انتخابات کا میلہ
20 دسمبر کو آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے ہر دو سال بعد منعقد ہونے والے انتخابات کا میلہ سجایا گیا۔ گزشتہ سالوں میں کئی گروپس اور شخصیات انتخابات میں بھرپور تیاری کے ساتھ حصہ لیتی تھیں مگر اس دفعہ مقابلہ نہ ہونے کے برابر تھا مگر آرٹس کونسل کے ممبران نے پہلے کی طرح بڑی تعداد میں شرکت کی، وہی پہلے جیسی چہل پہل تھی مگر مقابلہ کرنے والوں کا فقدان تھا۔
اس الیکشن میں نجم الدین گروپ نے ضرور شرکت کی مگر وہ بھی تیاری کے بغیر ہی الیکشن لڑ رہے تھے۔ پہلے تو اکثر لوگ یہی سمجھے کہ احمد شاہ کے مقابلے میں اس دفعہ کسی نے بھی الیکشن لڑنا مناسب نہیں سمجھا کیونکہ گزشتہ سالوں میں کوئی بھی گروپ یا شخصیت احمد شاہ گروپ کا مقابلہ نہ کر سکا تھا اور بری طرح شکست کھا کر چپ چاپ ہو رہا تھا یا پھر الیکشن میں دھاندلی کا الزام لگا دیا تھا مگر بعد میں اس کا کوئی نتیجہ نہ نکلا۔
اب پتا نہیں یہ بات درست ہے کہ غلط؟ سننے میں آیا ہے کہ اس دفعہ کسی گروپ کے احمد شاہ کے مقابلے پر نہ آنے کی وجہ سے احمد شاہ بلامقابلہ جیت سکتے تھے مگر یہ یک طرفہ صورت حال جمہوریت کے خلاف تھی چنانچہ نجم الدین گروپ الیکشن لڑنے کے لیے تیار ہوا، اپنی شکست دیکھتے ہوئے بھی الیکشن لڑنے کے لیے میدان میں اترنا قابل تعریف ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ الیکشن والے دن وہاں کا ماحول سراسر احمد شاہ گروپ کے حق میں نظر آ رہا تھا۔ دن کے بارہ بجے سے رات 8 بجے تک مسلسل ووٹنگ جاری رہی۔ ماحول بہت پرامن اور خوشگوار تھا۔ بعض غیر ووٹرز بھی وہاں کے ماحول کا مزہ لینے آئے ہوئے تھے۔
رات بارہ بجے کے قریب نتیجے کا اعلان کیا گیا تو احمد شاہ گروپ پھر بازی مار گیا۔ اب احمد شاہ کو اپنی کارکردگی دکھانے کے لیے مزید دو سال مل گئے ہیں۔ انھوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ پاکستان کا عالمی سطح پر سوئفٹ امیج بلند کرنے کے لیے کئی پروگرام منعقد کریں گے اور ماضی کی طرح ضرور کامیاب رہیں گے۔
اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ ماضی میں کراچی دہشت گردی کا گڑھ بن چکا تھا اس کا امیج کچھ ناتجربہ کار اور جذباتی سیاستدانوں کی وجہ سے تباہ و برباد ہو چکا تھا۔ کراچی خاک و خون میں لوٹ رہا تھا۔ ہر طرف خون خرابے کا بازار گرم تھا ،کوئی دن ایسا نہیں جاتا تھا جب چار یا پانچ افراد دہشت گردوں کے ہاتھوں ہلاک نہ ہوتے ہوں۔
ایسے خون آلود ماحول میں بھی کراچی آرٹس کونسل نے اپنے پروگرام جاری رکھے گوکہ کچھ لوگ پروگرام بند کرانا چاہتے تھے مگر ایک شخص ایسا بھی تھا جس کا کہنا تھا کہ’’ ہم مرنے سے نہیں ڈرتے، ہم جس مشن پر کام کر رہے ہیں عوام اسے جاری رکھنے کے خواہاں ہیں۔
