سلطانیٔ جمہور

روزنامہ ایکسپریس 13 جولائی کو ایک دل چسپ رپورٹ شایع کرتا ہے۔ رپورٹ کا عنوان ہے

shaikhjabir@gmail.com

روزنامہ ایکسپریس 13 جولائی کو ایک دل چسپ رپورٹ شایع کرتا ہے۔ رپورٹ کا عنوان ہے ''امریکا کے کل 44 میں سے 31 صدور کا تعلق فوج سے تھا'' رپورٹ کی پہلی سطر ہے ''دنیا میں مثالی جمہوریت کے دعوے دار ملک میں بھی فوج، خفیہ ایجنسیاں اور مخصوص کاروباری طبقہ ہی صدر کا انتخاب کرتا ہے۔''

متذکرہ بالا رپورٹ بعض افراد کے لیے یقیناً حیرت انگیز اور چشم کشا قسم کی ہو سکتی ہے، مگر سوال یہ ہے کہ جب امریکا جیسے جمہوریت کے چیمپئن کے ہاں جمہوریت نہیں ہے بلکہ چند بڑوں کی اجارہ داری ہے تو پھر جمہوریت کا دنیا میں کہیں وجود بھی ممکن ہے؟ اگر سربراہ مملکت کا تعین سرمایہ داروں اور خفیہ ایجنسیوں ہی نے کرنا ہے تو پھر ووٹ کا ڈھونگ کیوں؟ اور پھر یہاں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ جب جمہوریائوں میں صدر اور وزیراعظم ووٹوں کے ذریعے نہیں بنتے تو پھر اصل حکمران کون ہوتا ہے؟

امریکا کی پرنسٹن یونی ورسٹی میں اس سوال کے جواب کے لیے ایک مطالعہ کیا گیا، مطالعے کے نتیجے میں سامنے آیا کہ امریکا میں جمہوریت نہیں رہی، تحقیق کاروں مارٹن جیلینز اور بنجامن کہتے ہیں کہ گزشتہ چند دہائیوں سے امریکی نظام سیاست رفتہ رفتہ آہستگی سے ''جمہوریت'' سے ''اجارہ داریت'' میں تبدیل ہو چکا ہے جہاں با اثر سرمایہ دار طبقہ ہی طاقت کا سرچشمہ یا منبع اقتدار قرار پاتا ہے۔

مطالعے کے دوران 1981ء سے لے کر 2002ء تک کی مختلف پالیسیوں کا جائزہ لیا گیا۔ دونوں تحقیق کار اس نتیجے پر پہنچے کہ اب ملک کی اصل زمام کار سرمایہ داروں کے ہاتھ میں ہے جو ملک کی سمت کا تعین کرتے ہیں۔ خواہ یہ سمت ووٹ دینے والوں کی منشا کے قطعی برعکس ہی کیوں نہ ہو۔ وہ اپنے تحقیقی مطالعے میں لکھتے ہیں کہ ''مرکزی نکتہ جو ہماری تحقیق سے ابھر کر سامنے آیا ہے وہ یہ ہے کہ معاشی سربر آوردہ افراد اور کاروباری مفاد کے منظم نمایندے امریکی حکومت کی پالیسیوں پر بڑا اثر رکھتے ہیں۔ جب کہ عوامی مفاد کے اجتماع یا عام فرد کا حکومتی پالیسیوں پر بہت ہی تھوڑا اثر ہوتا ہے یا بالکل بھی نہیں ہوتا۔

مثال کے طور پر فرانسیسی مفکر اینے گینوں 5 نومبر 1886ء تا 7 جنوری 1951ء ''دی کرائسس آف دی ماڈرن ورلڈ '' میں لکھتا ہے کہ '' اگر لفظ جمہوریت کی تعریف یہ ہے کہ لوگ خود اپنی حکومت آپ قائم کریں تو یہ ایک ایسی چیز کا بیان ہے جس کا وجود ناممکنات میں سے ہے۔ جو نہ پہلے کبھی وجود میں آئی ہے اور نہ آج کہیں موجود ہے۔ یہ کہنا ہی جمع بین الضدین ہے کہ ایک ہی قوم بہ یک وقت حاکم بھی ہے اور محکوم بھی۔ دنیا میں لوگ (کسی نہ کسی طرح) اقتدار کی مسند تک پہنچ ہی جاتے ہیں۔

