بدترین لوڈشیڈنگ اصلاح احوال کی ضرورت
ہوا، غذا اور پانی زندگی کے اجزائے ضروریہ میں شمار ہوتے ہیں
ہوا، غذا اور پانی زندگی کے اجزائے ضروریہ میں شمار ہوتے ہیں لیکن اکیسویں صدی کے ٹیکنالوجی دور میں بجلی بھی انسانوں کی اہم ترین ضرورت میں شامل ہوگئی ہے جس کی غیر موجودگی کاروبار زندگی کو درہم برہم کردیتی ہے۔ ملک میں جاری انرجی بحران شدت سے جاری ہے اور بجلی کی بدترین لوڈشیڈنگ نے حکومتی دعوئوں کی قلعی کھول دی ہے۔ بجلی کی قلت اور توانائی بحران حکمرانوں کی عاقبت نااندیشی ہے، جب کہ غلط مینجمنٹ کے سبب ملک بھر کے عوام سخت مشتعل ہیں۔
یہ امر افسوسناک ہے کہ رمضان المبارک کی آمد سے پہلے بجلی کی بلا تعطل فراہمی اور لوڈشیڈنگ نہ ہونے کے جو دعوے کیے گئے تھے وہ نہ صرف نقش برآب ثابت ہوئے بلکہ ماہ صیام کے آخری عشرے میں بھی بجلی کی لوڈشیڈنگ کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ گئی ہے۔ ملک کے مختلف علاقوں میں طویل ترین لوڈشیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے جس سے نہ صرف گھریلو صارفین بلکہ کاروباری حضرات بھی شدید متاثر ہو رہے ہیں۔ ملک میں لوڈشیڈنگ کی مجموعی صورتحال اس قدر خراب ہے کہ بعض علاقوں میں 20-20 گھنٹے بجلی غائب ہے۔
شہری علاقوں میں بھی ایک گھنٹے بجلی کی فراہمی کے بعد تین سے چار گھنٹے مسلسل بجلی بند رکھی جا رہی ہے جب کہ مجموعی طور پر کراچی، اسلام آباد، لاہور، پشاور، سکھر، کوئٹہ اور حیدرآباد سمیت ملک بھر میں شہری علاقوں میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 12 سے 15 گھنٹے تک ریکارڈکیا جارہا ہے، دیہی علاقوں میں صورتحال اس سے بھی ابتر ہے جہاں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 17 سے 19 گھنٹے تک پہنچ گیا ہے۔ گزشتہ روز ملک کے مختلف شہروں میں بجلی کی طویل بندش کے خلاف سیکڑوں مشتعل افراد نے احتجاج کیا، جس میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔
مظاہرین نے احتجاجی دھرنا اور ٹائروں کو آگ لگا کر اہم شاہراہیں اور سڑکوں کو ٹریفک کے لیے بند کردیا۔ جب کہ نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی کے ذرایع کا کہنا ہے کہ بدھ کو بجلی کی پیداوار 13 ہزار میگاواٹ جب کہ طلب 20 ہزار میگاواٹ تک پہنچ گئی۔ پاکستان کا معاشی حب لوڈشیڈنگ سے شدید متاثر ہے۔ عید کی خریداری کے سلسلے میں خریدار و تاجر حضرات دونوں ہی پریشان ہیں، مارکیٹ کھلنے سے بند ہونے کے مخصوص اوقات کار میں بجلی کی عدم فراہمی سے چھوٹے کاروباری حضرات ''دھندہ چوپٹ'' ہونے کی دہائی دے رہے ہیں تو مشینیں بند ہونے کے باعث درزی سلائی کے آرڈر مکمل نہیں کر پا رہے ہیں۔
یہ ہمارے ملک کی بدنصیبی رہی ہے کہ یہاں پانی سر سے اونچا ہونے کے بعد بھی صرف شور مچایا جاتا ہے لیکن مسائل کے حل کے لیے راست اقدامات نہیں اٹھائے جاتے۔ بجلی کا بحران آج کا نہیں بلکہ ایک عرصے سے جاری ہے، اس سلسلے میں صرف موجودہ حکومت کو ہی موردِ الزام ٹھہرانا درست نہ ہوگا بلکہ گزشتہ حکومتوں نے بھی انرجی بحران دور کرنے کے سلسلے میں کوئی اسٹرٹیجی نہیں بنائی بلکہ ہر حکومت مسائل کو گزشتہ دور کا ورثہ قرار دے کر آگے منتقل کرتی رہی، نتیجتاً آج انرجی بحران کا ایسا عفریت ہمارے سامنے موجود ہے جس کے قابو میں آنے کے دور تک امکانات نظر نہیں آتے۔
اگر گزشتہ ادوار حکومت میں بجلی بحران سے نمٹنے کے لیے درست فیصلے کرلیے جاتے تو آج یہ صورتحال نہ ہوتی لیکن سیاست کو ملکی مفادات پر ترجیح دینے کی روش نے سابقہ حکومتوں کو عوامی مفاد میں فیصلے کرنے سے ہمیشہ دور رکھا ہے جس کا خمیازہ آج عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ لیکن وقت ابھی ہاتھ سے پھسلا نہیں، اگر اب بھی انرجی بحران دور کرنے کے سلسلے میں راست اقدامات کیے جاتے ہیں تو آہستہ ہی سہی مثبت نتائج سامنے آنا شروع ہوں گے اور بالآخر ایک وقت ایسا آئے گا جب ہم انرجی بحران پر مکمل قابو پالیں گے۔ لوڈشیڈنگ کے سلسلے میں اصلاح احوال کی اشد ضرورت ہے۔
