پنجابی زبان کا نوحہ

قرائن بتاتے ہیں کہ برصغیر میں بولی جانے والی زبانوں میں سے یہ ایک بہت پرانی زبان ہے

gfhlb169@gmail.com

پنجابی ایک بہت زیادہ بولی جانے والی زبان ہے لیکن اس کے ساتھ کچھ اچھا نہیں ہو رہا۔جو سلوک پاکستان بننے کے فوراً بعد،اس وقت کی اکثریت کی زبان کے ساتھ ہوا وہی سلوک پنجابی کے ساتھ ہو رہا ہے۔

مشرقی پاکستان کے لوگ اکثریت میں تھے۔ جمہوری رویے کا تقاضا تھا کہ اکثریت کی زبان یعنی بنگالی کو قومی اور آفیشل زبان کا درجہ دیا جاتا لیکن ایسا نہ ہوا اور صرف 7فیصد لوگوں کی زبان اردو کو پاکستان کی قومی زبان کا درجہ دے دیا گیا۔مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد پاکستان کی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان پنجابی ہے۔

پنجاب کے رویوں کے خلاف تو بہت بات ہوتی ہے لیکن پنجابی زبان کے خلاف کبھی کوئی آواز اُٹھتی نہیں سنی گئی،پھر بھی پنجابی زبان کو اس کا جائز مقام نہیں مل سکا۔قرائن بتاتے ہیں کہ برصغیر میں بولی جانے والی زبانوں میں سے یہ ایک بہت پرانی زبان ہے۔

ہندوؤں کی اکثریت تو اس بات کی قائل ہے کہ برصغیر کی تمام زبانیں سنسکرت سے نکلی ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی نظر آتا ہے کہ پراکرت زبان سنسکرت سے بھی زیادہ پرانی زبان ہے۔اپابراہمسا،پراکرت اور سنسکرت تینوں زبانیں بہت پرانی ہیں، البتہ زبانوں کے ماہرین کی رائے یہ ہے کہ پنجابی زبان سنسکرت کے بجائے پراکرت سے نکلی اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ ترقی کرتی موجودہ شکل و صورت اختیار کرنے لگی۔

انگریزوں نے برصغیر میں آمد کے بعد یہاں کی متعدد زبانوں کی سرپرستی بھی کی اور فروغ کے لیے کام بھی کیا۔انھوں نے صرف ایک زبان کے فروغ کے خلاف کام کیا اور وہ پنجابی زبان ہے۔

اس کی بظاہر وجہ سیاسی تھی۔انگریزوں نے یوں تو مغل سلطنت مسلمان حکمرانوں سے ہتھیائی لیکن جب انگریزوں نے سلطنت لاہور پر قبضہ کیا تو یہ سلطنت انھوں نے مغلوں سے نہیں بلکہ سکھ حکمرانوں سے چھینی۔ یہ سمجھا گیا کہ پنجابی زبان سکھوں کی زبان ہے۔

اس لیے اس کا فروغ سکھوں کی بادشاہی کے کلیم کو سپورٹ کرے گا۔رنجیت سنگھ کے دور میں شادی کے موقع پر ہر دلہن کے جہیز میں پنجابی قاعدہ ضرور دیا جاتا تھا تاکہ پنجابی دلہنیں خود بھی پڑھیں اور اگلی نسل کو بھی پنجابی زبان لکھنا،پڑھنا اور بولنا سکھائیں۔ انگریز دور کے آتے ہی سرکاری سطح پر ایک مہم کا آغاز کیا گیا کہ پنجابی زبان کی جڑ کاٹ دی جائے۔

اس مقصد کے حصول کے لیے انگریزوں نے پنجابی زبان کا قاعدہ جمع کروانے والوں کو نقد معاوضہ دینے کا اعلان کیا تاکہ کسی گھر میں پنجابی کی ابجد پڑھانے کا کوئی ذریعہ موجود نہ ہو۔انگریزوں کے اس مخاصمانہ رویے اور اقدام سے پنجابی لکھت پڑھت کو شدید نقصان ہوا جس سے یہ بڑی اور اہم زبان آج تک سنبھل نہیں سکی۔اس کے بعد آج تک پنجابی کا اسٹینڈرڈ قاعدہ نہ بن سکا۔پاکستان میں اب اول تو پنجابی میں لکنا پڑھنا تقریباً ختم ہو گیا ہے لیکن جو بھی لکھتا ہے اپنی مرضی کے ہجے استعمال کرتا ہے کیونکہ کوئی اسٹینڈرڈ قاعدہ اور ہجے موجود نہیں۔

پنجابی زبان کے تین بڑے لہجے ماجھی،دوآبی اور مالوائی ہیں۔ان تین بڑے لہجوں کے علاوہ کئی اور اضافی لہجے ہیں جیسے جانگلی، پوٹھوہاری،شاہ پوری اور ہندکو وغیرہ۔دریائے جہلم اور ستلج کے درمیانی علاقے میں ماجھی لہجہ بولا جاتا ہے، دریائے ستلج اور دریائے بیاس کے درمیانی علاقے کے لہجے کو دوآبی لہجہ کہا جاتا ہے جب کہ انڈین پنجاب کے اکثریتی علاقے اور پاکستان میں وہاڑی کے علاوہ بہاول نگر اور بہاولپور کے علاقے کے لہجے کو مالوائی لہجہ کہا جاتا ہے۔

