جیل اصلاحات کی ضرورت

سزا یافتہ قیدیوں کو سازگار ماحول فراہم کیا جائے تاکہ وہ بھی معاشرے کی ترقی میں اہم کردار ادا کریں۔

جیل خانہ جات کے قیام کا مقصد معاشرے سے جرم کو کم کرنا اور مجرموں کی اخلاقی تربیت کر کے ان کو ملک و قوم کے لیے فائدہ مند شہری بنانا ہے۔

ذیل میں چند مسائل ہیں جن کو حل کر کے اور چند تجاویز ہیں جن پر عمل کرکے جیل اسیران بالخصوص سزا یافتہ قیدیوں کو سازگار ماحول فراہم کیا جائے تاکہ وہ بھی معاشرے کی ترقی میں اہم کردار ادا کریں۔ Skill Development Institution کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ پنجاب کی تمام 43 جیلوں میں جو حوالاتی یا قیدی ضمانت نہ ہونے کی وجہ سے برسوں سے جیل میں رہتے ہیں، ان کا کاروبار یا نوکری ختم ہوچکی ہوتی ہے ان کو ہنرمند بنا کر جیل سے رہا کرنا حکومت کے لیے ترجیحی عمل ہونا چاہیے۔

ان اسیران کو مختلف کورسز جیسا کہ آئی ٹی،کمپیوٹر اور مصنوعی ذہانت اور فری لانسنگ وغیرہ کروائے جائیں۔ یہ کام پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ کے تحت بھی ہوسکتا ہے۔ فلاحی تنظیمیں ان جیل اسیران کی تعلیم، صحت اور لیگل ایڈ میں دلچسپی لیں۔ انڈور گیمز جیسا کہ بیڈ منٹن‘ والی بال اور دیگر جسمانی سرگرمیاں قیدیوں کی ذہنی اور جسمانی صحت کے لیے بہت ضروری ہیں۔ تمام قیدیوں کو انڈورگیمز کھیلنے کی اجازت ہونی چاہیے بشمول سزائے موت کے قیدیوں کے۔

حکومت جیل ریفارمز کا اعلان کرتی ہے، عدالتیں بھی اس بات پر فیصلے کرتی ہیں لیکن یہاں پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔ کھیلوں کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے قیدی منفی سرگرمیوں میں ملوث ہوجاتے ہیں۔ جیل میں قیدیوں کے لیے ان کی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اسکول ٹیچرز موجود ہیں۔

بچے کل اسیران کی تعداد کا 5 فیصد سے بھی کم ہوتے ہیںجب کہ 95فیصد سے زائد بڑے اسیران کے لیے جو پڑھنا چاہتے ہیں یا اپنی تعلیم کو جاری رکھنا چاہتے ہیں ان کے لیے نہ تو کوئی اسکول یا کالج ہے نہ ہی استاد، اندازہ لگائیں پنجاب کی جیلوں میں 60 ہزار سے زائد اسیران جن کے پاس بہت زیادہ وقت ہوتا ہے تعلیم و ہنر سیکھنے کی بنیادی انسانی سہولت سے محروم ہیں۔ یہاں پر صرف اتنی سہولت ہے کہ طالب علم داخلہ بھیج سکتا ہے اور خود ہی تیاری کرکے امتحان دے سکتا ہے۔

 اخلاقی تربیت کی زیادہ ضرورت جیل میں ہوتی ہے۔ فوجداری مقدمات میں سزا یافتہ قیدیوں بالخصوص سزائے موت کے قیدیوں کی اپیلیں جو اعلیٰ عدالتوں میں زیر سماعت ہیںان اپیلوں کی سماعت کے متعلق قانون میں ترمیم کی جائے اور اپیلوں کی بروقت سماعت ممکن بنائی جائے۔ نومبر 2024میں سپریم کورٹ کے محترم جج صاحبان کی تعداد کو دگنا کردیا گیا ہے۔

