مسئلہ ختم نبوت، عقیدہ اور سیاست
پاکستانی سماج اور سیاست کی ساخت میں چند دیگر عوامل کے ساتھ ختم نبوت کے معاملے کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔
اہل اسلام خواہ کسی خطے سے بھی تعلق رکھنے والے کیوں نہ ہوں، اس معاملے میں بے حد حساس اور جذباتی ہی نہیں بلکہ ذرا سی گنجائش دینے پر بھی آمادہ نہیں۔ یہ دنیا بھر مسلمانوں کا عمومی معاملہ ہے۔ دنیا کے دیگر مسلمان معاشروں کے مقابلے میں پاکستانی مسلمانوں کے جذبات میں زیادہ شدت اور حدت پائی جاتی ہے۔ اس ضمن میں مذہبی طبقات اور جدید تعلیم یافتہ طبقے کے جذبات میں بھی عام طور پر کوئی فرق دکھائی نہیں دیتا۔ اس کا ایک نہایت ہی معمولی سا مظاہرہ سوشل میڈیا کے مختلف فورموں پر دکھائی دیتا رہتا ہے جس میں کہا جاتا ہے:
'میں قادیانیوں مرزائیوں کو بغیر دلیل کے کافر مانتا ہوں۔'
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ کوئی اس مضمون کی پوسٹ شیئر کر دیتا ہے تو لوگ دھڑا دھڑ اسے لائک اور ری پوسٹ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ان میں مذہبی طبقات اور جدید پڑھے لکھے طبقات میں عام طور پر کوئی فرق نہیں ہوتا۔ جذبے کی ایسی شدت پاکستان کے سوا کہیں اور دکھائی نہیں دیتی۔ اس کا سبب کیا ہے؟
اس کا سبب یہ ہے کہ دیگر مسلمان معاشروں کے مقابلے میں پاکستانی سماج میں ایک فرق ہے۔ غیر منقسم ہندوستان کے صوبہ پنجاب کے انیسویں صدی کے اواخر میں دعوائے نبوت کیا گیا تھا۔ عیسائی پادریوں کے ساتھ مناظروں سے شہرت پانے والے غلام احمد قادیانی کا اپنی نام نہاد نبوت کی طرف سفر بہ تدریج ہوا۔ انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ انھیں الہام کے ذریعے بیعت لینے کا حکم دیا گیا ہے۔ عمومی طور یہ دیکھا گیا ہے کہ مناظرے باز لوگوں کے پیرو کاروں کی اکثریت جذباتی اور سطحی ہوتی ہے۔ ان کی توجہ جلد کسی معاملے کی جانب موڑی بھی جا سکتی ہے اور انھیں گم راہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ غلام احمد قادیانی کے ضمن میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا اور وہ بھی اپنے گرد عقیدت مندوں کا ایک حلقہ جمع کرنے میں کام یاب ہو گئے۔ ان کے عقیدت مندوں میں ختم نبوت پر غیر متزلزل یقین رکھنے مسلمانوں سے تعلق واسطہ رکھنے والے لوگ بھی شامل تھے۔ بعض صورتوں میں تو خون کے رشتے بلکہ بھائی بہن بھی دیکھے گئے ہیں۔ کسی سماج میں ایسی کیفیت پیدا ہو جائے تو اس کے نتیجے میں کشمکش اور جذبات میں شدت کا پیدا ہو جانا فطری ہے۔ پاکستان میں بھی یہی ہوا ہے۔ یہ معاملے کا دوسرا اہم ترین پہلو ہے۔
ختم نبوت کے ضمن میں ایک اور پہلو بھی غیر معمولی ہے جس کا تعلق ان غیر معمولی اور ہنگامہ خیز تحریکوں سے ہے جن کی وجہ سے پاکستانی سماج کی نفسیاتی تشکیل ہوئی۔ یہی سبب ہے کہ کسی دینی مدرسے سے فارغ التحصیل ہو کر نکلنے والا شخص ہو یا کالجوں اور یونیورسٹیوں کے تعلیم یافتہ لوگ، ہر دو اس معاملے میں ایک جیسے جذبات رکھتے ہیں اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت اور حرمت کے مقابلے میں اپنے جان و مال کی قربانی کو بھی ہیچ جانتے ہیں۔
پاکستان سماج میں اس جذبے کی تشکیل میں ایک تو اس قضیے تعلق رکھنے والے معاملے نے کلیدی کردار ادا کیا جس کا تعلق خطہ پنجاب میں اس جعلی نبوت کے دعوے اور لوگوں کے اپنے ارد گرد کے یعنی جاننے والے افراد کے اس کی طرف مائل ہو جانا تھا لیکن اس بنیادی معاملے کے علاوہ بھی ایک اہم وجہ ہے۔ یہ وجہ 1953 اور 1974 کی تحریکیں رہی ہیں۔ ان تحریکوں کی ہمارے سماج کی ساخت میں ایک ایسی خصوصیت پیدا کر دی جو صرف پاکستان کے لیے خاص ہے۔ یہی سبب ہے کہ اس اہم دینی معاملے پر ہمارے یہاں مسلسل سرگرمی رہتی ہے۔
