قومی زبانوں کا مسئلہ
آئین میں اٹھارویں ترمیم کے مطابق نصاب تعلیم صوبوں کا اختیار اور ذمے داری ہے
وفاقی وزیر مملکت برائے تعلیم و تربیت محمد بلیغ الرحمن نے 9 جولائی کو نصاب اور صوبائی خود مختاری کے عنوان سے شایع ہونے والے آرٹیکل پر فوری توجہ دی، انھوں نے راقم الحروف کو ٹیلیفون پر بتایا کہ وفاقی حکومت نصاب کے معاملے میں صوبائی خود مختاری میں مداخلت نہیں کر رہی ہے، وزیر موصوف نے اپنی گفتگو میں بعض اخبارات میں شایع ہونے والی خبر کی بھی تردید کی کہ ان کی وزارت ہائر ایجوکیشن کمیشن کی خود مختاری کو ختم کرنے کی خواہاں ہے۔
بلیغ الرحمن نے وضاحت سے کہا کہ ایچ ای سی ایک خود مختار ادارہ ہے، اس کے سربراہ ڈاکٹر مختار معروف ماہر تعلیم ہیں اور ان کا تقرر میرٹ پر ہوا ہے۔ اس صورت میں ایچ ای سی کو وزیر اعظم ہائوس یا ایوان صدر سے رابطے کے لیے وزارت تعلیم کے تابع کرنے کی تجویز پیش نہیں کی گئی۔ ان کا تحریر ی موقف صحافت کے مسلمہ اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے شایع کیا جا رہا ہے۔
''روزنامہ ایکسپریس 9 جولائی 2014ء کو نصاب اور صوبائی خود مختاری کے عنوان سے چھپنے والے آپ کے ایک مضمون میں اس امر کی طرف شاید کچھ اخباری خبروں کی وجہ سے یہ اشارہ کیا گیا ہے کہ وزارت تعلیم کے ایک اجلاس میں وفاقی وزیر مملکت برائے تعلیم و تربیت محمد بلیغ الرحمن نے قومی نصاب کونسل بنانے کی تجویز دے کر نصاب کے معاملے میں صوبائی خود مختاری کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ درحقیقت حکومت، وزیر مملکت اور وزارت آئین کو بالاتر اور مقدس جانتی ہے اور ایسا کوئی بھی کام کرنے کا سوچا بھی نہیں جا سکتا جو خلاف آئین ہو۔
آئین میں اٹھارویں ترمیم کے مطابق نصاب تعلیم صوبوں کا اختیار اور ذمے داری ہے اور ہر صوبہ اپنی ضروریات، مقاصد اور انفرادیت کو سامنے رکھتے ہوئے نصاب ترتیب دینے اور مقرر کرنے کا حق رکھتا ہے۔ تاہم یہ امر بھی ہے کہ نصاب کی تیاری اور بہتری کے لیے جن وسائل کی ضرورت ہے وہ تمام صوبوں کے پاس یکساں طور پر میسر نہیں ہیں یہی وجہ ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے نفاذ کے بعد اس خدشے کا اظہار مختلف حلقوں سے بار ہا کیا جاتا رہا کہ نسبتاََ بڑے اور چھوٹے صوبوں کے نصاب کے درمیان تفاوت اتنا بڑھ نہ جائے کہ مختلف علاقوں کے رہنے والے ایک ہی جماعت کے طلباء کے درمیان تعلیمی موازنہ ممکن نہ رہے۔
چنانچہ اہمیت اس امر کی تھی کہ ملک بھر میں کم از کم معیار تعلیم اور کم از کم پڑھائے جانے والے نصاب کو مشترکہ طور پر باہمی اتفاق سے طے کر لیا جائے تا کہ معیاری تعلیم کے حوالے سے ضروری ہم آہنگی اور یکسانیت ممکن ہو سکے۔ ان امور کے پیش نظر وزیر مملکت برائے وفاقی تعلیم محمد بلیغ الرحمن نے صوبائی وزرائے تعلیم کے حوالے سے تجویز رکھی کہ قومی نصاب کونسل کا قیام عمل میں لایا جائے جس کا مقصد ملک میں کم از کم معیار کے تعلیم کے حوالے سے سفارشات مرتب کرنا، نصاب کی تیاری اور بہتری کے لیے صوبوں کو تکنیکی معاونت کی فراہمی کو ممکن بنانا اور نصاب کے حوالے سے بین الصوبائی تعاون کو فروغ دینا ہوگا۔
