خود کو کبھی سیلف میڈ نہ کہیں

میں نے ہمیشہ اچھے لوگوں کو ان کی اس مسکراہٹ سے پہچانا

www.facebook.com/javed.chaudhry

’’اس کی وجہ تکبر ہے‘ ہر کام یاب انسان اپنی کامیابی کو ذاتی اچیومنٹ سمجھتا ہے‘ یہ احساس اس کے اندرغرور اور تکبر پیدا کر دیتا ہے اور یہاں سے خرابی جنم لیتی ہے‘‘ ان کے چہرے پر مسکراہٹ تھی‘ یہ ایک خاص قسم کی مسکراہٹ تھی اوریہ مسکراہٹ دنیا کے ہر صوفی‘ ہر نیک‘ عالم اور اصلی دانشور کے چہرے پر ہوتی ہے۔

دنیا کا ہر صوفی‘ ہر عالم اور ہر نیک شخص اپنی نیکی‘ اپنے علم اور اپنے تصوف کو لوگوں سے چھپا کر رکھتا ہے لیکن وہ اپنی مسکراہٹ نہیں چھپا پاتا۔ یہ مسکراہٹ اچھے لوگوں کا ٹریڈ مارک ہوتی ہے اور یہ آپ کو مدرٹریسا سے لے کر نیلسن منڈیلا‘ میاں محمد بخش سے شاہ حسین اور امام غزالیؒ سے لے کر مولانا رومؒ تک دنیا کے ہر اچھے‘بڑے‘ نیک‘ عالم اور صوفی کے چہرے پر دکھائی دیتی ہے۔

میں نے ہمیشہ اچھے لوگوں کو ان کی اس مسکراہٹ سے پہچانا‘ میں نے ان سے ایک ایسا سوال پوچھا جومیرے دل میں ہمیشہ سے کھٹکتاچلا آ رہا ہے ۔ میں نے ان سے پوچھا ’’دنیا کا ہر کام یاب انسان آخر میں تنہا کیوں ہوتا ہے؟‘‘ انھوں نے فوراً جواب دیا ’’اپنے تکبر اور غرور کی وجہ سے‘‘ میں ان سے تفصیل کا متقاضی تھا‘ وہ بولے ’’دنیا میں تکبر کی سب سے بڑی شکل سیلف میڈ ہے‘‘میں نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا‘ انھوں نے فرمایا ’’جب کوئی انسان اپنے آپ اور اپنی کام یابیوں کو سیلف میڈ کا نام دیتا ہے تو وہ نہ صرف اﷲ تعالیٰ‘ قدرت اورفطرت کی نفی کرتاہے بلکہ وہ ان تمام انسانوں کے احسانات اور مہربانیوں کو بھی روند ڈالتا ہے جنھوں نے اس کی کام یابی میں مرکزی کردار ادا کیا تھا اور یہ دنیا کا بدترین تکبرہوتاہے‘‘۔

وہ رکے‘ چند لمحے سوچا اور اس کے بعد بولے ’’تم فرعون اور نمرود کو دیکھ لو‘یہ دونوں انتہا درجے کے ذہین‘ فطین اور باصلاحیت حکمران تھے‘ فرعون نے نعشوں کو حنوط کرنے کا طریقہ ایجاد کیاتھا‘ اس نے ایک ایسی سیاہی بھی بنوائی تھی جو قیامت تک مدھم نہیں ہوتی‘ اس نے ایسے احرام بھی تیار کیے تھے جن کی ہیئت کو آج تک کی جدید سائنس نہیں سمجھ پائی۔

اس نے دنیامیں آب پاشی کا پہلا نظام بھی بنایا تھا اور فرعون کے دور میں مصر کے صحراؤں میں بھی کھیتی باڑی ہوتی تھی لیکن یہ فرعون بعدازاں عبرت کی نشانی بن گیا۔ کیوں؟‘‘ انھوںنے میری طرف دیکھا‘ میں نے فوراً عرض کیا ’’اپنے تکبر‘ اپنے غرور کی وجہ سے‘‘ انھوں نے اثبات میں سر ہلایا اور مسکرا کر بولے ’’ہاں لیکن فرعون کا تکبر سیلف میڈ لوگوں کے غرور سے چھوٹا تھا‘ اس نے صرف اﷲ کی نفی کی تھی‘ وہ اﷲ کے سوا اپنے تمام بزرگوں‘اپنے تمام دوستوں اور اپنے تمام مہربانوں کا احسان تسلیم کرتا تھا۔ 

