سندھ میں پیپلز پارٹی کا اقتدار
2008 میں جنرل پرویزکی صدارت میں پیپلز پارٹی 2007 میں بے نظیر بھٹو کی شہادت کے نتیجے میں 1993 کے بعد اقتدار میں آئی تھی اور اس نے سندھ میں اپنی واضح اکثریت سے حکومت بنائی تھی اور پی پی نے مسلم لیگ (ن) سے مل کر حکومت بنائی تھی جو چند ماہ ہی چل سکی تھی اور آصف زرداری نے (ن) لیگ کی علیحدگی کے بعد ایم کیو ایم اور (ق) لیگ کو ملا کر گیلانی حکومت بنائی اور راجہ پرویز اشرف کی حکومتوں کی مدت پوری کرائی تھی۔
بلوچستان میں پی پی کا اور کے پی میں اے این پی کے ساتھ اتحاد سے وزیر اعلیٰ تھے جب کہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی اکثریتی حکومت تھی اور پی پی کی سندھ حکومت واضح اکثریت سے مضبوط حکومت تھی، بعد کے تینوں انتخابات میں پی پی سندھ میں واضح اکثریت سے حکومتیں بناتی رہی اور موجودہ سندھ حکومت بھی واضح اکثریت کی حامل ہے جہاں 2018 میں پی ٹی آئی کا اپوزیشن لیڈر تھا اور اب ایم کیو ایم کا اپوزیشن لیڈر ہے اور سولہ برسوں میں قائم علی شاہ کی جگہ مراد علی شاہ وزیر اعلیٰ بنتے رہے اور چار حکومتوں میں وزارت اعلیٰ صرف سیدوں کو ملتی رہی جب کہ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر دور میں سید قائم علی شاہ اور عبداللہ شاہ کے علاوہ ممتاز بھٹو، غلام مصطفیٰ جتوئی، آفتاب شعبان میرانی بھی وزیر اعلیٰ پی پی حکومتوں میں رہے مگر سیدوں کو زیادہ اہمیت بے نظیر بھٹو کے بعد آصف زرداری نے سب سے زیادہ دی اور سندھ کا زیادہ اقتدار سیدوں کے پاس رہا اور مراد علی شاہ پی پی کی حکومتوں میں تیسرے سید وزیر اعلیٰ ہیں اور سب سے زیادہ عرصہ اقتدار بھی سیدوں کا ہے جو شاید آصف زرداری کی ذاتی پسند ہیں۔
سندھ میں پیپلز پارٹی کا چوتھا اقتدار بھی بے حد مضبوط ہے اور سندھ کے ایک مضبوط سسٹم کے ساتھ چل رہا ہے اور موجودہ ایم کیو ایم کے اپوزیشن لیڈر علی خورشیدی نے سندھ سسٹم قرار دیا ہے۔
جمعہ دس جنوری کا سندھ اجلاس وہ منفرد اجلاس تھا جو میڈیا کے مطابق ایجنڈے کی کارروائی کے بغیر اسپیکر نے اس لیے ملتوی کر دیا کہ اس اجلاس میں صرف دو تین ارکان ہی موجود تھے جب کہ ایوان میں صرف پی پی ہی کے تقریباً ایک سو ارکان ہیں اور باقی ایم کیو ایم، پی ٹی آئی اور جی ڈی اے کے بھی کچھ ارکان ہیں مگر جمعہ کو بہ مشکل دو تین ارکان آئے اور کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے مختصر وقت میں کورم کے باعث ملتوی ہوا۔
سندھ اسمبلی کی رپورٹنگ کرنے والے ایک سینئر صحافی کے وی لاگ کے مطابق ایسا نہیں تھا اور کافی ارکان ایوان میں موجود تھے جہاں اپوزیشن لیڈر نے اسپیکر سے بات کرنے کی اجازت مانگی جو اسپیکر نے نہیں دی اور کورم نہ ہونے کے جواز پر اجلاس ملتوی کر دیا جس کے بعد ایم کیو ایم کے اپوزیشن لیڈر نے مقررہ مقام پر ارکان کے ہمراہ میڈیا ٹاک کی۔ ایم کیو ایم کے کنوینر اور وفاقی وزیر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی سندھ اسمبلی کو وہ اسمبلی قرار دے چکے ہیں کہ جہاں اپوزیشن کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی نہ انھیں ایوان میں بولنے کا موقعہ دیا جاتا ہے۔