مزید یہ کہ مجوزہ کونسل کسی بھی طور پر وزارت وفاقی تعلیم و تربیت کے ماتحت کام نہیں کرے گی بلکہ براہ راست بین الصوبائی وزرائے تعلیم فورم کو رپورٹ کرے گی، اس میں وفاقی وزارت تعلیم کو نمایندگی باقی صوبوں کے مساوی تجویز دی گئی ہے۔ قومی نصاب کونسل کے قیام کی تجویز بین الصوبائی وزرائے تعلیم فورم 2014ء میں ہونے والے پہلے اجلاس جو کہ مورخہ 11 فروری 2014ء کو منعقد ہوا تھا میں پیش ہوئی تھی جس میں تمام صوبائی وزرائے تعلیم اور نمایندگان نے اس تجویز کو بالعموم سراہا تھا۔
مندرجہ بالا تفصیلات سے یہ واضح ہے کہ وفاقی حکومت یا اس کی کوئی بھی وزارت تعلیم کے میدان میں صوبائی خود مختاری میں کسی بھی طرح کی مداخلت نہیں کرنا چاہتی بلکہ ہمارا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ ہم باہمی اتفاق اور رضامندی سے اپنے نصاب کو اس طرح ترتیب دے سکیں کہ ملک کی مشترکہ نظریاتی اثاثہ ہمارے قومی ہیروز اور ہماری بنیادی دینی تعلیمات کو اجاگر ہو سکیں اور پور ے ملک میں کم از کم معیار تعلیم پر ہم آہنگی پیدا کی جا سکے۔
مسلم لیگ ن کی رہنما ماروی میمن نے تین سالوں کے دوران دوسری دفعہ قومی زبانوں کے بل کا مسودہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کو پیش کیا۔ ماروی میمن کے اس مسودے میں بلوچی، بلتی، براوہی، پنجابی، پشتو، سندھی، سرائیکی اور ہندکو زبان کو قومی زبانوں کا درجہ دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا، قائمہ کمیٹی کی اکثریت نے ان کے موقف کو مسترد کر دیا، اجلاس میں شریک وزارت قانون کے اسپیشل سیکریٹری نے مسودے میں کئی قانونی خامیاں بیان کیں، منتخب اراکین نے ایک بیوروکریٹ کے موقف کو تسلیم کیا۔ یوں قومی زبانوں کا معاملہ داخل دفتر ہوا، پاکستان میں زبانوں کی سیاست نے ملک کی یکجہتی کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔
پاکستان بنانے کی جدوجہد میں دو صوبے بنگال او ر سندھ سب سے آگے تھے، ان دونوں صوبوں کی اسمبلیوں نے سب سے پہلے قرارداد پاکستان کی توثیق کی تھی، ان صوبوں کی پاکستا ن کی حمایت کی اور وجوہات میں ایک بڑی وجہ مسلم لیگ کی قائد اعظم کی قیادت میں چھوٹے صوبوں کے حقوق کی جدوجہد تھی مگر جب پاکستان بنا تو مسلم لیگ کی قیادت صوبوں کے حقوق ان کی نصاب کی اہمیت کو محسوس نہ کر سکی یوں ڈھاکہ یونیورسٹی میں طلبہ کے سامنے اردو کو قومی زبان قرار دینے کی تقریر سے ایک تنازعہ شروع ہوا۔