وہ اپنے استادوں کو دربار میں خصوصی جگہ دیتا تھا اور وہ اپنی بیویوں کا اتنا احترام کرتا تھا کہ اس نے اپنی اہلیہ محترمہ کے کہنے پر حضرت موسیٰ  ؑکو گود لے لیا تھا‘‘ وہ رکے اور دوبارہ بولے ’’تم نمرود کو دیکھو‘ نمرود نے کھیتی باڑی کے جدید طریقے ایجاد کرائے تھے۔

اس نے دنیا میں پہلی بار زمین کو یونٹوں میں تقسیم کیاتھا‘ اس نے اونچی عمارتیں بنوائیں تھیں‘ اس نے شہروں میں فوارے لگوائے تھے‘ اس نے دنیا میں پہلی بار درخت کاٹنے کی سزا تجویز کی تھی اور وہ دنیا کا پہلا بادشاہ تھا جس کے ملک سے غربت اوربے روزگاری ختم ہو گئی تھی اور جس کی رعایا کاہر فرد خوشحال اور مطمئن تھا۔

لیکن پھر یہ بادشاہ بھی اﷲ کے عذاب کاشکار ہوا۔ کیوں؟‘‘ میںنے فوراً عرض کیا ’’غرور کی وجہ سے‘‘ انھوں نے اثبات میں سر ہلایا اور بولے ’’ہاں وہ اﷲ کے وجود کی نفی کا مرتکب ہوا تھا اور یہ اس کا واحد جرم تھاجب کہ عام زندگی میں وہ ایک اچھا انسان اور شان دار بادشاہ تھا‘ وہ مہمان نواز تھا‘ وہ شائستگی کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتا تھا‘ اس نے اپنے دربار میںدنیا جہاں کے عالم اورماہرین جمع کررکھے تھے‘ وہ بہادری اور شجاعت میں یکتا تھا‘ وہ اپنے دوست احباب‘ ماں‘ باپ اور عزیز رشتے داروں کا بھی احترام کرتا تھا اوروہ لوگوں کے احسانات اور مہربانیوں کو بھی یاد رکھتا تھا لیکن اس نے اﷲ کی ذات کی نفی کی‘ خود کو خدا کہہ بیٹھا اور اﷲ کی پکڑ میں آ گیا‘‘ وہ رک گئے۔

وہ چند لمحے سوچتے رہے اور اس کے بعد بولے ’’فرعون اور نمرود نے صرف اﷲ کی ذات میں برابری کی تھی جب کہ خود کو سیلف میڈ کہنے والا شخص نعوذ باللہ نہ صرف اس سے برتری کا دعویٰ کرتا ہے بلکہ وہ دنیا بھر کے ان لوگوں کے احسانات بھی فراموش کردیتا ہے جنھوں نے اس کی کام یابی میں کلیدی کردار ادا کیا۔

چناںچہ یہ شخص فرعون اور نمرود کے مقابلے میں بھی کئی گنا بڑے غرور اور تکبر کامظاہرہ کرتا ہے لہٰذا یہ آخر میں اﷲ کی پکڑ میں آ جاتاہے اور اﷲ تعالیٰ اس پرتنہائی کا عذاب نازل فرما دیتا ہے‘‘ وہ رکے‘ انھوںنے ایک لمبا سانس لیا اور دوبارہ بولے ’’انسان مجلسی جانور ہے۔

انسان‘ انسان کا محتاج ہے‘ ہم سب اپنے جیسے لوگوں میں بیٹھنا چاہتے ہیں‘ ان کے ساتھ گپ شپ کرنا چاہتے ہیں‘ ان کے ساتھ اپنے جذبات شیئر کرنا چاہتے ہیں‘ ہمارے لیے سب سے بڑی سزا تنہائی ہوتی ہے اسی لیے قید تنہائی کو دنیا میں سب سے سنگین سزاقرار دیا گیا۔

انسان بڑے سے بڑا عذاب برداشت کر جاتاہے لیکن وہ تنہائی کی سزا نہیں بھگت سکتا۔ اﷲ تعالیٰ کیوںکہ ہماری رگ رگ‘ ہماری نس نس سے واقف ہے چناںچہ وہ خود کو سیلف میڈ قرار دینے والوں کو تنہائی کی حتمی سزا دیتا ہے۔ تم دیکھ لو‘ دنیا میں جس بھی شخص نے خود کو سیلف میڈ قرار دیا‘ جس نے بھی اپنی اچیومنٹس کو اپنی ذاتی کوشش‘ جدوجہد اور محنت کا نتیجہ کہا وہ کام یابی کی آخری اسٹیج پر پہنچ کر تنہائی کا شکار ہوگیا۔

