مرکزی داخلہ کمیٹی کے اختیارات ختم محکمہ تعلیم انٹر کے داخلے خود کرے گا
سرکاری کالجوں میں سیاسی دبائوکےبرعکس میرٹ پرداخلےدینے کےلیےگزشتہ 14سال سے رائج طریقہ کار(کیپ )میں مداخلت شروع کردی گئی
محکمہ تعلیم نے کراچی کے سرکاری کالجوں میں سیاسی دبائوکے برعکس میرٹ پر داخلہ دینے کے گزشتہ 14سال سے رائج طریقہ کارمیں مداخلت شروع کردی ہے۔
کراچی کے سرکاری کالجوں میں انٹرسال اول کے داخلوں کے لیے قائم مرکزی داخلہ کمیٹی سے داخلوں کے تمام اختیارات واپس لے لیے گئے ہیں، ڈائریکٹوریٹ آف کالجز کے تحت کام کرنے والی مرکزی داخلہ کمیٹی کے بجائے محکمہ تعلیم نے یہ داخلے ازخود کرنے کافیصلہ کیا، انٹرسال اول کے داخلوں کا طریقہ کار تبدیل کردیاگیا ہے، محکمہ تعلیم نے داخلوں کے سلسلے میں داخلہ معلومات پر مبنی داخلہ کتابچہ معہ فارم طلبا کو فراہم نہ کرنے کا فیصلہ کیاہے ، بینکوں سے فارم فروخت نہیں کیے جائیں گے بلکہ اس کے برعکس طلبا انٹرنیٹ کے ذریعے آن لائن فارم حاصل کرکے اسے بینکوں میں جمع کرائیں گے۔
انٹرنیٹ کے ذریعے حاصل ہونے والے آن لائن فارم کوجمع کراتے وقت طلباکو60روپے فی فارم کے حساب سے بینک میںجمع کرانے ہوں گے،صوبائی محکمہ تعلیم کے ذرائع کے مطابق محکمہ تعلیم نے اس سلسلے میں ڈائریکٹوریٹ آف کالجز کوداخلے شروع کرنے سے روک دیاہے،فی الحال مرکزی داخلہ کمیٹی کوفعال نہیں کیاجارہا ہے، واضح رہے کہ آن لائن فارم حاصل اورجمع کرنے کا تجربہ گزشتہ برس این ای ڈی یونیورسٹی کی جانب سے کیاگیاتھا تاہم این ای ڈی یونیورسٹی نے مکمل طورپراس طریقہ کارپر انحصارنہیں کیا تھا بلکہ فارم کے حصول اور جمع کرانے کے روایتی طریقہ کار کو بھی برقرار رکھا تھا۔
اس کے باوجود آن لائن فارم حاصل اور جمع کرانے کے طریقہ کارمیں این ای ڈی یونیورسٹی کوشدید مشکلات کاسامناتھااورعملی طورپریہ تجربہ ناکامی سے دوچار ہوا تھا،واضح رہے کہ کراچی کے سرکاری کالجوں میں انٹرسال اول کے داخلوں کے سلسلے میں ہرسال ایک لاکھ 10ہزارسے زائد طلبہ و طالبات داخلہ فارم حاصل اورجمع کراتے ہیں جبکہ ایک لاکھ کے قریب طلبہ وطالبات کو داخلے دیے جاتے ہیں۔
یاد رہے کہ سابق سیکریٹری تعلیم نذرحسین مہر کے دورمیں 2001میں کراچی کے سرکاری کالجوں میں داخلوں کے موقع پربیرونی وسیاسی دبائوکوختم کرنے اورطلبا تنظیموں کی مداخلت روکنے کے لیے سپلا کے مرحوم رہنما ریاض احسن کی مددسے مرکزی داخلہ کمیٹی قائم کی گئی تھی جس کے تحت کراچی کے سرکاری کالجوں میں مرکزی سطح پر میرٹ کی بنیادپرداخلے دیے جاتے تھے تاہم اب 14سال بعدصوبائی محکمہ تعلیم کی مرکزی داخلہ پالیسی میں مداخلت سے پالیسی متاثرہونے کاخدشہ ہے''ایکسپریس''نے اس سلسلے میں ایڈیشنل سیکریٹری تعلیم ریحان بلوچ سے بھی رابطہ کی کوشش کی تاہم وہ بات چیت سے گریز کرتے رہے۔
