’’حکومت بجٹ خسارہ مقررہ حد تک رکھنے میں ناکام ہوگئی‘‘
تجزیہ کار شہباز رانا کا کہنا ہے کہ مالیاتی ذمے داری اور قرض حد بندی ایکٹ 2005 کے تحت رپورٹ تیار ہو گئی ہے۔ مالیاتی پالیسی میں بیان قانون کے تحت قرض حد بندی ایکٹ 2005کی خلاف ورزی کی وجوہات قومی اسمبلی میں پیش کرنا لازم ہے، تیار ہونے والی رپورٹ کی وفاقی کابینہ سے منظوری لی جائے گی اورپھر پارلیمنٹ کو پیش کی جائے گی۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام دی ریویو میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ نئی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ایک سال میں فی کس قرضہ ساڑھے31ہزار روپے بڑھ گیا ہے، حکومت بجٹ خسارے کو مقررہ حد تک رکھنے میں ناکام ہو گئی ہے۔
تجزیہ کار کامران یوسف نے کہا کہ2005 میں پاکستان کی پارلیمنٹ نے فسکل ریسپانسبلٹی اینڈ ڈیٹ لمیٹیشن ایکٹ (مالیاتی ذمہ داری اور قرض حد بندی ایکٹ 2005) پاس کیا تھا اس کا بنیادی مقصد حکومت کے بے جا اخراجات پر چیک لگانا، بجٹ خسارے پر حد لگانا اس کے ساتھ ساتھ کیونکہ آپ کو پتہ ہے کہ یہ ملک قرضوں پر چل رہا ہے تو یہ بھی یقینی بنانا کہ پاکستان جو قرضے لیتا ہے وہ ایک حد سے زیادہ تجاوز نہ کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کی اگر بات کریں تو تعلقات میں تلخی اپنی جگہ موجود ہے لیکن لگتا یہ ہے کہ پاکستان نے جو کچھ فیصلے لیے تھے ان میں نظرثانی کر رہا ہے۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کشیدگی کے باوجود حال ہی میں پاکستان کے خصوصی نمائندے برائے افغانستان محمد صادق نے کابل کا جو دورہ کیا تھا، جہاں دونوں ملکوں کے درمیان ٹی ٹی پی کا ایشو ہے، تجارت کے بھی ایشوز ہیں۔
خاص کر جو افغانستان کی حکومت ہے ان کو پاکستان کے کئی فیصلوں پراعتراضات ہیںاب ای سی سی نے اعتماد سازی کے لیے گوادر پورٹ کے ذریعے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے لیے بڑا فیصلہ کیا ہے۔