ان کی سب سے بڑی قابلیت یہ ہوتی ہے کہ وہ عوام کے دلوں میں یہ عقیدہ رچا بسا دیں کہ (ان پر کوئی حاکم نہیں) وہ خود اپنے آپ ہر حاکم ہیں، عام رائے دہندگی کا اصول اس فریب دہی کے لیے وضع کیا گیا ہے (اس اصول کی رو سے) یہ مان لیا جاتا ہے کہ قانون اکثریت ہی کی مرضی سے وضع ہوتا ہے اور اس حقیقت کو خاص رخ پر بھی لگایا جا سکتا ہے اور بدلا بھی جا سکتا ہے۔

یا ''ارونگ بیسٹ'' 2 اگست 1865 تا 15 جولائی 1933 کی یہ رائے ''جمہوریت نظری طور پر تو اپنے آپ کو مثالی نظام محسوس کر سکتی ہے لیکن عملی طور پر یہ ایک ناممکن نظریہ ہے۔''

''مارٹن گیلینز'' اور ''بنجامن آئی پیج'' اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے امریکی سیاسی ترجیحات کا موازنہ بھی پیش کرتے ہیں اور واضح کرتے ہیں کہ جب امریکی افراد کے آمدن فیصد کا موازنہ کیا گیا تو یہ واضح ہوتا ہے کہ امریکی پالیسیاں تشکیل دیتے ہوئے خواہ وہ ''ری پبلکن'' ہوں یا ''ڈیموکریٹس'' عمومی طور پر کم آمدن والے مثلاً 50 ویں صدیے کے مقابلے میں 90 ویں صدیے نیز بڑے لابنگ گروپس اور بزنس گروپ کی ترجیحات کا خیال رکھا جاتا ہے۔


تحقیق کاروں نے واضح کیا کہ یہ رجحان نیا نہیں یا اس کا امریکی سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے سے کوئی تعلق نہیں جو ''میک کوچن اور ایف ای سی'' کے درمیان ہونے والے مقدمے پر دیا گیا جو اس امر کی اجازت دیتا ہے کہ سیاست میں اور زیادہ پیسہ استعمال ہو سکے۔ یہ 1980ء اور اس سے بھی پہلے کا ہے۔ لہٰذا عام افراد کے لیے دشوار ہے کہ وہ اس کا ادراک کر سکیں، اس عمل کو روکنا یا پلٹانا تو دور کی بات ہے وہ لکھتے ہیں کہ ''عام شہری کو (جس نے ووٹ دیا ہے) اپنے جیتے ہونے کا احساس یا التباس رہتا ہے جب کہ پالیسی کی تشکیل میں ان کا آزادانہ ذرا سا بھی عمل دخل نہیں ہوتا۔

یہ نتائج امریکا کے صرف متذکرہ بالا دو دانش وروں ہی کے نہیں ہیں آج امریکا کے متعدد بڑے اور نام ور ''پولیٹیکل سائنٹس'' اس حوالے سے بات کرتے نظر آتے ہیں۔ ''گیلنز'' اور ''پیج'' نے اپنے تحقیقی کام پر ایک معرکۃ الاراء کتاب ''ایفلوئنس اینڈ انفلوئنس'' بھی تحریر کی ہے اس میں 20 برس پر محیط 1799ء پالیسیوں کے نتائج پر بحث کی گئی ہے یہ تحقیق امریکی سیاست کی 4 بڑی تھیوریز سے متعلق ہے (1) میجوریٹیرین (2) میجوریٹیرین پلورل ازم(3) اکنامک ایلیٹ ڈومینیشن اور (4) بائیڈ پلورل ازم۔ ان خطوط پر کام کرنے والے امریکا کے دیگر بڑے ناموں میں ای ایف شائز نیندر، چارلس لینڈبلوم ، جی ولیم ڈام ہوف اور تھامس فرگوسن وغیرہ ہیں۔

اقوام متحدہ کی ثقافتی مجلس ''یونیسکو'' کی ایک تحقیق کا ذکر ہوجائے۔ یہ 1947ء کی بات ہے جب یونیسکو نے ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی۔ اس کمیٹی کا کام یہ تھا کہ وہ تحقیق کرے گی جمہوری انداز حکومت پر، اور یہ تمام تر تحقیق جدید طرز پر یا آپ کہہ لیں سائنسی طرز پر کی جائے گی۔ اس مقصد کے تحت کمیٹی نے دنیا بھر کے مفکرین اور دانش وروں سے جمہوریت پر مقالات تحریر کرنے کی استدعا کی۔