اسی طرح ہائیکورٹس میں محترم جج صاحبان کی اسامیاں فوری طور پر پوری کی جائیں تاکہ بروقت انصاف کا حصول ممکن ہو۔ معزز ہائی کورٹس کے محترم جسٹس صاحبان جیلوں کے دورے کیا کریں تاکہ قیدیوں کے مسائل کے واقفیت ہو اور ان کے علم میں ہو غریب لوگ جیل میں برسوں سے ان کی توجہ کے منتظر ہیں۔ معزز ہائی کورٹس میں سزائے موت کے قیدیوں کے اپیل کی سماعت نہ ہو تو اس کی ایک صورت یہ ہوتی ہے کہ محترم جج صاحب اس کی آیندہ تاریخ سماعت خود مقرر کر دیتے ہیں، دوسری صور ت میں دوبارہ اپیل کو سماعت کے لیے مقرر Left Over ہوجاتی ہے۔Left Over وہ اپیل کروانے کے لیے ہر بات پیسے یعنی رشوت ادا کرنی پڑتی ہے اور سائلین کو بار بار عدالتوں کے چکر لگاناپڑتے ہیں۔ اگر یہ مقرر کر دی جائیں تو غریب سائل اضافی مالی بوجھ یعنی بدعنوانی کی صورت میں اور ذلت سے بچ سکتے ہیں۔

پاکستان میں اس وقت جیلوں میں 6ہزار 161 سزائے موت کے قیدی موجود ہیں۔ گزشتہ سال یہ تعداد 6 ہزار 39 تھی۔ سزائے موت کے قیدیوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والی غیر سرکاری تنظیم JPPنے ایک رپورٹ Death Penalty in Pakistan Data Mapping Capital Punishment کے عنوان سے تیارکی ہے۔

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سزائے موت پانے والے قیدیوں کی تعداد 2505 ہے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ اگرچہ صدر پاکستان کو آئین کے آرٹیکل 45 کے تحت سزائے موت کے قیدی کو معاف کرنے کا اختیار ہے مگر بہت سی وجوہات کی بناء پر بہت کم قیدی صدرِ پاکستان کو اپیل کرنے کا حق استعمال کرپاتے ہیں۔سپریم کورٹ نے عمر قید کے 34 سال گزرنے کے بعد باعزت رہا ہونے والے شخص کے فیصلے میں لکھا ہے کہ ہم اپنی غلطی کو تسلیم کر رہے ہیں۔ کیا ایگزیکٹو بھی اپنی غلطی تسلیم کرے گی؟ فیصلے میں مزید لکھا گیا ہے کہ حکومت، ریاست، عدالتیں، وکلاء اور ملزم سب کو اپنی اپنی غلطی ماننی چاہیے۔

ایک سینئر وکیل نے سزائے موت کے قیدیوں کی ناگفتہ بہ صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ سیشن عدالت ملزموں کو سزائے موت دیتی ہے مگر ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں سیشن عدالت کے فیصلوں کے خلاف اپیل کی سماعت میں دس، دس سال گزر جاتے ہیں۔

سپریم کورٹ میں گزشتہ ہفتہ 10 سال سے موت کے منتظر فرد کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کردیا گیا۔ پولیس کے نظام اور قانون کی باریکیوں کو جاننے والے باشعور شہری اور وکلاء کا کہنا ہے کہ پولیس کا سارا زور غریبوں پر چلتا ہے، یوں سزائے موت پانے والے سینئر افراد میں سے بیشتر افراد بے گناہ ہوتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے خاندان غریب وکلاء کی بھاری فیس اور عدالتی عملہ اور جیل کے عملے کو رشوت دیتے ہوئے بے حال ہوچکے ہوتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنا عہدہ سنبھالتے ہی جیلوں میں اصلاحات کا بیڑا اٹھایا ہے۔ جیل میں نظربند قیدیوں کی اب آخری امید چیف جسٹس ہیں۔

Load Next Story