مشرقی پاکستان کے طالب علموں، دانشوروں نے اس فیصلے کو تسلیم نہیں کیا اور ایک لسانی تحریک کو تقویت ملی۔ بعد میں برسر اقتدار حکومتوں نے اردو کے ساتھ بنگالی زبان کو بھی قومی زبان قرار دینے کا فیصلہ کیا، جنرل ایوب خان نے مارشل لگایا تو ٹکا خان حیدرآباد ڈویژن کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر ہوئے۔ انھوں نے سندھی زبان کی تدریس پر پابندی عائد کر دی یوں قدیم سندھی زبان کی تدریس پر پابندی سے صوبہ سندھ میں ناخوشگوار نتائج برآمد ہوئے، ایک طرف تو سندھیوں میں احساس محرومی پیدا ہوا دوسری طرف ہندوستان سے آ کر آباد ہونے والے مہاجروں کے بچے سندھی زبان سیکھنے سے محروم ہوئے۔
پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت نے سندھی زبان کو سندھی کی سرکاری زبان بنانے کا قانون نافذ کیا تو جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے پاکستان کی قیادت نے اس بل کے خلاف شہروں میں تحریک چلا دی، اس تحریک کے نتیجے میں سندھ کی یکجہتی پارہ پارہ ہوئی، دوسری طرف ان مذہبی جماعتوں نے اپنی تباہی کا انتظام کر لیا اور 15 سال بعد یہ مذہبی جماعتیں اردو بولنے والوں کی قیادت سے محروم ہو گئیں۔
دنیا کے دوسرے ممالک خاص طور پر سوویت یونین، چین اور بھارت میں بھی ایسی ہی صورتحال تھی مگر سوویت یونین میں1917ء میں سوشلسٹ انقلاب کے بعد ولادیمیرلینن نے جو آئین نافذ کیا تھا اس میں تمام ریاستوں کی زبانوں کو تحفظ فراہم کیا گیا تھا، یوں تمام ریاستوں کے تعلیم ، صحت اور انسانی وسائل میں حیرت انگیز ترقی کی۔ یہ ہی وجہ تھی کہ جب 1991ء میں سوویت یونین ختم ہوا تو کوئی خون خرابا نہیں ہوا، بھارت میں 22 زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ دیا گیا، مگر انڈین سول سروس کے امتحان میں ان زبانوں میں امتحان دینے کی اجازت ہے، مگر انگریزی کا جامع امتحان پاس کرنا ضروری ہے۔ مسلم لیگ ن نے اپنے منشور میں صوبوں کی زبانوں اور ثقافت کے تحفظ کی یقین دہانی کرائی ہے، اس صورتحال میں ضروری ہے کہ ماروی میمن کی تجاویز پر سنجیدگی سے غور کیا جائے۔
بلیغ الرحمن نے وضاحت سے کہا کہ ایچ ای سی ایک خود مختار ادارہ ہے، اس کے سربراہ ڈاکٹر مختار معروف ماہر تعلیم ہیں اور ان کا تقرر میرٹ پر ہوا ہے۔ اس صورت میں ایچ ای سی کو وزیر اعظم ہائوس یا ایوان صدر سے رابطے کے لیے وزارت تعلیم کے تابع کرنے کی تجویز پیش نہیں کی گئی۔ ان کا تحریر ی موقف صحافت کے مسلمہ اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے شایع کیا جا رہا ہے۔
''روزنامہ ایکسپریس 9 جولائی 2014ء کو نصاب اور صوبائی خود مختاری کے عنوان سے چھپنے والے آپ کے ایک مضمون میں اس امر کی طرف شاید کچھ اخباری خبروں کی وجہ سے یہ اشارہ کیا گیا ہے کہ وزارت تعلیم کے ایک اجلاس میں وفاقی وزیر مملکت برائے تعلیم و تربیت محمد بلیغ الرحمن نے قومی نصاب کونسل بنانے کی تجویز دے کر نصاب کے معاملے میں صوبائی خود مختاری کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ درحقیقت حکومت، وزیر مملکت اور وزارت آئین کو بالاتر اور مقدس جانتی ہے اور ایسا کوئی بھی کام کرنے کا سوچا بھی نہیں جا سکتا جو خلاف آئین ہو۔
