مظلوم فلسطینیوں کی فریاد
اس بارغزہ پر اسرائیلی جارحیت مسلسل پندرہ ماہ تک جاری رہی، جس میں پینتالیس ہزار سے زائد فلسطینیوں کی شہادت ہوئی، غزہ کو ملبے کا ڈھیر بنانے میں امریکا نے اسرائیل کی ہر ممکن مدد کی،کئی دوسری طاقتیں بھی اس سفاکیت اور غیر انسانی سلوک میں معاون تھیں، معصوم فلسطینیوں کی شہادت اور وہ بھی روزانہ کی بنیاد پر جس نے دلوں کو دہلا کر رکھ دیا۔
ایک زخمی معصوم فلسطینی بچی کی وڈیو وائرل ہوئی جس میں اس نے کہا تھا کہ وہ اللہ کے پاس جاکر ان ظالموں کی شکایت کرے گی۔ فلسطینیوں کے گھر بار تباہ وبرباد ہوگئے، اسرائیل نے سنگدلی اور ظلم کی انتہا کردی، اسپتالوں، اسکولوں اور دوسرے مقامات پر بمباری کی ہر چیز تباہ و برباد کردی گئی، فلسطینی اپنوں کی لاشیں اٹھائے تڑپتے، سسکتے اور اللہ سے مدد مانگتے رہے۔ اللہ غفور الرحیم، ستار و غفار ہے، سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔
یہودیوں کے مظالم کی تاریخ بہت پرانی ہے اللہ نے ان پر اپنی رحمتیں نازل کیں لیکن یہ قوم اللہ کی بھی ناشکری نکلی،کفران نعمت کیا۔ ان کی تاریخ بھی قابل عبرت ہے، جب رومیوں نے عیسائی مذہب قبول کرنے کے بعد یورپ اور شام میں یہودیوں پر زندگی تنگ کر دی تھی ،انھوں نے قتل کیا تو انھوں نے مسلمانوں سے امیدیں وابستہ کیں۔
لہٰذا جہاں بھی مسلمانوں کی حکومت ہوتی وہ اسی جگہ کا رخ کرتے، رومیوں نے انھیں بیت المقدس سے نہ صرف نکالا بلکہ ان کی عبادت گاہیں بھی تباہ کردیں، اس کے بعد ہی جب حضرت عمرؓ کا دور خلافت آیا تو بیت المقدس فتح ہوا۔
اس زمانے میں یہودیوں کو شہر میں داخلے کی اجازت دے دی گئی اور انھیں بیت المقدس کی زیارت کرنا بھی نصیب ہوئی یہ مہربانی خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وجہ سے میسر آئی، تاریخ اسلام میں ایسی بے شمار روشن مثالیں موجود ہیں جب مسلمانوں نے کفار و نصاریٰ کے ساتھ حسن سلوک اور رواداری کا معاملہ کیا۔
جب کہ اس سے قبل عیسائیوں نے ان پر پابندی لگا دی تھی۔ عیسائیوں نے یہودیوں سے نفرت کی وجہ سے اس چٹان کو کچرے سے ڈھانپ دیا تھا جس پر قبۃ الصخرہ Dome of Rock بنا ہوا ہے، یہودی اسے مقدس مانتے تھے، حضرت عمرؓ نے Rock پر پڑا ہوا کوڑا کرکٹ اپنے ہاتھوں سے ہٹایا۔ مسلمان اسے اس وجہ سے مقدس مانتے ہیں اس کی وجہ رسول پاکؐ شب معراج کے لیے اسی چٹان سے سفر کے لیے روانہ ہوئے تھے۔
انیسویں صدی میں یورپ اور روس میں عیسائیوں نے یہودیوں کی حرکتوں کی وجہ سے ان پر ظلم کے پہاڑ توڑے۔ ان حالات میں یہودیوں نے نقل مکانی کی۔ جرمنی، روس اور مشرقی یورپ سے یہودی لاکھوں کی تعداد میں بے گھر ہوگئے، انھوں نے برطانیہ، امریکا میں سکونت اختیارکی اور ایک بڑی تعداد فلسطین میں آکر آباد ہوگئی۔
یہودیوں کے ساتھ برطانیہ اور امریکا کی پوری مدد شامل تھی اور ان کی ایما پر ہی انھوں نے فلسطین پر ناجائز قبضہ کر لیا۔ ان ہی فلسطینیوں کے ساتھ زیادتی کرنے لگے، جن فلسطینیوں نے برے وقت میں ان کا ساتھ دیا تھا، یہودی ہر طرف سے ذلیل و خوار تھے انھوں نے اپنے محسنوں پر ہی جنگیں مسلط کی تھی۔
اسرائیل نے غزہ میں جو مالی و جسمانی نقصان فلسطینیوں کو پہنچایا اسے دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان میں اور درندوں میں ذرہ برابر فرق نہیں ہے بلکہ درندے ان سے بہتر ہوں گے۔ ہٹلر نے ٹھیک کیا تھا اور ٹھیک کہا تھا کہ میں نے تھوڑے سے یہودی اس لیے چھوڑ دیے ہیں تاکہ دنیا کو پتا چل سکے کہ میں نے انھیں کیوں مارا؟
غزہ اور اس میں بسنے والوں کی لاشوں کا انبار لگانے والے یہی صیہونی اور نصرانی طاقتیں ہیں، مسلمانوں نے کبھی بھی کسی مذہب، نسل سے تعلق رکھنے والوں کے لیے گھناؤنی اورگھٹیا سازشیں نہیں کیں، صرف اپنا دفاع اور جہاد کیا ہے جس کا حکم اللہ نے دیا ہے یہ زمین اللہ کی ہے اس پر بسنے والے مشرکوں کی سرکوبی کے لیے اللہ نے احکامات جاری کیے ہیں جب کہ بلاوجہ غیر مسلموں پر ظلم ڈھانے کی بالکل اجازت نہیں ہے۔
غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے کہا ہے کہ امریکی محنت رنگ لے آئی۔ بے شک رنگ لے آئی۔ غزہ میں قیامت بپا کر کے۔ روز کے حساب سے سیکڑوں ٹن بارود برسا کر، ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے، پہلے بدترین ظلم کرتے ہیں اور پھر روٹی کے ٹکڑے جہازوں کے ذریعے نیچے پھینکتے ہیں، وہ وقت دور نہیں جب حشر بپا ہوگا اور جنت و جہنم میں جانے کا فیصلہ سنایا جائے گا۔