کراچی کے سرکاری کالجوں میں انٹرسال اول کے داخلوں کے لیے قائم مرکزی داخلہ کمیٹی سے داخلوں کے تمام اختیارات واپس لے لیے گئے ہیں، ڈائریکٹوریٹ آف کالجز کے تحت کام کرنے والی مرکزی داخلہ کمیٹی کے بجائے محکمہ تعلیم نے یہ داخلے ازخود کرنے کافیصلہ کیا، انٹرسال اول کے داخلوں کا طریقہ کار تبدیل کردیاگیا ہے، محکمہ تعلیم نے داخلوں کے سلسلے میں داخلہ معلومات پر مبنی داخلہ کتابچہ معہ فارم طلبا کو فراہم نہ کرنے کا فیصلہ کیاہے ، بینکوں سے فارم فروخت نہیں کیے جائیں گے بلکہ اس کے برعکس طلبا انٹرنیٹ کے ذریعے آن لائن فارم حاصل کرکے اسے بینکوں میں جمع کرائیں گے۔
انٹرنیٹ کے ذریعے حاصل ہونے والے آن لائن فارم کوجمع کراتے وقت طلباکو60روپے فی فارم کے حساب سے بینک میںجمع کرانے ہوں گے،صوبائی محکمہ تعلیم کے ذرائع کے مطابق محکمہ تعلیم نے اس سلسلے میں ڈائریکٹوریٹ آف کالجز کوداخلے شروع کرنے سے روک دیاہے،فی الحال مرکزی داخلہ کمیٹی کوفعال نہیں کیاجارہا ہے، واضح رہے کہ آن لائن فارم حاصل اورجمع کرنے کا تجربہ گزشتہ برس این ای ڈی یونیورسٹی کی جانب سے کیاگیاتھا تاہم این ای ڈی یونیورسٹی نے مکمل طورپراس طریقہ کارپر انحصارنہیں کیا تھا بلکہ فارم کے حصول اور جمع کرانے کے روایتی طریقہ کار کو بھی برقرار رکھا تھا۔
اس کے باوجود آن لائن فارم حاصل اور جمع کرانے کے طریقہ کارمیں این ای ڈی یونیورسٹی کوشدید مشکلات کاسامناتھااورعملی طورپریہ تجربہ ناکامی سے دوچار ہوا تھا،واضح رہے کہ کراچی کے سرکاری کالجوں میں انٹرسال اول کے داخلوں کے سلسلے میں ہرسال ایک لاکھ 10ہزارسے زائد طلبہ و طالبات داخلہ فارم حاصل اورجمع کراتے ہیں جبکہ ایک لاکھ کے قریب طلبہ وطالبات کو داخلے دیے جاتے ہیں۔
یاد رہے کہ سابق سیکریٹری تعلیم نذرحسین مہر کے دورمیں 2001میں کراچی کے سرکاری کالجوں میں داخلوں کے موقع پربیرونی وسیاسی دبائوکوختم کرنے اورطلبا تنظیموں کی مداخلت روکنے کے لیے سپلا کے مرحوم رہنما ریاض احسن کی مددسے مرکزی داخلہ کمیٹی قائم کی گئی تھی جس کے تحت کراچی کے سرکاری کالجوں میں مرکزی سطح پر میرٹ کی بنیادپرداخلے دیے جاتے تھے تاہم اب 14سال بعدصوبائی محکمہ تعلیم کی مرکزی داخلہ پالیسی میں مداخلت سے پالیسی متاثرہونے کاخدشہ ہے''ایکسپریس''نے اس سلسلے میں ایڈیشنل سیکریٹری تعلیم ریحان بلوچ سے بھی رابطہ کی کوشش کی تاہم وہ بات چیت سے گریز کرتے رہے۔