آئین میں اٹھارویں ترمیم کے مطابق نصاب تعلیم صوبوں کا اختیار اور ذمے داری ہے اور ہر صوبہ اپنی ضروریات، مقاصد اور انفرادیت کو سامنے رکھتے ہوئے نصاب ترتیب دینے اور مقرر کرنے کا حق رکھتا ہے۔ تاہم یہ امر بھی ہے کہ نصاب کی تیاری اور بہتری کے لیے جن وسائل کی ضرورت ہے وہ تمام صوبوں کے پاس یکساں طور پر میسر نہیں ہیں یہی وجہ ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے نفاذ کے بعد اس خدشے کا اظہار مختلف حلقوں سے بار ہا کیا جاتا رہا کہ نسبتاََ بڑے اور چھوٹے صوبوں کے نصاب کے درمیان تفاوت اتنا بڑھ نہ جائے کہ مختلف علاقوں کے رہنے والے ایک ہی جماعت کے طلباء کے درمیان تعلیمی موازنہ ممکن نہ رہے۔
چنانچہ اہمیت اس امر کی تھی کہ ملک بھر میں کم از کم معیار تعلیم اور کم از کم پڑھائے جانے والے نصاب کو مشترکہ طور پر باہمی اتفاق سے طے کر لیا جائے تا کہ معیاری تعلیم کے حوالے سے ضروری ہم آہنگی اور یکسانیت ممکن ہو سکے۔ ان امور کے پیش نظر وزیر مملکت برائے وفاقی تعلیم محمد بلیغ الرحمن نے صوبائی وزرائے تعلیم کے حوالے سے تجویز رکھی کہ قومی نصاب کونسل کا قیام عمل میں لایا جائے جس کا مقصد ملک میں کم از کم معیار کے تعلیم کے حوالے سے سفارشات مرتب کرنا، نصاب کی تیاری اور بہتری کے لیے صوبوں کو تکنیکی معاونت کی فراہمی کو ممکن بنانا اور نصاب کے حوالے سے بین الصوبائی تعاون کو فروغ دینا ہوگا۔
مزید یہ کہ مجوزہ کونسل کسی بھی طور پر وزارت وفاقی تعلیم و تربیت کے ماتحت کام نہیں کرے گی بلکہ براہ راست بین الصوبائی وزرائے تعلیم فورم کو رپورٹ کرے گی، اس میں وفاقی وزارت تعلیم کو نمایندگی باقی صوبوں کے مساوی تجویز دی گئی ہے۔ قومی نصاب کونسل کے قیام کی تجویز بین الصوبائی وزرائے تعلیم فورم 2014ء میں ہونے والے پہلے اجلاس جو کہ مورخہ 11 فروری 2014ء کو منعقد ہوا تھا میں پیش ہوئی تھی جس میں تمام صوبائی وزرائے تعلیم اور نمایندگان نے اس تجویز کو بالعموم سراہا تھا۔
مندرجہ بالا تفصیلات سے یہ واضح ہے کہ وفاقی حکومت یا اس کی کوئی بھی وزارت تعلیم کے میدان میں صوبائی خود مختاری میں کسی بھی طرح کی مداخلت نہیں کرنا چاہتی بلکہ ہمارا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ ہم باہمی اتفاق اور رضامندی سے اپنے نصاب کو اس طرح ترتیب دے سکیں کہ ملک کی مشترکہ نظریاتی اثاثہ ہمارے قومی ہیروز اور ہماری بنیادی دینی تعلیمات کو اجاگر ہو سکیں اور پور ے ملک میں کم از کم معیار تعلیم پر ہم آہنگی پیدا کی جا سکے۔
مسلم لیگ ن کی رہنما ماروی میمن نے تین سالوں کے دوران دوسری دفعہ قومی زبانوں کے بل کا مسودہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کو پیش کیا۔ ماروی میمن کے اس مسودے میں بلوچی، بلتی، براوہی، پنجابی، پشتو، سندھی، سرائیکی اور ہندکو زبان کو قومی زبانوں کا درجہ دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا، قائمہ کمیٹی کی اکثریت نے ان کے موقف کو مسترد کر دیا، اجلاس میں شریک وزارت قانون کے اسپیشل سیکریٹری نے مسودے میں کئی قانونی خامیاں بیان کیں، منتخب اراکین نے ایک بیوروکریٹ کے موقف کو تسلیم کیا۔ یوں قومی زبانوں کا معاملہ داخل دفتر ہوا، پاکستان میں زبانوں کی سیاست نے ملک کی یکجہتی کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔
