میڈم چیف منسٹر !

آپ نے کئی شعبوں میں نئے initiatives بھی لیے ہیںجو قابلِ ستائش ہیں۔

zulfiqarcheema55@gmail.com

میڈیا کے ذریعے معلوم ہوتا رہتا ہے کہ آپ صوبۂ پنجاب میں بہتری لانے کے لیے خاصی محنت کررہی ہیں، آپ نے کئی شعبوں میں نئے initiatives بھی لیے ہیںجو قابلِ ستائش ہیں۔ مگر کچھ اہم امور ایسے ہیں جو آپ کی زیادہ توجہ کے متقاضی ہیں۔

 صوبائی حکومت کی سب سے بڑی ذمیّ داری اپنے شہریوں کی جان اور مال کا تحفّظ ہوتا ہے۔ اگر کوئی حکومت عوام کے جان اور مال کا تحفّظ نہیں کرسکتی تو وہ چاہے کتنے ہی ترقیاتی پروجیکٹ مکمل کرلے، وہ کامیاب حکومت نہیں کہلاسکتی۔

چیف منسٹر صاحبہ! اگر آپ اپنے ممبرانِ اسمبلی کے ساتھ علیحدہ میٹنگ کریں اور ان سے مسائل اور مصائب پوچھیں تو یقیناً سب پنجاب میں جرائم کی سنگین صورتحال کو تسلیم کریں گے،یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ چند جگہوں کے علاوہ کہیں بھی پولیس افسروں کی جرائم پر قابو پانے کی جانب کوئی توجہ نہیں ۔

 شہباز شریف صاحب جب 1997 میں پہلی بار پنجاب کے وزیراعلیٰ بنے تو ان کی ترجیحِ اوّل جرائم کی روک تھام تھی۔ وہ لاہور میں قائم کردہ کرائمز کمیٹی کے سربراہ رہ چکے تھے، اس لیے جانتے تھے کہ جرائم کا قلع قمع صرف رزقِ حلال کھانے والے جراتمند افسر ہی کرسکتے ہیں۔

نااہل اور حرام کھانے والے افسر صرف جھوٹی کہانیاں سناتے ہیں، خوشامد کرتے ہیں یا سوشل میڈیا پر وہ چیزیں اپلوڈ کرتے رہتے ہیں جن کا جرائم کی روک تھام یا عوام کو تحفّظ دینے سے کوئی تعلّق نہیں ہوتا، اس لیے انھوں نے بڑی چھان پھٹک کے بعد اچھی شہرت رکھنے والے (Honest and effective) افسروں کو فیلڈ میں تعینات کیا۔ اُس وقت وزیراعلیٰ شہباز شریف صاحب نے مرحوم ناصر درانی کو گوجرانوالہ تعینات کیا اور مجھے لاہور پولیس کا سربراہ مقرر کیا۔ طارق کھوسہ فیصل آباد تعینات ہوئے اور شوکت جاوید صاحب کو لاہور کا ڈی آئی جی مقرر کیا گیا، اسی طرح نیک نام افسروں کو ڈی سی اور کمشنر لگایاگیا۔

میرے ذاتی علم میں ہے کہ کئی بدنام افسرفیلڈ پوسٹنگ حاصل کرنے کے لیے بڑے بڑے سفارشیوں کی خدمات حاصل کرتے رہے مگر ان کی ایک نہ چلی اور کوئی کرپٹ اور بری شہرت کا حامل افسر فیلڈ میںتعینات نہ ہوسکا۔ صورتحال یہ تھی کہ اگر ممبرانِ اسمبلی کسی ضلعی پولیس افسر یعنی ڈی پی اویا ڈی سی سے ناراض ہوتے اور وزیراعلیٰ سے اس کی ٹرانسفر کی درخواست کرتے تو چیف منسٹر مختلف ذرایع سے اس افسر کی شہرت (integrity) کے بارے میں معلومات حاصل کرتے تھے، اگر انھیں معلوم ہوجاتا کہ افسر دیانتدار ہے اور لگن سے کام کررہا ہے تو پورے ضلع کے تمام ممبرانِ اسمبلی اکٹھے ہو کر بھی اسے تبدیل نہیں کراسکتے تھے۔ مگر پورے صوبے میں کسی شہری سے موٹر سائیکل بھی چھینا جاتا تو شہبازشریف صاحب اس کا نوٹس لیتے تھے۔