موجودہ سندھ حکومت میں یوں تو کئی سینئر وزیر ہیں مگر تمام میں صرف ایک سینئر وزیر شرجیل انعام میمن ہی میڈیا میں چھائے نظر آتے ہیں جو سندھ کے وزیر اطلاعات ہونے کے علاوہ ٹرانسپورٹ اور ایکسائز کے وزیر بھی ہیں۔ وزیر ٹرانسپورٹ کی حیثیت سے انھوں نے کراچی ہی نہیں بلکہ سندھ کے بعض دیگر بڑے شہروں میں سندھ حکومت کی طرف سے مختلف بسیں چلوائی ہیں اور اب انھوں نے کراچی میں ڈبل ڈیکر بسیں چلوانے کا بھی اعلان کیا ہے اور وہ پی ٹی آئی سے متعلق دیگر وزیروں کے مقابلے میں زیادہ بیانات دیتے ہیں جن کی یہ بھی منفرد اہمیت ہے کہ وزیر اعظم کراچی آمد پر پہلی بار سینئر وزیر شرجیل میمن کے گھر انھیں دادا بننے کی مبارکباد دینے گئے۔
سندھ حکومت میں پہلے بیرسٹر مرتضیٰ وہاب کو مشیر قانون اور حکومت سندھ کا ترجمان رکھا گیا اور انھوں نے موثر طور سندھ حکومت کی ترجمانی کی اور بلدیہ عظمیٰ کراچی کے پیپلز پارٹی کے پہلے میئر ہیں جنھیں سندھ حکومت نے اکثریت نہ ہونے کے باوجود خصوصی طور پر میئر منتخب کرایا تھا جنھیں جماعت اسلامی منتخب نہیں مانتی اور انھیں قبضہ میئر قرار دیتی ہے جن کے پاس اکثریت نہیں تھی اور پی ٹی آئی کے یوسی چیئرمین میئر الیکشن والے دن غیر حاضر ہونے کے باعث وہ میئر منتخب ہو گئے تھے اور موجودہ جمہوریت میں ایسا ہی ہوتا ہے اور اکثریت حاصل کرنے کے لیے ممبران توڑ لینا عام بات ہے۔
سندھ حکومت نے ایک خاتون کے ساتھ سکھر کے اپنے میئر کو بھی اپنا ترجمان مقرر کیا ہوا ہے ، وزیروں، مشیروں، معاونین خصوصی اور دیگر سرکاری عہدیداروں نے بھی اپنے اپنے بندے رکھے ہوئے ہیں انھیں گاڑیاں اور سہولتیں ان کے اداروں سے مل جاتی ہیں مگر تنخواہیں کہاں سے ملتی ہیں اس کا پتا نہیں مگر پیپلز پارٹی اپنی حکومتوں اور ماتحت اداروں میں ملازمتیں دینے میں ہمیشہ فراغ دل رہی ہے۔ بجٹ اور جگہیں ہوں نہ ہوں مگر پی پی اپنے لوگوں کو مایوس نہیں کرتی اور اسی لیے تمام بلدیاتی اور حکومتی اداروں میں ملازمین کی بھرمار ہے اور ہر جگہ فاضل عملہ رکھا جاتا ہے جنھیں ماضی میں (ن) لیگ کی حکومت فارغ بھی کردیتی تھی۔
ایم کیو ایم پی پی کی ملازمتیں دینے کی اس فیاضی کو جانبدارانہ اور مخصوص قرار دیتی ہے اور اپنے لوگوں کو ملازمتیں نہ دینے پر احتجاج کرتی ہے جواب میں پی پی کے وزیر یہی الزام ایم کیو ایم پر دہرا دیتے ہیں کہ ماضی میں انھوں نے بھی یہی کیا تھا اور اپنے ماتحت اداروں میں اپنے لوگ بھرے تھے۔ سندھ میں سولہ برسوں سے پیپلز پارٹی کو اقتدار ایسے ہی نہیں مل رہا وہ اپنوں کو ہمیشہ نوازتی رہی ہے یہ خوبی مسلم لیگ (ن) میں تو ہے ہی نہیں وہ اپنوں کو نوازنے پر کم اور کارکردگی پر زیادہ یقین رکھتی ہے۔ سندھ کے قوم پرست بھی پی پی کی اسی فیاضی پر خوش ہیں اور تنقید نہیں کرتے مگر پی پی حکومت کی مجموعی کارکردگی پر مطمئن نہیں اور تنقید کرتے آ رہے ہیں۔