شاید اس موضوع پر اس سطح کا یہ اب تک کا پہلا اور آخری کام ہے۔ القصہ دنیا بھر سے مقالات حاصل کیے گئے اور پھر انھیں یک جا کرکے ایک کتابی شکل میں شایع کر دیا گیا اس کتاب کا نام ''ڈیموکریسی ان دی ورلڈ آف ٹینشن'' ہے۔ تمام مقالہ نگاروں کی مذمت میں پہلا سوال یہ پیش کیا گیا تھا کہ جمہوریت کیا ہے؟ یہ امر دل چسپی سے خالی نہ ہو گا کہ اکثریت کی رائے یہ تھی کہ یہ ایک مبہم لفظ ہے یہ وہ لفظ اور وہ اصلاح ہے جس کا مفہوم متعین ہی نہیں کیا جا سکا۔

دانشوروں کے نزدیک جمہوریت کے مفہوم کے تعین میں شدید اختلافات پائے جاتے ہیں پھر اس کے بعد معزز مقالہ نگاروں نے جمہوریت کی معلوم، معروف اور رائج تعبیرات پیش کی ہیں جو اس کی نظر میں اہم اور قابل تذکرہ تھیں۔ واقعہ یہ ہے کہ ان کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ یہ سب کی سب مختلف اور بسا اوقات متضاد تعبیرات ہیں، ان کی حالت یہ ہے کہ ایک تعبیر سے دوسری تعبیر اور ایک مفہوم سے دوسرا مفہوم نہیں ملتا۔ بعض نے تو یہاں تک لکھ دیا ہے کہ ''آج کل اسے مہمل ترین ایمان کے درجے میں تعین کیا جاتا ہے۔ ہماری ہر ہر گفتگو اور مباحثے کا آغاز ہی یہ مان کر ہوتا ہے کہ جمہوریت تو حتمی اور طے شدہ طور پر درست نظام العمل ہے۔

گویا اس پر تو کوئی بات ہو ہی نہیں سکتی بعینہ جیسے کہ کسی کے ایمان پر کوئی بات نہیں کی جا سکتی ہے لہٰذا اب تو آپ آگے بات کریں۔ یہ وہ نظم حکومت ہے جس پر انسان اپنی مدت العمر کے تجارب کے بعد پہنچا ہے۔

گیلنز کی تحقیق بتاتی ہے کہ آج اس طرز حکومت سے امریکی اور دنیا بھر کے سرمایہ داروں کے مفادات وابستہ ہیں لہٰذا عوام کو یہ پٹیاں پڑھا دی گئی ہیں کہ اس سے بدتر نظام حکومت کا تصور نا ممکن ہے یہاں تک کہ اس نظام کو مختلف مذاہب کے بڑے بھی آیت رحمت اور کفیل برکات و سعادت سمجھنے اور کہنے لگے ہیں، اس کی تائید کرنے والوں کو حق و صداقت کے مشاہد اور نوع انسانی کی فلاح و بہبود کا معاون خیال کیا جاتا ہے اس کی مخالفت کرنے والوں کو انسانیت کا دشمن یہاں تک کہ مجرم تصور کیا جانے لگا ہے لیکن کیا واقعی ایسا ہی ہے یا گیلنز کی اور پنجامن وغیرہ کی رائے کے مطابق یہ پیسے والوں کا اور سرمایہ داروں کا کھیل ہے۔

دنیا بھر میں غریب بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ غریب غریب سے غریب ہو رہا ہے امراء کی دولت میں حیرت انگیز تیزی سے اضافہ ہوتا ہے انسانی تاریخ میں کبھی ارتکاز دولت اتنا اور اس درجے میں دیکھنے میں نہیں آیا جتنا اس جمہوریت کے طفیل نظر آتا ہے انسانی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ایک جانب غلے کی اور مال و اسباب کی اکثریت اور فراوانی ہو تو دوسری جانب بھوک، قحط اور غذائی قلت کا شکار بیماریوں سے مرنے والوں کی انسانی تاریخ کی کثیر ترین تعداد ہو ایک جانب آزادی کے نعرے ہوں لیکن عملاً حال یہ ہو کہ ہر فرد صبح سے رات تک نظام کا غلام بن کر رہ گیا ہو۔
Load Next Story