یہ امر افسوسناک ہے کہ رمضان المبارک کی آمد سے پہلے بجلی کی بلا تعطل فراہمی اور لوڈشیڈنگ نہ ہونے کے جو دعوے کیے گئے تھے وہ نہ صرف نقش برآب ثابت ہوئے بلکہ ماہ صیام کے آخری عشرے میں بھی بجلی کی لوڈشیڈنگ کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ گئی ہے۔ ملک کے مختلف علاقوں میں طویل ترین لوڈشیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے جس سے نہ صرف گھریلو صارفین بلکہ کاروباری حضرات بھی شدید متاثر ہو رہے ہیں۔ ملک میں لوڈشیڈنگ کی مجموعی صورتحال اس قدر خراب ہے کہ بعض علاقوں میں 20-20 گھنٹے بجلی غائب ہے۔
شہری علاقوں میں بھی ایک گھنٹے بجلی کی فراہمی کے بعد تین سے چار گھنٹے مسلسل بجلی بند رکھی جا رہی ہے جب کہ مجموعی طور پر کراچی، اسلام آباد، لاہور، پشاور، سکھر، کوئٹہ اور حیدرآباد سمیت ملک بھر میں شہری علاقوں میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 12 سے 15 گھنٹے تک ریکارڈکیا جارہا ہے، دیہی علاقوں میں صورتحال اس سے بھی ابتر ہے جہاں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 17 سے 19 گھنٹے تک پہنچ گیا ہے۔ گزشتہ روز ملک کے مختلف شہروں میں بجلی کی طویل بندش کے خلاف سیکڑوں مشتعل افراد نے احتجاج کیا، جس میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔
مظاہرین نے احتجاجی دھرنا اور ٹائروں کو آگ لگا کر اہم شاہراہیں اور سڑکوں کو ٹریفک کے لیے بند کردیا۔ جب کہ نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی کے ذرایع کا کہنا ہے کہ بدھ کو بجلی کی پیداوار 13 ہزار میگاواٹ جب کہ طلب 20 ہزار میگاواٹ تک پہنچ گئی۔ پاکستان کا معاشی حب لوڈشیڈنگ سے شدید متاثر ہے۔ عید کی خریداری کے سلسلے میں خریدار و تاجر حضرات دونوں ہی پریشان ہیں، مارکیٹ کھلنے سے بند ہونے کے مخصوص اوقات کار میں بجلی کی عدم فراہمی سے چھوٹے کاروباری حضرات ''دھندہ چوپٹ'' ہونے کی دہائی دے رہے ہیں تو مشینیں بند ہونے کے باعث درزی سلائی کے آرڈر مکمل نہیں کر پا رہے ہیں۔
یہ ہمارے ملک کی بدنصیبی رہی ہے کہ یہاں پانی سر سے اونچا ہونے کے بعد بھی صرف شور مچایا جاتا ہے لیکن مسائل کے حل کے لیے راست اقدامات نہیں اٹھائے جاتے۔ بجلی کا بحران آج کا نہیں بلکہ ایک عرصے سے جاری ہے، اس سلسلے میں صرف موجودہ حکومت کو ہی موردِ الزام ٹھہرانا درست نہ ہوگا بلکہ گزشتہ حکومتوں نے بھی انرجی بحران دور کرنے کے سلسلے میں کوئی اسٹرٹیجی نہیں بنائی بلکہ ہر حکومت مسائل کو گزشتہ دور کا ورثہ قرار دے کر آگے منتقل کرتی رہی، نتیجتاً آج انرجی بحران کا ایسا عفریت ہمارے سامنے موجود ہے جس کے قابو میں آنے کے دور تک امکانات نظر نہیں آتے۔
اگر گزشتہ ادوار حکومت میں بجلی بحران سے نمٹنے کے لیے درست فیصلے کرلیے جاتے تو آج یہ صورتحال نہ ہوتی لیکن سیاست کو ملکی مفادات پر ترجیح دینے کی روش نے سابقہ حکومتوں کو عوامی مفاد میں فیصلے کرنے سے ہمیشہ دور رکھا ہے جس کا خمیازہ آج عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ لیکن وقت ابھی ہاتھ سے پھسلا نہیں، اگر اب بھی انرجی بحران دور کرنے کے سلسلے میں راست اقدامات کیے جاتے ہیں تو آہستہ ہی سہی مثبت نتائج سامنے آنا شروع ہوں گے اور بالآخر ایک وقت ایسا آئے گا جب ہم انرجی بحران پر مکمل قابو پالیں گے۔ لوڈشیڈنگ کے سلسلے میں اصلاح احوال کی اشد ضرورت ہے۔