راولپنڈی اور اس کے گرد و نواح کے پہاڑی علاقے کے لہجے کو پوٹھوہاری لہجہ کہتے ہیں۔ پشاور، کوہاٹ، ایبٹ آباد اور مانسہرہ کے علاقے میں ہندکو بولی جاتی ہے۔جنوبی پنجاب میں سرائیکی بولی جاتی ہے۔ یہ زبان عام طور پر دو رسم الخطوں میں لکھی جاتی ہے۔ پاکستان میں یہ عربی،فارسی رسم الخط اور مشرقی پنجاب میں گورمکھی میں لکھی جاتی ہے۔ہندوؤں کے اردو مخاصمانہ رویہ کے برعکس پنجاب کے مسلمانوں نے اردو کو کاندھا دیا اور اسے اپنا لیا۔ہندوستان سے پاکستان منتقل ہونے والی ملٹری اور سول بیوروکریسی زیادہ تراردو دان تھی۔

بیوروکریسی میں اکثر اہلکار پنجاب سے تھے لیکن ان کے سینئرز اردو بولنے والے تھے یوں اہلکاروں نے سینئرز کے زیرِ اثر اردو سے کام چلایا۔اردو دان طبقہ تھا تو بہت کم لیکن اس کا اثر و رسوخ بہت زیادہ تھا۔آنے والے وقتوں میں پاکستانی پنجاب میں پنجابی معدوم ہوتی چلی جائے گی کیونکہ پنجاب کے تعلیمی اداروںمیں اسے پڑھایا نہیں جا رہا۔2002 کے ایک سروے کے مطابق صوبہ سندھ میں سندھی میڈیم اسکولوں کی تعداد30700سے کچھ زیادہ تھی۔

اسی طرح صوبہ خیبر پختون خواہ میں پشتو پڑھانے والے اسکولوں کی تعداد10731تھی۔ اگر اس کے مقابلے میں صوبہ پنجاب کو دیکھیں تو 1947سے لے کر اب تک پنجابی زبان کی تعلیم دینے والا ایک بھی اسکول نہیں ہے۔یہ انتہائی افسوسناک بات ہے۔

اس کا جتنا نوحہ کیا جائے کم ہے۔اس صورتحال کی ایک وجہ پنجابی بچوں،نوجوانوں اور بڑوں کی اپنی ماں بولی سے کچھاؤ ہے۔2002 میں پنجاب میں ایک سوشیولوجیکل سروے کیا گیا جس میں دیکھا گیاکہ پنجابی زبان کے راستے میں کیا دشواریاں حائل ہیں۔ایسا ہی ایک سروے2021میں اسلام آباد شہر میں ہوا۔دونوں سروے کے نتائج ایک جیسے تھے۔رائے دینے والے پنجابی نوجوان 18سے 21سال کی عمر کے تھے۔

نوجونوں سے بہت ان فارمل انداز میں پوچھا گیا کہ وہ پنجابی کیوں نہیں بولتے۔ نوجوانوں نے بتایا کہ سب سے پہلے تو ان کے اوپر Peer pressureدوستوں کا دباؤ ہوتا ہے،کہ دوستوں میں بیٹھ کر اگر پنجابی بولیں تو ہر کوئی عجیب نظروں سے دیکھنے لگتا ہے،کہ یہ کون گنوار ہے،اس لیے پنجابی بولتے ہوئے شرمندگی ہوتی ہے۔ والدین اور بڑے بھی پنجابی میں بات کرتے کرتے جب کسی بچے یا نوجوان سے مخاطب ہوتے ہیں تو پنجابی سے اردو بولنے لگتے ہیں۔

طلبا نے اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ جب اپنے گاؤں جاتے ہیں تو پنجابی ہی بولتے ہیں لیکن واپس شہر آتے ہی اردو اپنا لیتے ہیں۔یہ بھی ایک افسوس ناک امر ہے کہ یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ پنجابی صرف مزاح اور جگتوں کے لیے ہے۔یہ صحیح ہے کہ بہت سے ٹی وی چینلز اور تھیٹروں میں اس بڑی زبان سے صرف جگت کا کام لیا جاتا ہے۔

ایک ایسا کلچر پیدا کرنا ہوگا کہ پنجابی نوجوان بلھے شاہ،وارث شاہ،شاہ مادھو لال حسین،خواجہ فرید جیسے عظیم شعرا کو پڑھیں۔اس زبان کا ادب بہت Rich ہے۔پاکستانی پنجاب میں پنجابی خود پنجابیوں کے ہاتھوں Intellectual موت مر رہی ہے۔

قریب ہے کہ یہ بڑی زبان پاکستان میں معدوم ہو جائے۔مستقبل میں یہ زبان صرف سکھوں کی وجہ سے قائم رہے گی کیونکہ گرنتھ صاحب پنجابی میں لکھی ہوئی ہے اور وہ یہ زبان بولتے بھی فخر سے ہیں۔ کروڑوں لوگوں کی زبان اگر اس بے رخی کی وجہ سے مر گئی تو یہ ایک بہت بڑا المیہ ہوگا۔

Load Next Story

@media only screen and (min-width: 1024px) { div#google_ads_iframe_\/11952262\/express-sports-story-1_0__container__ { margin-bottom: 15px; } } @media only screen and (max-width: 600px) { .sidebar-social-icons.widget-spacing { display: none; } }