پاکستان بنانے کی جدوجہد میں دو صوبے بنگال او ر سندھ سب سے آگے تھے، ان دونوں صوبوں کی اسمبلیوں نے سب سے پہلے قرارداد پاکستان کی توثیق کی تھی، ان صوبوں کی پاکستا ن کی حمایت کی اور وجوہات میں ایک بڑی وجہ مسلم لیگ کی قائد اعظم کی قیادت میں چھوٹے صوبوں کے حقوق کی جدوجہد تھی مگر جب پاکستان بنا تو مسلم لیگ کی قیادت صوبوں کے حقوق ان کی نصاب کی اہمیت کو محسوس نہ کر سکی یوں ڈھاکہ یونیورسٹی میں طلبہ کے سامنے اردو کو قومی زبان قرار دینے کی تقریر سے ایک تنازعہ شروع ہوا۔
مشرقی پاکستان کے طالب علموں، دانشوروں نے اس فیصلے کو تسلیم نہیں کیا اور ایک لسانی تحریک کو تقویت ملی۔ بعد میں برسر اقتدار حکومتوں نے اردو کے ساتھ بنگالی زبان کو بھی قومی زبان قرار دینے کا فیصلہ کیا، جنرل ایوب خان نے مارشل لگایا تو ٹکا خان حیدرآباد ڈویژن کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر ہوئے۔ انھوں نے سندھی زبان کی تدریس پر پابندی عائد کر دی یوں قدیم سندھی زبان کی تدریس پر پابندی سے صوبہ سندھ میں ناخوشگوار نتائج برآمد ہوئے، ایک طرف تو سندھیوں میں احساس محرومی پیدا ہوا دوسری طرف ہندوستان سے آ کر آباد ہونے والے مہاجروں کے بچے سندھی زبان سیکھنے سے محروم ہوئے۔
پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت نے سندھی زبان کو سندھی کی سرکاری زبان بنانے کا قانون نافذ کیا تو جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے پاکستان کی قیادت نے اس بل کے خلاف شہروں میں تحریک چلا دی، اس تحریک کے نتیجے میں سندھ کی یکجہتی پارہ پارہ ہوئی، دوسری طرف ان مذہبی جماعتوں نے اپنی تباہی کا انتظام کر لیا اور 15 سال بعد یہ مذہبی جماعتیں اردو بولنے والوں کی قیادت سے محروم ہو گئیں۔
دنیا کے دوسرے ممالک خاص طور پر سوویت یونین، چین اور بھارت میں بھی ایسی ہی صورتحال تھی مگر سوویت یونین میں1917ء میں سوشلسٹ انقلاب کے بعد ولادیمیرلینن نے جو آئین نافذ کیا تھا اس میں تمام ریاستوں کی زبانوں کو تحفظ فراہم کیا گیا تھا، یوں تمام ریاستوں کے تعلیم ، صحت اور انسانی وسائل میں حیرت انگیز ترقی کی۔ یہ ہی وجہ تھی کہ جب 1991ء میں سوویت یونین ختم ہوا تو کوئی خون خرابا نہیں ہوا، بھارت میں 22 زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ دیا گیا، مگر انڈین سول سروس کے امتحان میں ان زبانوں میں امتحان دینے کی اجازت ہے، مگر انگریزی کا جامع امتحان پاس کرنا ضروری ہے۔ مسلم لیگ ن نے اپنے منشور میں صوبوں کی زبانوں اور ثقافت کے تحفظ کی یقین دہانی کرائی ہے، اس صورتحال میں ضروری ہے کہ ماروی میمن کی تجاویز پر سنجیدگی سے غور کیا جائے۔