آتا ہے ۔ میں نہیں سمجھتا کہ عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلیاں بھی پاکستان کے اندرونی معاملات پر اثرانداز ہوں گی بلکہ فارسی کی کہاوت کے مصداق ، نشستن، گفتن، برخاستن والا معاملہ ہی رہے گا۔

Load Next Story