پھر جب عوام ہمارے ساتھ ہیں تو ہم اپنے مشن کو بھلا کیسے ترک کر سکتے ہیں یا ادھورا چھوڑ سکتے ہیں۔‘‘ یہ شخص ہے اس دفعہ پھر منتخب ہونے والا آرٹس کونسل کراچی کا صدر احمد شاہ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس شخص نے اس لگن سے کام کیا ہے کہ پورے ملک میں ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر آرٹس کونسل کراچی کی کارکردگی کی دھوم ہے۔ پاکستان میں اور بھی آرٹس کونسلیں ہیں مگر جس تواتر سے کراچی آرٹس کونسل ملک اور دنیا میں اپنا نام روشن کر رہی ہے، اس کی مثال نہیں ملتی۔
اس نے دہشت گردی سے دوچار شہر کو حقیقت میں امن اور سلامتی سے ہمکنار کر دیا ہے۔ ویسے تو یہاں سال بھر ہی اعلیٰ پروگرام پیش کیے جاتے ہیں مگر گزشتہ سالوں میں اس نے اپنی اعلیٰ کارکردگی کا لوہا منوا لیا ہے۔ خاص طور پر سال 2024 میں اس نے دنیا بھر کے نامور فنکاروں، گلوکاروں، موسیقاروں، رقاصوں اور اداکاروں کو کراچی آرٹس کونسل میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کا موقعہ دے کر خوب پذیرائی حاصل کی ہے۔
سب سے کامیاب رہنے والا وہ35 ممالک سے آئے ہوئے ثقافتی طائفے تھے جنھوں نے کراچی کے عوام کے سامنے اپنے فن کا مظاہرہ کرکے خوب داد حاصل کی۔ جب یہ طائفے کراچی میں اپنے پروگراموں میں مصروف تھے اسی وقت ملک کے مختلف علاقوں میں سخت دہشت گردی جاری تھی۔ اس دہشت گردی سے پاکستان کے وقار کو ضرور جھٹکا پہنچا ہوگا مگر کراچی میں جاری رہنے والے ثقافتی پروگراموں نے ان دہشت گردی کی خبروں کو جلد ہی پس منظر میں ڈال دیا تھا۔
چنانچہ آرٹس کونسل کراچی نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ پاکستانی دہشت گردوں سے ڈرنے والے نہیں ہیں۔ گوکہ دہشت گرد دوسروں کے اشاروں پر ملک کے وقار کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں مگر ہم پاکستانی اپنے فنون لطیفہ اور ثقافتی سرگرمیوں کے اظہار کے ذریعے دہشت گردی کو مات دے کر رہیں گے اور اپنے پیارے پاکستان کو عظیم ملک بنا کر رہیں گے۔
آرٹس کونسل کراچی گزشتہ 17 سالوں سے اردو کانفرنس کا عظیم میلہ سجا رہی ہے۔ ہر سال کے آخر میں ملکی اور غیر ملکی نامور ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کو مدعو کرکے اردو کی عالمی سطح پر ترویج میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ آرٹس کونسل کراچی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس نے پاکستان کی دوسری مقامی زبانوں کی ترویج کے لیے بھی اردو کانفرنس کو خوب خوب استعمال کیا ہے۔
یہاں سال بھر ڈراموں، موسیقی کے پروگرام اور کتابوں کی رونمائی کی تقریبات منعقد ہوتی رہتی ہیں۔ ان سال بھر جاری رہنے والی سرگرمیوں نے کراچی کی پہچان اور شناخت ایک علم و ادب، فکر و فن، تہذیب و ثقافت کے حوالے سے پوری دنیا تک پہنچا دی ہے۔ آرٹس کونسل کراچی کی اسی اعلیٰ کارکردگی کی بدولت محمد احمد شاہ ستارۂ امتیاز اور ہلال امتیاز جیسے اعلیٰ قومی اعزازات سے سرفراز ہونے کے علاوہ سندھ کی عبوری حکومت میں وزیر رہنے کا اعزاز بھی حاصل کر چکے ہیں۔