ٹرمپ کا صدارت کی کرسی سنبھالنے کے بعد غزہ جنگ بندی پر مایوس کن بیان
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ جنگ بندی کا کریڈٹ لینے کے باوجود کہا ہے کہ انہیں اعتماد نہیں ہے کہ یہ جنگ بندی پائیدار ہوگی۔
امریکی نشریاتی ادارے (سی این این) کی رپورٹ کے مطابق اپنے دفتر میں صحافی کے غزہ جنگ بندی کے حوالے سے سوال پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ وہ پراعتماد نہیں ہیں، یہ ہماری جنگ نہیں ہے بلکہ ان کی جنگ ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں نے غزہ کی ایک تصویر دیکھی اورغزہ تباہ شدہ علاقے کی مانند ہے اور اس جگہ کی تعمیر واقعی میں ایک مختلف انداز میں کرنی ہوگی۔
غزہ جنگ بندی پر امریکی صدر کا مایوس کن بیان صرف ان تک محدود نہیں ہے بلکہ اسرائیلی کابینہ کے مختلف اراکین کا بھی اپنی حکومت اور ان پر دباؤ ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ جنگ بندی حماس کی فتح ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غزہ جنگ بندی کے حوالے سے یہ بیان چند گھنٹے قبل صدارت کے عہدے کا حلف اٹھانے کے وقت کی گئی تقریر کے بالکل برعکس ہے جہاں انہوں نے کہا تھا کہ وہ جنگوں کی فتوحات کی بنیاد پر اپنی کامیابیاں شمار نہیں کریں گے بلکہ جنگوں کا خاتمہ بھی اہم ہوگا۔
امریکا کے نئے صدر نے دفتر کا چارج سنبھالنے کے بعد ابتدائی طور پر جن انتظامیہ احکامات پر دستخط کیے تھے، ان میں سابق صدر بائیڈن کی جانب سے مغربی کنارے میں تشدد کے ذمہ دار اسرائیلی آباد کاروں پر عائد کی گئی پابندی منسوخ کرنا بھی شامل تھا۔
یہ بھی پڑھیں: غزہ جنگ بندی کے معاہدے سے فلسطین کی آزادی کی راہ ہموار ہوئی ہے، حماس
ٹرمپ نے غزہ میں حکمرانی سے متعلق ایک سوال پر گزشتہ روز حماس کا نام لیے بغیر اس طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہاں جو لوگ نظر آرہے ہیں وہ بالکل نہیں ہوسکتے، ان میں سے اکثر تو شہید ہوگئے ہیں لیکن وہ درست انداز میں نہیں چلا پائے۔
ان کا کہنا تھا کہ غزہ کو ان لوگوں نے بدترین اور کشیدہ انداز میں چلایا، اس لیے وہ تو نہیں ہوسکتے ہیں۔
ایک اور سوال پر انہوں نے کہا تھا کہ غزہ کی بحالی میں ہوسکتا ہے کوئی کردار ہو اور غزہ کی جغرافیائی صورت حال کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ سمندر اور بہترین موسم کے ساتھ یہ غیرمعمولی مقام ہے۔
اسرائیلی وزیر خزانہ بیزالیل اسمورٹرک نے اس اقدام پر ٹرمپ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنی قومی سلامتی، پورے علاقے میں آباد کاروں کی توسیع اور دنیا میں اسرائیل کی پوزیشن مضبوط بنانے کے لیے مزید سود مند تعاون جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہوں۔
مزید پڑھیں: حماس کی جانب سے رہا کی جانے والی تین اسرائیلی خواتین قیدی کون ہیں؟
بیزالیل اسمورٹرک ان اسرائیلی وزرا میں سے ایک ہے جو غزہ میں یہودی آباد کاری کے خواہاں ہیں جبکہ 2005 کے معاہدے کے تحت اس کی اجازت نہیں ہے جبکہ بیزالیل نے اس وقت بھی مذکورہ معاہدے کے خلاف احتجاج کیا تھا اور مختصر وقت کے لیے گرفتار بھی کرلیا گیا تھا۔
یاد رہے کہ 16 جنوری کو قطر، مصر اور امریکی ثالثی میں حماس اور اسرائیل کے درمیان 3 مراحل پر مشتمل جنگ بندی کا معاہدہ ہوا تھا، جس پر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ ان کی کوششوں سے یہ ممکن ہوا ہے۔
بعد ازاں دونوں فریقین نے معاہدے کے تحت قیدیوں کا تبادلہ کیا اور حماس نے اس معاہدے کو اپنے مؤقف کی جیت قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اس سے فلسطین کی آزادی کی راہ ہموار ہوئی ہے۔