مجلس احرار اسلام اور ختم نبوت کے نام سے منظم تنظیموں کی طرف سے قادیانی مرکز واقع چناب نگر میں ہر سال ختم نبوت کانفرنس تو منعقد ہوتی ہی ہے، اس کے علاوہ بھی دینی جماعتیں سارا سال متحرک رہتی ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام کے زیر اہتمام کچھ عرصہ قبل اقبال پارک لاہور میں اس موضوع پر ایک بہت بڑا جلسہ ہوا جس میں لاکھوں افراد نے شرکت کی۔ اسی طرح پاکستانی عوام جب یہ محسوس کریں کہ فیصلہ سازی کے کسی فورم پر کوئی سہو یا کمزوری کا مظاہرہ ہو رہا ہے تو وہ بلا تفریق سیاست اور رنگ و نسل خود کار طریقے سے نہ صرف فعال ہو جاتے ہیں بلکہ سیسہ پلائی دیوار بن جاتے ہیں۔ اس سرگرمی کے ساتھ ساتھ لٹریری محاذ پر بھی سرگرمی جاری رہتی ہے جس میں تحریک ختم نبوت کے مختلف فورم اپنے اپنے انداز میں کام کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہمارے دوست جناب محمد متین خالد چیمہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں جنھوں نے اپنی زندگی ہی اس کام کے لیے وقف کر دی ہے۔ چیمہ صاحب جیسے مشنری لوگوں کے علاوہ جس صاحب دل کو بھی موقع ملتا ہے، وہ اس معاملے میں اپنا حصہ ڈال کر اپنی عاقبت سنوار لینا چاہتا ہے۔ ان میں ایک نمایاں شخصیت جناب جمیل اطہر قاضی کی ہے، حال ہی میں جنھوں نے ایک ضخیم کتاب ' مسئلہ ختم نبوت ' کے نام سے مرتب کی ہے۔ تقریبا گیارہ سو صفحات پر مشتمل یہ کتاب علامہ عبد الستار عاصم کے ادارے قلم فانڈیشن نے بڑے اہتمام شائع کی ہے اور انتہائی کم قیمت رکھی ہے، دیکھتے ہی دیکھتے اس کتاب کا پہلا ایڈیشن ختم ہو گیا ہے اور اب اس کا دوسرا ایڈیشن اشاعت کے مراحل میں ہے۔
کسی کتاب کی مقبولیت کا باعث تو اس کا موضوع ہی ہوتا ہے اور ختم نبوت جیسا موضوع ظاہر ہے کہ پاکستانی عوام کے دل سے بہت قریب ہے۔ کتاب کی مقبولیت یقینا اہمیت رکھتی ہے۔ مقبولیت اپنی جگہ لیکن ایک چیز اس سے بھی بڑھ کر ہے، وہ ہے، مسئلے کی نوعیت۔ اس کا تعلق سماج، سیاست اور نفسیات، سب سے ہے۔ مخدومی مجیب الرحمن شامی درست فرماتے ہیں کہ جمیل اطہر قاضی صاحب نے اپنی مرتب کردہ اس کتاب میں مسلمانوں کے لیے دینی اور جذباتی اہمیت رکھنے والے تمام پہلو اجاگر کر دیے ہیں۔ اس طرح ختم نبوت کا مسئلہ سمجھنے میں دل چسپی رکھنے والے کسی عام فرد یا محقق کو تمام تر تفصیلات اسی ایک کتاب میں مل جاتی ہیں۔ کتاب کی اہمیت کا ان عظیم المرتبت ناموں سے بھی ہوتا ہے جن کی تحریریں کتاب میں شامل ہیں۔ان جلیل القدر بزرگوں اور علما میں مولانا سید ابو الاعلی مودودی، مولانا ثنا اللہ امرتسری، مولانا حکیم عبد الرحیم اشرف، علامہ محمد انور شاہ کشمیری، محمد شفیق پسروری، ڈاکٹر زاہد اشرف، مولانا محمد یوسف لدھیانوی، محمد متین خالد، مولانا زاہد الراشدی، مولانا مجاہد الحسینی اور مولانا محمد حنیف جالندھری سمیت بہت سے دیگر علمائے کرام اور دانش ور شامل ہیں۔ جمیل اطہر قاضی صاحب نے ان تحریروں کو نہایت عرق ریزی کے ساتھ زمانی اور موضوعاتی اعتبار سے اس حکمت کے ساتھ مرتب کیا ہے کہ عقیدے اور تحریک کے ضمن میں کوئی پہلو اوجھل نہیں رہا۔ یوں یہ کتاب ان کے لیے توشہ آخرت بن گئی ہے جس کے لیے وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔
اس موضوع سے متعلق ایک پہلو اور بھی ہے جس کا حق جمیل اطہر قاضی صاحب جیسے صاحب نظر دانش ور ہی ادا کر سکتے ہیں۔ ختم نبوت جیسے انتہائی حساس اور دینی مسئلے کا ایک پہلو تو وہ ہے جس کا یہاں ذکر ہوا ہے لیکن ایک پہلو اور بھی ہے جس سے عام طور پر سیاسی طالع آزماؤں نے فائدہ اٹھایا جیسے 1953 کی تحریک کے موقع پر پنجاب اور مرکز میں موجود مفاد پرست جنھوں نے ایمان اور عقیدے سے تعلق رکھنے والے اس اہم ترین معاملے کو اپنی سیاسی رقابت کے لیے استعمال کیا۔ نتیجے میں نہ صرف پاکستان عدم استحکام کا شکار ہوا بلکہ آئین سازی کا ضروری کام بھی کئی برس کے لیے تاخیر کا شکار ہو گیا۔ محلاتی سازشوں کا یہ مکروہ طرز عمل صرف 1953 تک محدود نہیں رہا بلکہ اب تک جاری ہے۔ جناب جمیل اطہر قاضی جیسی شخصیات کی معاملے کے اس پہلو پر توجہ ناگزیر ہے تاکہ وہ طالع آزما بے نقاب ہو سکیں جنھوں نے دین حق کے اس اہم ترین مسئلے کو اپنے حقیر مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی سازشیں کیں اور ملک و ملت کو نقصان پہنچایا۔ عقیدہ ختم نبوت کی حفاظت کے لیے ملک و ملت کی اس پہلو سے تربیت بھی ناگزیر ہے۔