’’ایک اچھی پیش رفت یہی ہے کہ مذاکرات ہو رہے ہیں‘‘
گروپ ایڈیٹر ایکسپریس ایاز خان کا کہنا ہے کہ کے پی کا ایک ٹرائیکا ہے جس میں تین لوگ آتے ہیں، مولانا فضل الرحمن، علی امین گنڈاپور ہیں اور وہاں کے گورنر فیصل کریم کنڈی ہیں، اتفاق سے یہ تینوں ایک ہی علاقے ڈیرہ اسماعیل خان سے ہیں، جب ایک ہی علاقے کے سیاستدان ہوتے ہیں تو انھوں نے محاذ گرم رکھنا ہوتا ہے۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام ایکسپرٹس میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا مولانا فضل الرحمن سیاسی قیدیوں کی رہائی کا ٹھیک مطالبہ کر رہے ہیں۔
تجزیہ کار فیصل حسین نے کہا کہ بات یہ ہے کہ جو حالات ہو چکے ہیں اگر ہم دیوار پر لکھا ہوا نہیں پڑھ سکتے تو پھر کیا کہہ سکتے ہیں، نابینا ہیں یا جاہل ہیں، ان دوباتوں میں سے ایک ہے، دیوار پر اب واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ اس ملک کے اندر کیا چل رہا ہے، عمران خان اگر جیل سے باہر نہیں آ رہے تو آپ یقین کر لیں کہ وہ اپنی مرضی سے نہیں آ رہے، کوئی دوسرا ایشو نہیں ہے۔
تجزیہ کار نوید حسین نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن نے جس طرح کی تجویز دی ہے انھوں نے سیاسی بلوغیت کا مظاہرہ کیا ہے، اسی پروگرام میںمیں نے بارہا کہا ہے کہ اگر آپ نے اعتماد سازی کرنی ہے تو سب سے پہلا اس کا اسٹیپ یہی ہے کہ آپ سیاسی قیدیوں کو رہا کریں، یہاں یہ تجویز مولانا صاحب کی طرف سے آئی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ یہ تجویز پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی طرف سے آنی چاہیے تھی۔
تجزیہ کار عامر الیاس رانا نے کہا کہ عمران خان ہمیشہ چوائس کرتے ہیں ہیرے، وہ کپتان ہیں اور ٹیم اپنی مرضی سے بہترین سیٹ کر کے کھلاتے ہیں، بہرحال بات تو مذاکرات کی ہے جب کل پی ٹی آئی لسٹ دے گی تو حکومت نے جو ان کے اراکین ہیں اور اتحادی جماعتیں وہ پھرسارے مل کر پرائم منسٹر کے آگے چلے جائیں گے کہ جی یہ لسٹ ہے، ایسے میں ایک اچھی پیش رفت بہر حال یہی ہے کہ وہ مذاکرات ہو رہے ہیں۔
تجزیہ کار محمد الیاس نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ سیاسی قیدیوں کو رہا کرنا چاہیے، گورنمنٹ نے جو کہا ہے کہ فہرست دیں اس میں سے کس کس کو سیاسی قیدی تسلیم کرتی ہے اور کس کو تسلیم نہیں کرتی، اس میں9 مئی کا بھی واقعہ ہے،جو فہرست دی جاتی ہے اگر اس میں بانی پی ٹی آئی کا نام بھی آجائے تو کیا اس کو بھی تسلیم کریں گے اور انھیں رہا کرنے کی بات کریں گے،یہ ساری چیزیں دیکھنی پڑیں گی۔