وہ تنہائی کی موت مرا‘‘ وہ خاموش ہوگئے‘ میں چند لمحے انھیں دیکھتا رہا‘ جب خاموشی کا وقفہ طویل ہو گیا تو میں نے عرض کیا ’’ہمیں سیلف میڈ کے بجائے کیا کہنا چاہیے‘‘ وہ فوراً بولے ’’اﷲ میڈ‘‘وہ چندلمحے مجھے دیکھتے رہے اور اس کے بعد بولے ’’ کام یاب اور کامران لوگوں پر اﷲ کا خصوصی کرم ہوتا ہے‘ اﷲ ان لوگوں کو کروڑوں‘ اربوں لوگوں میں سے کام یابی کے لیے خصوصی طور پر چنتا ہے‘ انھیں وژن اور آئیڈیاز دیتا ہے‘ ان کو محنت کرنے کی طاقت دیتا ہے‘ انھیں دوسرے انسانوں کے مقابلے میں زیادہ توانائی بخشتا ہے‘ ان کے آگے بڑھنے کے خصوصی مواقع پیدا کرتا ہے‘ ان کے لیے کام یابی کے راستے کھولتا ہے‘ معاشرے کے بااثر اوراہم لوگوں کے دلوں میں ان کے لیے محبت اور ہمدردی پیدا کرتاہے اور آخر میں تمام لوگوں کو حکم دیتاہے وہ ان لوگوں کو کام یاب تسلیم کریں‘ وہ اپنی نشستوں سے اٹھ کر ان کے لیے تالی بجائیں۔

اگریہ حقیقت ہے تو پھر یہ ساری کام یابی اﷲ کی کامیابی نہ ہوئی‘ہم لوگ اورہماری ساری کام یابیاں اﷲ میڈ نہ ہوئیں‘ تم سوچو‘ تم بتاؤ‘‘ ۔ انھوںنے رک کر میری طرف دیکھا‘ میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

 وہ بولے ’’ اور جب کوئی کام یاب شخص اپنی کام یابی کو اﷲ کا کرم اور مہربانی قرار دیتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس کے جواب میںاس کے گرد رونق لگا دیتاہے‘ وہ لوگوں کے دلوں میں اس شخص کے لیے محبت ڈال دیتاہے یوں یہ شخص زندگی کی آخری سانس تک لوگوں کی محبت اور رونق سے لطف اٹھاتا رہتا ہے‘ اﷲ اس کی زندگی پر تنہائی کا سایہ نہیں پڑنے دیتا‘‘۔

میں نے ان کی طرف دیکھا اور ڈرتے ڈرتے پوچھا ’’پھر انسان کی زندگی میں اس کی کوشش اور جدوجہد کا کیا مقام ہوا؟‘‘ انھوںنے غور سے میری طرف دیکھا اور بولے ’’ہماری کیا مجال ہے ہم اس کی اجازت کے بغیر محنت کر سکیں یا ہم اس کی مہربانی کے بغیرجدوجہد کر سکیں‘ ہم میں تو اتنی مجال نہیں کہ ہم اس کی رضا مندی کے بغیر اس کانام تک لے سکیں‘ پھر ہماری محنت‘ ہماری جدوجہد کی کیا حیثیت ہے‘ یہ سب اﷲ کی مہربانی کا کھیل ہے‘ یہ سب اﷲ میڈ ہے‘ ہم اور ہم سب کی کام یابیاں اﷲ میڈ ہیں‘ خدا کے بندو‘اﷲ کے کریڈٹ کو تسلیم کرو تا کہ تمہاری زندگیاں تنہائیوں سے بچ سکیں‘ تم پر غم کا سایہ نہ پڑے‘‘۔وہ رکے اور اس کے بعد زور دے کر بولے ’’یاد رکھو‘ زندگی میں کبھی خود کو سیلف میڈ نہ کہو‘ ہمیشہ اپنے آپ کو اﷲ میڈ سمجھو‘ اﷲ تم پر بڑا کرم کرے گا‘‘۔

Load Next Story