ان کی دلچسپی اور commitment دیکھ کر صوبے بھر کے پولیس افسر متحرّک ہوئے اور ایماندار اور بہادر پولیس افسروں نے سب سے بڑے صوبے کو جرائم سے کافی حد تک پاک کردیا تھا۔ 1997-99کا دَور بلاشبہ پنجاب میں بہترین گورننس کا دور تھا۔ پھر یوں ہوا کہ جنرل مشرّف بغیر سوچے سمجھے پہلے کارگل پر چڑھ دوڑا اور پھر اس نے حکومت پر قبضہ کرلیا اور ایسا کلہاڑا چلایا کہ ملک پچاس سال پیچھے چلاگیا۔

میاں صاحبان کی جلا وطنی کے دوران میں جب بھی اپنے گاؤں جاتا تو مجھے گاؤں کا ایک کاشتکار بابا غلام حسین خاص طور پر پوچھتا تھا کہ ’’میاں نواز شریف تے شہباز شریف کدوں واپس آؤن دے؟‘‘ میں اس سے پوچھتا تھا ’’چاچاجی آپ انھیں بہت یاد کرتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟‘‘ تو وہ کہتا تھا ’’او ہناں بدمعاشی تے جرائم ختم کیتے سن‘‘ (انھوں نے جرائم اور بدمعاشی کا خاتمہ کیا تھا) 2008کی الیکشن مہم میں جب شہباز شریف صاحب وزیرآباد اور علی پور چٹھہ آئے تو دورانِ سفر کئی جگہوں پر دیہاتی ان کی گاڑی رکوا کر ان سے ملتے اور عمر رسیدہ لوگ ان کی کمر پر تھپکی دے کر کہتے تھے ’’پُترا جتھوں چھڈیا سائی اوتھوں ای شروع کریں‘‘ (بیٹا ملک بدری سے پہلے آپ جرائم کی روک تھام کا جو بہترین کام کررہے تھے، اب پھر وہیں سے شروع کر دیں)۔

جانیں محفوظ نہ ہوں تو نہ نئے اسپتال اچھے لگتے ہیں، نہ صاف ستھری سڑکیں۔ اور نہ ہی کسان کارڈ۔ عدمِ تخفّظ کا احساس زندگی کو ایک روگ بنادیتاہے۔ جو حکمران یا پولیس افسر شہریوں کے جان اور مال کی حفاظت کرتاہے، وہ اُن کے دل میں اتر جاتا ہے۔ جنرل مشرّف اور پرویز الٰہی کے دور میں پیسے کی ریل پیل تھی، باہر سے War on Terror کے نام پر اربوں ڈالر آرہے تھے، پنجاب میں ترقیاتی کام بھی ہوتے رہے مگر جرائم اور بدمعاشی کو فروغ ملا اور گوجرانوالہ اور سیالکوٹ جیسے صنعتی شہروں میں کراچی کی طرح اغواء برائے تاوان ایک انڈسٹری کی صورت اختیار کرگیا، لہٰذا 2008کے الیکشن میں عوام نے ان کے تمام تر ترقیاتی کاموں کے باوجود مشرّف اور پرویزالٰہی کے امیدواروں کو شکست سے دوچار کر دیا۔ 2008تک گوجرانوالہ کا کوئی بڑا صنعتکارایسا نہیں تھا جو خود یا اس کا بیٹا یا بھائی تاوان کے لیے اغواء نہ ہوا ہو اور کوئی بڑا بزنس مین ایسا نہیں تھا جس کے گھر بھتّے کی پرچیاں نہ آتی ہوں۔

اس پس منظر میں شہباز شریف صاحب جب 2008 میں دوبارہ وزیراعلیٰ بنے تو انھوں نے (میری خواہش کے برعکس)مجھے گوجرانوالہ تعیّنات کردیا، تاکہ گوجرانوالہ ڈویژن کو خطرناک ڈاکوؤں اور اغواکاروں سے آزاد کرایا جائے۔ ہم نے اس ٹاسک کو آپریشن کا نہیں خطرناک ترین مجرموں کے خلاف جنگ کا نام دیا، اور رزقِ حلال کھانے والے بہادر پولیس افسروں کو ٹیم میں شامل کیا جنھوں نے چند مہینوں میں ڈاکوؤں اور اغواکاروںکے منظم گروہوں کاخاتمہ کرکے پوری ڈویژن کو امن کا گہوارہ بنادیا ۔گوجرانوالہ ڈویژن کے مختلف اضلاع سے اب بھی خط اور میسج آتے ہیں۔ چند روز پہلے وہاں سے پھر ایک معزز شہری کا خط آیا ہے کہ ’’آپ کے دور کے پولیس افسر بتاتے ہیںکہ جرائم کو جڑ سے اکھاڑ دینے کا محاورہ ہم نے پڑھا ضرور تھا مگر اس کے معنی ہمیں ڈی آئی جی چیمہ صاحب کے دور میں ہی سمجھ آئے۔

اُس وقت پولیس کے رعب اور ڈر کا یہ عالم تھا کہ دیہاتوں سے چارے کی چوری بھی ختم ہوگئی تھی۔ مگر چیمہ صاحب! اب جرائم میں بے تحاشا اضافہ ہوگیا ہے۔ خطرناک مجرموں کو کوئی پوچھنے والا نہیں، آپ وزیراعلیٰ سے بات کریں’’ میں نے انھیں جواب دیا ہے کہ میں کالم کے ذریعے حقائق ضرور بتاؤں گا۔ اسی نوعیّت کے خط اور میسج ہر روز آتے ہیں، گوجرانوالہ اور شیخوپورہ (جسے وزیرستان کہا جاتا تھا) میں امن قائم کرنے والے پولیس افسر فیس بک پر پولیسنگ نہیں کرتے تھے، وہ میدان میں اتر کر خطرناک مجرموں سے پنجہ آزمائی کرتے اور عوام کو تحفظ فراہم کرتے تھے۔

تلخ حقیقت یہ ہے کہ اِس وقت پنجاب میں جرائم کی صورتِ حال بڑی تشویشناک ہے جب کہ ضلعوں میں تعیّنات اکثر پولیس افسروں کو جرائم کی روک تھام میں کوئی دلچسپی نہیں۔ زیادہ تر پولیس افسران بوجہ سمجھتے ہیں کہ انھیں ٹرانسفر نہیں کیا جائے گا لہٰذا عوام کا تخفّظ یا جرائم کی روک تھام ان کی ترجیحات میں ہی شامل نہیں۔ اس تاثر کے بڑے منفی نتائج سامنے آرہے ہیں، جرائم میں اضافہ ہوا ہے اورلوگ عدمِ تحفّظ کا شکار ہیں۔ پہلے بھی لکھ چکا ہوں اب پھر کہوںگا کہ آپ اپنی ٹیم خود بنائیں۔ ضلعوں اور ڈویژنوں میں نیک نام افسر تعیّنات کریں اور پھر ان پر اعتماد کریں۔ اگر انھیں اپریشنل اٹانومی حاصل نہیں ہوگی تو وہ ڈلیور نہیں کرسکیں گے۔ اچھی حکومت میں اختیارات delegate کیے جاتے ہیں۔

ایک اہم بات یہ ہے کہ نگران دور میں پنجاب میں ضلعی پولیس افسروں نے پولیس چوکیوںکی عمارتوں سے فورس withdraw کرکے چوکیاں خالی چھوڑ دی ہیں، اس سلسلے میں نگران وزیراعلیٰ کو میں نے میسج کیا تھا تو انھوں نے پولیس سربراہ کو ہدایات دیںتھیں، مگر چوکیاں ابھی تک خالی پڑی ہیں۔ چوکیوں پر پولیس کی موجودگی کے باعث جرائم کم ہوتے تھے۔ آپ حکم جاری کریں کہ تمام چوکیوں پر فوری طور پر (پہلے کی طرح) فورس تعیّنات کرکے انھیں functional کیا جائے۔ پولیس کی موجودگی سے جرائم پیشہ عناصر خوفزدہ ہوں گے اور عوام کو تخفّظ اور حوصلہ ملے گا۔ صفائی اور ستھرائی بہت اچھی چیز ہے مگر پنجاب کے کروڑوں عوام کا حق ہے کہ انھیں ’صاف پنجاب‘ سے پہلے ’’محفوظ پنجاب‘‘ دیا جائے۔

(جاری ہے)

Load Next Story